Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 10, 2019

ظاہری شکل و شباہت اور اقامت دین۔

تحریر/ شکیل منصور القاسمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اسلام اور شعائر اسلام خدا تعالی کا پسندیدہ اور مستقل بالذات نظام و قانون ہے ، جو آفاقی بھی ہے اور ابدی ودائمی بھی ، اس کے جملہ شعائر و احکام وحیِ ربانی اور الہامِ یزدانی کے تابع ہیں ، قومیت ، اور  وطنیت جیسی تنگنائی و علاقائی خول سے اگر وہ یکسر پاک ہے تو تقلیدِ رسم ورواج سے بھی اس کا کوئی سروے کار نہیں ۔
دنیا میں آباد اربوں انسانوں کے درمیان مسلم وغیر مسلم ،کافر ومومن کے مابین امتیاز اگر افکار و عقائد کے ذریعہ ہوتا ہے تو وہیں تہذیب ،طرز لباس ، فیشن ، تراش خراش ، شکل وشباہت ، رنگ ڈھنگ ، ہیئت و کیفیت اور وضع قطع کو بھی قوموں کے درمیان وجہِ امتیاز مانا گیا ہے۔ اسی لئے غیروں کی شباہت اپنانے  پر وعیدِ حدیث  آئی ہے ۔
دینی غیرت ، اسلامی حمیت اور شرعی امتیازات وخصوصیات کا تحفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مسنون و مامور شکل وشباہت اختیار کرنے میں ہے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پوری زندگی ان ظاہری خصوصیات وامتیازات پہ عملی مداومت فرمائی ،اور امت کو صریح ایجابی حکم بھی فرمایا  :
انهكوا الشواربَ ، وأعفوا اللحى
عن عبدالله بن عمر.
/صحيح البخاري: 5893.
[صحيح].
یعنی مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور ڈاڑھیوں کو اچھی طرح بڑھائو۔)
جُزُّوا الشَّواربَ وأرخوا اللِّحَى . أبو هريرة.
/مسلم.: 260.
{صحيح}.
یعنی مونچھوں کو تراشو، اور ڈاڑھیوں کو لٹکائو۔)
ان نصوص سے  ڈاڑھی رکھنے کا وجوب اور  نہ رکھنے کی حرمت (سلباً ) ثابت ہورہی ہے ،پہر اصحاب رسول   اس واجبی مقدار کا تعین اپنے عمل سے یوں کرتے ہیں :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔
يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ.
’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘
سنن أبي داؤد، 2: 306، رقم: 2357، دار الفکر
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 584، رقم: 1536، دار الکتب العلمية بيروت
حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘
ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25481)
مصنف ابن أبي شيبة
3504 ( 20 ) ما قالوا في الأخذ من اللحية .
حدثنا غندر عن شعبة عن منصور قال : سمعت عطاء بن أبي رباح قال : كانوا يحبون أن يعفوا اللحية إلا في حج أو عمرة ، وكان إبراهيم يأخذ من عارض لحيته .
حدثنا عائذ بن حبيب عن أشعث عن الحسن قال : ( كانوا ) يرخصون فيما زاد على القبضة من اللحية أن يؤخذ منها .
حدثنا علي بن هاشم ووكيع عن ابن أبي ليلى عن نافع عن ابن عمر أنه كان يأخذ ما فوق القبضة ، وقال وكيع : ما جاوز القبضة .
حدثنا وكيع عن سفيان عن منصور عن إبراهيم قال : كانوا يطيبون لحاهم ويأخذون من عوارضها
(مصنف ابن أبي شيبة
3504 ( 20 ) ما قالوا في الأخذ من اللحية . )
انہی نصوص وآثار کی بناء ہر جمہور ائمہ مجتہدین نے متفقہ و اجماعی طور پر ان ظاہری خصوصیات وامتیازات کی پابندی کو لازم قرار دیتے ہوئے ایک مشت ڈاڑھی رکھنے کو واجب اور اس سے کم مقدار ہونے پر تراش خراش کو فسق  وگناہ قرار دیا ہے
۔
”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرةً من القبضةِ، فغیرُ جائزٍ في المذاھب الأربعة“․ (العرف الشذي، کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیة)
مالکیہ کا کہنا ہے  :
”ویحرم علی الرجل حلق اللحیة والشارب، ویوٴدب فاعلہ، ویجب حلقھما علیٰ المرأة علی المعتمد“․(شرح منح الجلیل علیٰ مختصر خلیل، کتاب الطھارة، باب فرائض الوضوء وسننہ وفضائلہ: 1/48، مکتبة النجاح، طرابلس)
(مرد پر داڑھی اور مونچھ کا مونڈناحرام ہے، ایسا کرنے والے کو حد لگائی جائے گی اور معتمد قول کے مطابق عورت پر داڑھی اور مونچھ کا مونڈنا واجب ہے۔)
امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے :
”وقد روی ابن القاسم عن مالک: لا بأس أن یوٴخذ ما تطایر من اللحیة، وشذ․ قیل لمالک: فإذا طالت جدا، قال: أریٰ أن یوٴخذ منھا، وتقص․ وروی عن عبداللہ بن عمر وأبي ھریرة أنھما کانا یأخذان من اللحیة ما فضل عن القبضة“․(المنتقیٰ شرح الموٴطا، کتاب الجامع، باب السنة في الشعر:9/395،دارالکتب العلمیة)
(امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ داڑھی کے جو بال حدِّ داڑھی سے بڑھ جائیں اور الگ ہو جائیں ، انہیں کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جب داڑھی بہت زیادہ لمبی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟ تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ اس کو کاٹ دیا جائے اور حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ایک مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے۔)
شافعیہ کہتے ہیں :
قال الغزالي في (الإحياء) (1/143): ((وقد اختلفوا فيما طال منها، فقيل: إنْ قبَضَ الرجلُ على لحيتِه وأخذَ ما فضَلَ عن القبضةِ، فلا بأس؛ فقد فعَلَه ابن عمر وجماعةٌ من التابعين، واستحسَنه الشَّعبي وابن سيرين، وكَرِهَه الحسَنُ وقتادة وقالا: ترَكْهُا عافيةً أحَبُّ؛ لِقَولِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ((أعفُوا اللِّحى)) والأمرُ في هذا قريبٌ إن لم يَنتَهِ إلى تقصيصِ اللِّحيةِ وتدويرِها من الجوانبِ)) ا.هـ
حنابلہ کا کہنا ہے :
والمعتمد في المذھب حرمة حلق اللحیة․ قال في الإقناع: ویحرم حلقھا․ وکذا في شرح المنتھی وغیرھما․ قال في الفروع: ویحرم حلقھا، ذکرہ شیخنا، انتھیٰ․ وذکرہ في الإنصاف، ولم یحک فیہ خلافاً“․(غذاء الألباب شرح منظومة الآداب، مطلب: في أول من اخترع علم البدیع: 1/334، دار الکتب العلمیة)
علامہ سفارینی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں معتمد قول داڑھی مونڈنے کی حرمت کا ہے، شرح منتہیٰ اور اس کے علاہ دیگر کتب میں ایسے ہی مذکور ہے ،فروع میں ہے کہ ہمارے شیخ نے ذکر کیا ہے کہ داڑھی مونڈنا حرام ہے۔اور الانصاف میں مذکور ہے کہ اس بارے میں کسی کا بھی اختلاف منقول نہیں ہے۔
داڑھی کی حد کے بارے میں حنابلہ کی مشہور کتاب ” المبدع في شرح المقنع“ میں لکھا ہوا ہے:
”ویحرم حلقھا، ذکرہ الشیخ تقي الدین، ولا یکرہ أخذ ما زاد علی القبضة“․ (المبدع في شرح المقنع، کتاب الطہارة، باب السواک وسنة الوضوء85/1)
ہر دینی معاملے میں قابل اقتدا و اتباع ذات رسول ہے ، آپ کا اسوہ ہی امت کے لئے نمونہ عمل ہے ، عرب کے حکمراں یا زید عمر بکر کا قول وعمل اسوہ نہیں ، رسول کی معاشرت و شکل وشباہت کے خلاف عمل کرکے دل کی صفائی کا دعوی کرنا کتنا مضحکہ خیز اور جھوٹا  ہے ؟
صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب بلکہ اصرار کرنے والے کا دل صاف کیسے ہوسکتا ہے ؟دل کی صفائی اللہ کی مرضی اور نبی کے کامل اتباع میں ہے ، اگر عمل ، معاشرت وہیئت مسنونہ کی اہمیت نہ ہوتی ، صرف دل صاف رکھنے سے ہی کام بن جاتا تو بس پورے تئیس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی ارشاد فرماتے رہتے کہ قلب کو صاف کرو اور روح پاک کرو ،نہ اعمال صالحہ بتاتے ، نہ گناہوں سے بچنے کا حکم فرماتے ، بلکہ فرائض وواجبات سے بھی باخبر نہ کرتے ، بس سارا دین قلب کی صفائی تک ہی محدود رہتا ! (مستفاد : حیلے بہانے /مرشد تھانوی )
ظاہر، باطن کا ترجمان ہوتا ہے ۔
اگر کسی کی ظاہر ہیئت میں ترک واجب ہو تو باطن صالح کبھی کسی طور نہیں ہوسکتا ،
جس شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آدھے تولہ ڈاڑھی کا بوجھ اپنے چہرے پہ برداشت نہیں ، وہ پورے عالم کو دین اسلام پہ چلانے اور اقامت دین کا بوجھ کیسے برداشت کرسکتا ہے ؟؟
نبی کے حکم صریح وجوبی  کی خلاف ورزی کرکےاحیاءِ دین ،اقامتِ  دین ، اور امامت وامارتِ صالحہ کا دعوی سراب ودھوکہ کے سوا کچھ نہیں !
شکیل منصور القاسمی
(حال مقیم امریکہ)
٩/٤/٢٠١٩۔