Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 10, 2019

مفکر اسلام ، ابو المحاسن مولانا محمد سجاد۔

تحریر/ مفتی اختر امام قاسمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . .  . .  . . . . .  . . . . . . . 
مفکراسلام حضرت علامہ مولاناسیدابوالمحاسن محمدسجادؒ اپنے عہدکی منتخب روزگارشخصیت تھے،آپ جازنیری سادات کی ایک گمنام شاخ کے فردتھے، صلاح وتقویٰ اوردوسروں کے کام آنے کی سرشت شروع سے اس خاندان میں رہی ہے،زمینداری کے باوجوداس گھرانے کے افراددنیاطلبی اورحب جاہ ومال سے ہمیشہ دوررہے، آپ کے والد ماجد مولوی سیدحسین بخش ایک فیاض اورمتواضع بزرگ تھے،راجگیرکے راستے پران کاگاؤں ’’پنہسہ ‘‘واقع تھا،مہمانوں اورمسافروں سے ان کادیوان خانہ ہمیشہ آباد رہتاتھا آپ کے بڑے بھائی صوفی احمد سجادصاحب ؒ ایک فانی فی اللہ اورمجذوب صفت شخص تھے،انہوں نے اپنی ساری جائداد خلق خداکے لیے چھوڑ دی تھی اورخودجنگل جنگل گھومتے رہے ،مجاذیب اولیاء اللہ میں ان کاشمار ہوتاتھا،والد کے بعدحضرت مولانا ابوالمحاسن محمدسجادکی سرپرستی بھی انہوں نے کی ۔۔۔۔حضرت مولاناابوالمحاسن محمدسجادعلیہ الرحمہ کے اکلوتے صاحبزادے مولاناحسن سجادؒ (فاضل دیوبند) تحریک خلافت کے پرجوش کارکنوں میں تھے،خلافت پراپنی جان قربان کردی ،تحریک خلافت کی حمایت میں باڑھ (ضلع پٹنہ )کے مقام پرایک پرجوش تقریر کی اوراسی جرم میں گرفتار ہوئے ،جیل گئے اورپھر بیمارپڑے اور داعی اجل کولبیک کہا،شادی کی تاریخ طے تھی؛مگر حوران بہشتی ان کے استقبال کے لیے پہلے سے منتظر تھیں۔۔۔۔غرض!
ایں خانہ ہمہ آفتاب است
حضرت مولانامحمدسجادؒ نے خودکودین وملت اورانسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیاتھا، اپنے جملہ کمالات وفضائل ،اورحصولیابیوں کے تمامتر مواقع واسباب کے باوجوداپنے یا اہل وعیال کے لیے کوئی مادی سرمایہ جمع نہیں کیا ،ایک چھوٹاسامکان بھی نہ بنواسکے ، بلکہ ملی مصروفیات کے ہجوم میں موروثی زمینوں پربھی توجہ نہ دے سکے اوروہ نیلام ہوگئیں ،اس وقت کی ہربڑی تنظیم اورجماعت میں بنیادی حصہ داری کے باوجود کبھی عہدوں اوراعزازات کی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے،بڑے بڑے کام نہیں کارنامے انجام دئیے؛لیکن بوریہ نشیں رہے،آپ نے اپنے عہدکے کئی اداروں کوعظمت بخشی ،کئی ادارے اورجماعتیں آپ کے دم سے وجود میں آئیں؛لیکن ہرنمائش سے دور رہے ،واقعی مولانامحمدسجاد ؒ جیسی ہستیاں تاریخ میں باربارپیدانہیں ہوتیں ؂
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولاناکی شخصیت کابڑاامتیازیہ تھاکہ جہاں رہے وہاں روشنی تقسیم کی ، اپنے جسم وجان کی تمامترتوانائیاں صرف کرنے میں بھی دریغ نہیں کیا؛اسی لیے آپ کی حیثیت ہرجگہ ممتازرہی اورآپ ادارہ کے دماغ اورروح رواں بن کر رہے، الہٰ آباد میں ایک عرصہ تک اس شان سے رہے کہ جیسے اس شہر میں آپ کے علاوہ کوئی مفتی ہی نہ ہو،جب آپ وہاں سے رخصت ہونے لگے،توپوراشہر اسٹیشن پر موجودتھا،اورسب کی زبان پرتھا کہ آج الہٰ آباد سے فقہ رخصت ہورہی ہے،۔۔۔۔