خصوصی فیچر /صداۓوقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
تغلق دور میں جون پور علم و فن کی آماجگاہ بننا شروع ہو گیا تھا، مدارس و مساجد اور بزرگوں کی خانقاہوں میں روز بروز اضافہ جاری تھا، 788 ء میں "فیروز شاہ تغلق"کی وفات کے بعد دہلی کی حکومت مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی 797ء میں پہنچی تو اس وقت تغلق خاندان کا آخری فرمانروا حکومت کے تخت پر جلوہ افروز تھا ،ملک کے حالات بہت ہی خستہ تھے ،ہر طرف سے دشمن اپنے پر پھیلا رہے تھے، چہار جانب سے بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں، بالخصوص پورب کی حالت اور بھی ابتر تھی ،سلطان نے اپنے دشمنوں اور باغیوں کو تنبیہ اور سرکوبی کے لیے اپنے چار امراء کو چار طرف ایک ہی دن روانہ کیا،
(1) وزیر "خواجہ جہاں" کو پورب کی جانب
(2)دلاور خان غوری کو مالوہ کی طرف
(3)ظفر خان کو گجرات کی طرف
(4) خضر خان کو ملتان کی طرف
سلطان کے دربار میں ہر وقت ایک نجومی رہتا تھا اس نے پیشن گوئی کی کہ یہ چاروں ایسی نیک ساعت میں دہلی سے روانہ ہوئے ہیں کہ چاروں تختِ حکومت کے مالک بن جائیں گے،آگے چل کر" منجم "کی باتیں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئیں ،(جون پور نامہ،ص 43،از مرزا عباس علی بیگ جون پوری)
جب "سلطان محمود تغلق" " خواجہ جہاں مسرور"کو "سلطان الشرق" کا خطاب دے کر بیس ہاتھی اور ایک بڑے لشکر کے ساتھ جانبِ مشرق "قنوج "جون پور" بہار" روانہ کیا، تو "خواجہ جہاں"نے" مولانا شرف الدین لاہوری رح"کو بڑی عقیدت و ارادت سے لاہور سے بلایا (جو کہ اس وقت اشرف الشرفآء اور افضل الفضلاء تھے، فضائل صوری و معنوی کے جامع اور عالم باعمل اورعامل با علم تھے )اور انہیں سلطان کے حضور لے گیا اور" ملک العلماء" کا خطاب دے کر اپنے ہمراہ جونپور لے آیا ،ان دونوں صاحبان نے "شہزادہ فتح خان "اور" مولانا علاءالدین دہلوی"(دیکھیں پہلی قسط) کے مشن کو آگے بڑھایا،
"خواجہ جہاں" جب "جون پور "پہنچا تو اس نے یہاں" یحییٰ" نامی عمارت کو توڑ کر" بدیع منزل" کے نام سے ایک عمارت بنوائی اور اس کے پہلو میں" مولانا شمس الدین رح"کے لیے مسجد مدرسہ اور خانقاہ تعمیر کی، اور وہ مولانا سے استفادہ کے لئے خود آتا تھا اور ان کی امامت میں ان کی مسجد میں نماز پڑھتا تھا ،مولانا 800 ہجری میں فوت ہوئے ان کی وصیت کے مطابق ان کی لاش کو جونپور سے لاہور پہنچا دیا گیا، " مؤرخ اسلام قاضی اطہر مبارکپوری رحمہ اللہ " فرماتے ہیں، "درحقیقت سرزمین پورب کا سارا علمی افتخار ان ہی چاروں کا مرہون منت ہے، جن میں دو امراء (شہزادہ فتح خاں، اور خواجہ جہاں مسرور) اور دوعلماء ( مولانا علاؤالدین اور مولانا شرف الدین) شامل ہیں، اور انہیں عناصر اربعہ سے یہاں کا علمی مزاج بنا، (دیار پورب میں علم اور علماء، ص 62تا 66،جون پور نامہ، ص43)
