Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 15, 2019

بدلتے احوال!!!! علم کا اندازہ پیٹ سے !!!


*فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی، کی تحریر/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
موجودہ زمانہ میں علم کی علامت موٹا وفربہ بدن، عمدہ لباس، بنگلہ دیشی ٹوپی، جس ٹوپی کاہر عام وخاص دلدادہ ہے، عوام الناس کے ذہن ودماغ کے اندر یہ بات بس گئی جو عالم دین جتنا بڑا علم والاہوگا اس کاپیٹ بھی اتنا ہی بڑا ہوگا، علم کی معرفت کایہ پیمانہ کہاں سے رائج ہوا اور عوام الناس وخواص کو اس قدر متاثر کیا، کہ جزء لاینفک کے درجہ میں پہنچ گیاہے، اس کے پیچھے کون سے عوامل واسباب کارفرماہیں مجھے اس کااداراک نہیں!
عصرحاضرمیں یہ علامت سی بن گئی ہے جس طرح دھواں بولتے ہی آگ کی طرف لوگوں کاذہن منتقل ہوتا ہے، ایسے عالم کہتے ہی "بڑا پیٹ "کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے،عالم کے ساتھ ساتھ اگر مفتی بھی ہو تو علامت کے اعتبار سے مفتی کاپیٹ کچھ اور ہی بڑا ہونا شرط ہے! مفتی کے لئے بھاری بھرکم جسم کاہونا شروط لازمہ میں سے ہے، موجودہ زمانہ میں علم کے ساتھ عوام الناس نے جوشرائط مقرر کئے ہیں، ان پر کھرااترنا لازم ہے، اگر مفتی ہیں، اور ان شرائط کے موافق نہیں ہیں تو آپ کے لئے کبھی کبھار مشکلات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے،اگر آپ مفتی کے ساتھ ساتھ مقرر بھی ہیں توآپ کے پیٹ میں مزید اضافہ کا ہونا انتہائی ضروری ہے، اور آپ مفتی کے ساتھ  مضمون نگار ہیں، اصلاحی مضمون لکھتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں آپ کی تحریر پڑھنے والے ہیں، اور آپ سے ایک جم غفیر مسائل معلومات کرے توعوام الناس کے مذکورہ شرائط کے مطابق اس کاپیٹ انتہائی بھاری بھرکم ہونا لازم ہے،لیکن جو ان شرائط کے مطابق نہ ہو بھلے ہی بے پناہ صلاحیت کامالک ہو، عمدہ مضمون نگار ہو، لیکن اگر پیٹ کے اعتبار سے کمزور ہے تووہ کچھ بھی نہیں کیونکہ موجودہ زمانے میں علم کاپیمانہ بڑا پیٹ ہونا ہے، جوجتنا بڑا پیٹ والاہے وہ عوام الناس میں اتنا بڑا عالم سمجھاجاتا ہے،الحمدللہ ہمارے علماء بھی اس سمت میں پیچھے نہیں، پیٹ کوبڑا کرنے میں رواں دواں ہیں، بھلے ہی علم میں کچھ کمی ہو کسی مسلہ میں تحقیق نہ ہو، نحووصرف کمزور ہو، فصاحت وبلاغت سے بھینٹ نہ ہو، فن تفسیر سے ناآشنا ہو، قرآن کریم کاپورا ترجمہ کرنے پر قادر نہ ہو، علم فلسفہ ومنطق سے ناواقف ہوچلے گا لیکن پیٹ میں کسی بھی قسم کی کمی ہو ہرگز گوارہ نہیں، اور گوارہ بھی ہوکیسے کیونکہ وہ موجودہ زمانے میں علم کی اصل علامت ہے، عوام علم کااندازہ پیٹ سے کرتی ہے، اگر آپ کے پاس بڑا پیٹ ہے تو آپ بڑے عالم ہیں،اس لئے ہمارے معزز علماء کرام وطلباء کرام اس سمت میں کسی قسم کی کوتاہی ہرگز نہیں ہونا دیناچاہتے ہیں، علمی میدان میں کچھ کمیاں رہ جائیں اس کی اتنی فکر نہیں کرتے، لیکن جو مفتی ہیں اور ان کے پاس علم کی علامت یعنی بڑا پیٹ بھاری بھرکم بدن نہیں ہے، انہیں اپنا وجود ثابت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، بھلے ہی آپ کے پاس علم ہو باصلاحیت ہوں،کچھ ایساہی حادثہ بندہ ناچیز کے ساتھ پیش آتا رہتاہے، الحمدللہ میری تحریریں سوشل میڈیا اوراخبارات کے توسط سے ملک کے طول وعرض میں پہنچتی رہتی ہیں، خدا کے کچھ بندوں کو میری تحریروں کی وجہ سے ایک انسیت سی ہوجاتی ہے، اور ملاقات کی آرزو اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے، کچھ دنوں پہلے ہندوستان کے ایک شاہی مسجد کے امام کامیرے پاس فون آیا، وہ الہ آباد کسی شیخ کی ملاقات کی غرض سے آئے ہوئے تھے، وہ ملک کے بڑے مفتی ہیں شاہی امام ہیں ان کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں، میں ایک معمولی طالب