Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 10, 2019

حب علی یا بغض معاویہ۔

از / مولانا  طاھر مدنی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گزشتہ کئی انتخابات سے جماعت اسلامی ہند کی یہ پالیسی ہے کہ فسطائیت کو روکنے اور فرقہ پرست امیدوار کو ہرانے کیلئے اپنے وابستگان کو کسی مضبوط امیدوار کے حق میں ووٹ کے استعمال کی ہدایت حلقہ انتخاب کے ارکان کے مشورے سے کرتی ہے. جو ارکان ووٹ دینا چاہتے ہیں، اسی کے مطابق دیتے ہیں. یہ جماعت کا ایک تنظیمی و داخلی معاملہ ہے. البتہ خود جماعت کے اندر اور باہر اس پر تبصرہ ہوتا رہا ہے کہ اقامت دین کی علمبردار اور حکومت الہیہ کی داعی جماعت ایسی سرگرمی کیوں دکھاتی ہے. اس کا جواب بھی ذمہ داران جماعت دیتے رہے ہیں کہ ملک میں آزادی اظہار رائے، دعوت و تبلیغ کی اجازت، انسانی حقوق کی حفاظت اور کمزور طبقات کے لیے حصول انصاف کی خاطر کھلے ذہن کے افراد کی حمایت ضروری ہے.
حالیہ الیکشن کے تناظر میں جماعت کے ذمہ داران نے مختلف علاقوں میں میں سرکلر جاری کیے ہیں. اسی طرح کے ایک سرکلر پر گفتگو اس گروپ میں ہورہی تھی. راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب نے طنزیہ انداز میں یہ تبصرہ کردیا کہ سوتروں سے پتہ چلا ہے کہ مایاوتی اور اکھلیش نے حکومت الہیہ کی بات مان لی ہے. ظاہر ہے یہ ایک طنز و تعریض تھی. آپ کہ سکتے ہیں کہ انداز غیر مناسب ہے. لیکن اس کی آڑ میں مختلف احباب نے جو دل کی بھڑاس نکالنی شروع کی تو اندازہ ہو گیا کہ معاملہ حب جماعت اسلامی کا نہیں، بلکہ بغض علماء کونسل کا ہے.
علماء کونسل نے 2017 میں بی ایس پی کی حمایت علی الاعلان کی تھی. مایاوتی نے سپورٹ مانگا اور وعدہ کیا کہ تمام شکایتوں کا ازالہ ہوگا، چنانچہ مولانا نے کونسل کے ذمہ داران اور سرگرم کارکنان کے ساتھ مشاورتی میٹنگ کی اور سب کے مشورے کے بعد حمایت کا اعلان پریس کانفرنس میں کیا گیا. یہ حمایت صرف اسی الیکشن کیلئے تھی. سیاسی پارٹیاں حالات و ظروف کے لحاظ سے سمجھوتے کرتی ہیں، کل مایاوتی اور اکھلیش حریف تھے آج حلیف ہیں، کل اویسی صاحب سپا کی مخالفت کر رہے تھے آج حمایت کر رہے ہیں، کل نتیش کمار، لالو جی کے ساتھ تھے، آج مودی کے ساتھ ہیں. وقت کے تقاضوں کے ساتھ سیاسی سمجھوتے ہوتے ہیں اور ٹوٹتے ہیں، یہاں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن.
کونسل سیاست میں حصہ داری کی بات کرتی ہے اور صاف صاف اعلان کرتی ہے جو بھی حصہ داری کیلئے تیار ہو، ہم اس سے بات کریں گے، اب صرف بی جے پی ہراؤ کے نام پر محض ووٹ بینک بن کر ہم نہیں رہیں گے. ہمارے بنیادی مسائل کا تعلق حصول انصاف سے ہے. نمائندگی اور اشتراک سے ہے، عزت و وقار سے ہے. زیادتی کے خاتمے سے ہے. مسلمانوں کیسے ہر میدان میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے، مسلمانوں کو جیلوں میں کیوں ٹھونس دیا گیا، مسلمانوں پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگا کر انہیں برسوں سے نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے، فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ کیوں تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے چاہے حکومت جس کسی کی بھی ہو، مسلمانوں کو نوکریوں سے محروم کیوں کیا گیا، دفعہ 341 پر مذہبی قید کس نے لگائی، بابری مسجد کا صدمہ کس نے دیا، ماب لنچنگ کیوں ہورہی ہے، وغیرہ بہت سارے مسائل ہیں، ان کی جڑ میں حصہ داری کا نہ ہونا ہے. ہم ووٹ دیتے رہے، ووٹ بینک بنے  رہے، مگر مضبوط سیاسی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے محرومی کا سلسلہ جاری رہا. کونسل اس کہنہ روش کو بدلنے کا عزم لے کر اٹھی ہے، جسے ہمارا ووٹ چاہیے، وہ ہم سے بات کرے، ہمارے مطالبات پر  غور کرے، اگریمنٹ کرے اور ہم سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں.
پبلک میٹنگ میں قومی صدر نے یہ اعلان کیا کہ ہم بی جے پی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر بی جے پی دفعہ 341 سے مذہبی قید ہٹانے کیلئے تیار ہو، فسادات کی جانچ کیلئے اعلی سطحی کمیشن کی بات تسلیم کرے، فرضی انکاونٹر س کی تحقیقات کرائے، دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں گرفتار افراد کی رہائی کرائے، مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرے، کامن سول کوڈ کی ضد چھوڑنے کیلئے آمادہ ہو، مسلمانوں کو مختلف کمیٹیوں کی سفارشات کی روشنی میں ریزرویشن دینے کا وعدہ کرے، مسلم اکثریتی علاقوں میں اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں کے قیام کیلئے تیار ہو، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت سے باز آئے اور ملک میں بھائی چارہ مضبوط کرنے کیلئے آمادہ ہو، تو بات کیوں نہیں ہوسکتی.؟؟؟
یاد رکھیے، چاہیے بی جے پی ہو یا نام نہاد سیکولر پارٹیاں، سب کو کرسی عزیز ہے. اگر آپ متحدہ طاقت بنالیں تو آپ کے ووٹ کیلئے آپ کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوں گی. آج اونچی ذات کے لوگ بھی مایاوتی کا پیر چھوتے ہیں کیونکہ دلت ووٹ کی گٹھری اس کے پاس ہے. جس دن مسلمان ووٹوں کی گٹھری بندھ جائے گی، ممتا، مایا، اکھلیش، راہل، کیجریوال ہی نہیں امت شاہ بھی ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوں گے.