"خواجہ جہاں" بحیثیتِ حاکم جونپور پہنچ کر جس قدر فسادات تھے، ایک ایک کو ختم کر کے ایک اچھا انتظام کیا ،اور خوش اسلوبی سے گرد و نواح کے راجاؤں کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا لیا، دوسری طرف دہلی کے بادشاہ "ناصرالدین محمود تغلق"کے مقابلے میں "نصرت خاں تغلق"(جو"فیروز شاہ "کا پوتا تھا) تختِ دہلی کا دعویدار بن بیٹھا، اسی بناء پر "محمود شاہ "اور"نصرت خاں" کے مابین لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا، جو 800ھ تک جبکہ "تیمور لنگ "ہندوستان میں وارد ہوا جاری رہا، دہلی میں دو بادشاہوں کی موجودگی اور ان کی جنگ آزمائی کا حال سن کر گجرات، خاندیش، مالوہ اور "جون پور"کے صوبے داروں نے دہلی حکومت سے آزاد ہو کر اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی اس طرح 800ھ کے لگ بھگ "خواجہ جہاں ملک سرور سلطان الشرق "کے ہاتھوں" سلطنتِ شرقیہ جونپور "کا وجود عمل میں آیا ،(تاریخ فرشتہ مترجم ص 647 جلد 4از قاسم فرشتہ ،تذکرہ علماء اعظم گڈھ ص52از مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی قاسمی)
"خواجہ جہاں"نے قلعہ سے تقریباً تین میل دور موضع "فیروزشاہ پور"(جسے عوام فروشے پور کہتی ہے) کو اپنا پایہ تخت بنایا، (اب وہ ایک محلہ ہے)اور "اتابک اعظم "لقب اختیار کر کے اپنے نام کا سکہ جاری کرایا، اور کول، قنوج، بہار، ترہٹ کے علاقوں تک اپنی سلطنت کو وسعت دی، اور تقریباً 2سال حکومت کر کے 802ھ میں اس دار فانی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
تغلق دور میں جون پور علم و فن کی آماجگاہ بننا شروع ہو گیا تھا، مدارس و مساجد اور بزرگوں کی خانقاہوں میں روز بروز اضافہ جاری تھا، 788 ء میں "فیروز شاہ تغلق"کی وفات کے بعد دہلی کی حکومت مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی 797ء میں پہنچی تو اس وقت تغلق خاندان کا آخری فرمانروا حکومت کے تخت پر جلوہ افروز تھا ،ملک کے حالات بہت ہی خستہ تھے ،ہر طرف سے دشمن اپنے پر پھیلا رہے تھے، چہار جانب سے بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں، بالخصوص پورب کی حالت اور بھی ابتر تھی ،سلطان نے اپنے دشمنوں اور باغیوں کو تنبیہ اور سرکوبی کے لیے اپنے چار امراء کو چار طرف ایک ہی دن روانہ کیا،
(1) وزیر "خواجہ جہاں" کو پورب کی جانب
(2)دلاور خان غوری کو مالوہ کی طرف
(3)ظفر خان کو گجرات کی طرف
(4) خضر خان کو ملتان کی طرف
سلطان کے دربار میں ہر وقت ایک نجومی رہتا تھا اس نے پیشن گوئی کی کہ یہ چاروں ایسی نیک ساعت میں دہلی سے روانہ ہوئے ہیں کہ چاروں تختِ حکومت کے مالک بن جائیں گے،آگے چل کر" منجم "کی باتیں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئیں ،(جون پور نامہ،ص 43،از مرزا عباس علی بیگ جون پوری)