علم یہ ان کی مجھ سے محبت تھی کہ مجھے فون کرکے خود ملاقات کرناچاہا، اتفاق سے میں اس وقت مدرسہ میں نہیں تھا گھر تھا اس لئے ان سے ملاقات نہیں ہوپائی،ایک بڑی شخصیت سے ملاقات نہ ہوپانے کاافسوس رہا! میرا دل یہ کہہ رہاہےاچھا ہوا  شاہی امام سے ملاقات نہیں ہوئی ورنہ انہیں بھی افسوس ہوتا کہ موجودہ زمانہ کے اعتبار سے جوعلم کا معیار ہے، بڑا پیٹ ہونا، مفتی کے لئے پیٹ میں مزید اضافہ ہونا یہ تمام علم کی شرائط آپ میں مفقود ہیں، علم کی ان کی شرائط آپ بالکل کھرے نہیں ہیں اور فقہی قاعدہ ہے اذا فات الشرط فات المشروط، جب شرط فوت ہوجائے تومشروط بھی فوت ہوجاتاہے،شرط تواہم چیز ہے شرط ہی سے وہ چیز وجود میں آتی جب شرط مفقود تواصل شئی وجود میں نہیں آسکتی، ابھی جلد ہی ملک کے نامور مقرر کابھی الہ آباد میں ایک پروگرام ہوا ان کی آمد سرزمین مرکز علم التجوید والتصوف شہر الہ آباد ہوئی، کہاں حضرت ! کہاں بندہ فقیر ، لیکن ان کی محبت تھی میری تحریریں ان تک پہنچتی تھیں، میرے بیانات وغیرہ سننے کا انہیں اتفاق ہوتا تھا، جب الہ آباد آمد ہوئی تو حضرت کی محبتوں کوسلام مجھے براہ راست فون کیا اور الہ آباد آمد کی اطلاع کیا اور بندہ حقیر سے ملاقات کی خواہش ظاہرکی، اتفاق سے میں اس وقت سفر پر بنارس تھا، جس کی وجہ آنحضرت سے ملاقات نہیں ہوپائی اس وقت بھی میرادل یہی کہہ رہاتھا کہ  لوگ تجھے مفتی کہتے ہیں، تیری تحریریں بیانات سنتے ہیں سوشل میڈیا پر لیکن حق بات یہی ہے تو مفتی ہونے کے جوشرط عوام الناس وخواص نے رکھے ہیں، بڑاپیٹ ہونا اس کے اعتبار سے تومفتی کہلانے بھی لائق نہیں، ابھی ایک دعوت میں میراجاناہوا ایک شخص نے مجھے مولوی ماننے سے ہی انکار کردیا، میں نے ان سے پوچھا اجی آخر  کس بنیاد پر آپنے مجھے کہا، کہ میں مولوی کہلانے کے لائق نہیں توانہوں نے کہا، مولوی لوگ بہت زیادہ کھاتے ان کے بڑے بڑے پیٹ ہوتے ہیں، آپنے تو بہت مختصر کھایا مولوی اتناکم نہیں کھاتے میں آپ کو مولوی نہیں مان سکتا،
اب آپ ہی سمجھ سکتے ہیں عوام الناس میں مولوی ہونے کی علامت زیادہ کھانا ہے، شاید ان کی نگاہ میں مولوی ایک پیٹوجانور کانام ہے، اکل طعام کومولوی کے شروط لازمہ میں قرار دیا ہے، اب تومجھے دعوت میں شرکت پر بھی ڈر لگتاہے،
زمانہ کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے، تبدیلی علامت علم وعلماء کی وجہ سے الحمدللہ ہمارے طلباء وعلماء نے بھی اپنی ساری توجہات انہیں علامتوں پر لگادیا ہے، عبارتوں میں کمی ہو، مسائل پر دسترس نہ ہو، نحووصرف میں مہارت نہ ہو یہ سب چیزیں برداشت ہیں، لیکن کپڑا تواعلی قسم کاہو، کپڑا کریچ ٹائٹ ہو، بنگلہ دیشی ٹوپی ہو، عمدہ قسم عمامہ شکل صورت سے علامتہ الدہر لگیں، ان چیزوں میں بالکل کوتاہی نہیں کرتے ان چیزوں کے حصول میں پوری محنت لگن اور توجہات کوصرف کرتے ہیں، الحمدللہ قوم کی علم کی اس نئی علامت کے مقرر کرنے کے بعد اور طلباء اور علماء کے اس پر جدجہد کرنے کی وجہ سے ہم سمت آپ کو عمدہ لباسوں میں ملبوس، اعلی قسم کے عمامہ، بہترین ٹوپی میں مزین علامہ وقت کی صورت بناکر ہرگلی کوچہ میں، چوراہوں پر نظر آئیں گے، لیکن افسوس جب ان سے جب کسی مسلہ کے سلسلہ میں تحقیق  مطلوب ہو، کوئی اہم دینی بات پیش آجاتی ہے، توبغلیں جھانکنے لگتے ہیں، اور یہ حالت کیونکہ پیش نہ آئے کیونکہ جس کی پوری فوکس اس حلیہ کے حصول میں تھا، جو علامہ کہے جانے کامستحق ہو، اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ اس وصف کوحاصل کیاجائے جو اصل روح ہے، میری اس تحریر سے کسی پر تنقید کرنامقصود نہیں، عمدہ لباس میں ملبوس ہونامنع نہیں لیکن ہمیں سب سے پہلے اپنے مقصد کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
۔
یہ مضمون نگارکےاپنےذاتی خیالات ہیں،
فضل الرحمٰن قاسمی
________________________