جب "سلطان محمود تغلق" " خواجہ جہاں مسرور"کو "سلطان الشرق" کا خطاب دے کر بیس ہاتھی اور ایک بڑے لشکر کے ساتھ جانبِ مشرق "قنوج "جون پور" بہار" روانہ کیا، تو "خواجہ جہاں"نے" مولانا شرف الدین لاہوری رح"کو بڑی عقیدت و ارادت سے لاہور سے بلایا (جو کہ اس وقت اشرف الشرفآء اور افضل الفضلاء تھے، فضائل صوری و معنوی کے جامع اور عالم باعمل اورعامل با علم تھے )اور انہیں سلطان کے حضور لے گیا اور" ملک العلماء" کا خطاب دے کر اپنے ہمراہ جونپور لے آیا ،ان دونوں صاحبان نے "شہزادہ فتح خان "اور" مولانا علاءالدین دہلوی"(دیکھیں پہلی قسط) کے مشن کو آگے بڑھایا،
"خواجہ جہاں" جب "جون پور "پہنچا تو اس نے یہاں" یحییٰ" نامی عمارت کو توڑ کر" بدیع منزل" کے نام سے ایک عمارت بنوائی اور اس کے پہلو میں" مولانا شمس الدین رح"کے لیے مسجد مدرسہ اور خانقاہ تعمیر کی، اور وہ مولانا سے استفادہ کے لئے خود آتا تھا اور ان کی امامت میں ان کی مسجد میں نماز پڑھتا تھا ،مولانا 800 ہجری میں فوت ہوئے ان کی وصیت کے مطابق ان کی لاش کو جونپور سے لاہور پہنچا دیا گیا، " مؤرخ اسلام قاضی اطہر مبارکپوری رحمہ اللہ " فرماتے ہیں، "درحقیقت سرزمین پورب کا سارا علمی افتخار ان ہی چاروں کا مرہون منت ہے، جن میں دو امراء (شہزادہ فتح خاں، اور خواجہ جہاں مسرور) اور دوعلماء ( مولانا علاؤالدین اور مولانا شرف الدین) شامل ہیں، اور انہیں عناصر اربعہ سے یہاں کا علمی مزاج بنا، (دیار پورب میں علم اور علماء، ص 62تا 66،جون پور نامہ، ص43)
"خواجہ جہاں" بحیثیتِ حاکم جونپور پہنچ کر جس قدر فسادات تھے، ایک ایک کو ختم کر کے ایک اچھا انتظام کیا ،اور خوش اسلوبی سے گرد و نواح کے راجاؤں کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا لیا، دوسری طرف دہلی کے بادشاہ "ناصرالدین محمود تغلق"کے مقابلے میں "نصرت خاں تغلق"(جو"فیروز شاہ "کا پوتا تھا) تختِ دہلی کا دعویدار بن بیٹھا، اسی بناء پر "محمود شاہ "اور"نصرت خاں" کے مابین لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا، جو 800ھ تک جبکہ "تیمور لنگ "ہندوستان میں وارد ہوا جاری رہا، دہلی میں دو بادشاہوں کی موجودگی اور ان کی جنگ آزمائی کا حال سن کر گجرات، خاندیش، مالوہ اور "جون پور"کے صوبے داروں نے دہلی حکومت سے آزاد ہو کر اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی اس طرح 800ھ کے لگ بھگ "خواجہ جہاں ملک سرور سلطان الشرق "کے ہاتھوں" سلطنتِ شرقیہ جونپور "کا وجود عمل میں آیا ،(تاریخ فرشتہ مترجم ص 647 جلد 4از قاسم فرشتہ ،تذکرہ علماء اعظم گڈھ ص52از مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی قاسمی)
"خواجہ جہاں"نے قلعہ سے تقریباً تین میل دور موضع "فیروزشاہ پور"(جسے عوام فروشے پور کہتی ہے) کو اپنا پایہ تخت بنایا، (اب وہ ایک محلہ ہے)اور "اتابک اعظم "لقب اختیار کر کے اپنے نام کا سکہ جاری کرایا، اور کول، قنوج، بہار، ترہٹ کے علاقوں تک اپنی سلطنت کو وسعت دی، اور تقریباً 2سال حکومت کر کے 802ھ میں اس دار فانی
سے کوچ کر گیا،
جونپور کی کچھ خاص تصاویر۔
(جون پور نامہ، ص 56،تذکرہ علماء اعظم گڈھ، 52)