مدرسہ اسلامیہ بہار شریف ،مدرسہ انوارالعلوم گیا،انجمن علماء بہار اورامارت شرعیہ کے توسب کچھ آپ ہی تھے ،آپ کاوصال ہواتوعلامہ سیدسلیمان ندوی ؒ نے کہاکہ ’بہار کی تنہادولت وہی تھے، ۔۔۔۔جمعیۃ علما ء ہند اور تحریک خلافت کے بھی بانیوں میں تھے اورآخرتک آپ ان کے مرکز اعصاب کی حیثیت سے رہے اورکوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجودکوئی ایسا محاذ نہ تھا،جہاں آپ کے نقوش قدم موجود نہ ہوں ،۔۔۔۔۔ اسلامی سیاست ،اسلامی قانون اورآئینی آگہی میں تووہ رسوخ حاصل تھاکہ اکابر واصاغر سب آپ کالوہامانتے تھے، حضرت مولانامنظورنعمانی فرماتے تھے کہ میرے بس میں ہوتاتومیں خاص طورپرنوجوان علماء پر فرض قرار دیتا کہ ’’مولانا کی صحبت میں رہ کر کچھ دن تربیت حاصل کریں ‘‘۔
آپ نے اپنی شخصیت سے زیادہ اپنے کام کواہمیت دی،ہمیشہ کام کوآگے اورخود کوپیچھے رکھا،کام کی ایسی فنائیت کہ اپناسب کچھ اس کے لیے قربان کردیا،اس شعر کاآپ سے بہتر مصداق ماضی قریب کے ہندوستان نے نہیں دیکھا:
پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے کو
جمعیۃ علماء ہند آپ کی آرزوؤں کامرکز اورزندگی بھر کی محنتوں کاحاصل تھی،دم آخرتک اس کی خدمت کی اوراس کے قافلہ سالارہے،یہ آپ کی بنیادی شناخت تھی ،اس پلیٹ فارم سے آپ نے ملک وملت کی وہ عظیم خدمات انجام دیں جوتاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گی ،آپ نے جمعیۃ علماء ہند کی ایک جامع تاریخ ’’تذکرہ جمعیۃ علماء ہند ’کے نام سے لکھی تھی ،جس کوحکومت نے شائع ہونے کے بعدضبط کرلیا،اگر وہ تاریخ محفوظ ہوتی توجمعیۃ علماء ہی نہیں؛بلکہ پوری ملت ہندیہ کواس آئینہ میں دیکھاجاسکتاتھا۔
بڑی قابل مسرت بات ہے کہ آج جمعیۃ علماء ہندایک صدی کاسفر مکمل کرنے جارہی ہے یقیناً یہ انہی بزرگوں کے سوزجگر اورصدق وخلوص کاثمرہ ہے ، اس موقعہ پرجمعیۃ علماء ہندنے یہ تاریخی فیصلہ لیا کہ ان اکابر کے اعتراف خدمات کے طورپران کی حیات وخدمات پرسیمینارکرائے جائیں؛تاکہ نئی نسل ان سے روشنی حاصل کر
ے ،یقیناًحضرت مولاناسجادؒ کی شخصیت جامع کمالات اورمرکزی اہمیت کی حامل تھی۔
چنانچہ آج سے چند ماہ قبل جب اس سیمینار کااعلان کیاگیا،تواہل علم اوراصحاب قلم نے پوری گرم جوشی کے ساتھ اس کااستقبال کیااوراپنے قیمتی نگارشات سے ہمیں سرفرازکیا ،جن میں شخصیت سجاد کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اورعہدحاضر میں سیرت سجاداورافکارسجادکی معنویت پرتفصیلی گفتگوکی گئی ہے،ہم ان تمام اہل علم کے ممنون ہیں جنہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی اوراس اہم کام کے لیے اپناقیمتی وقت فارغ کیا،فجزاہم اللّٰہ أحسن الجزاء ۔(آمین)
ہمیں امیدہے کہ تاریخ سازسیمینارکی طرح ہماری یہ پیش کش بھی دستاویزی نوعیت کی حامل قرارپائے گی۔(ان شاء اللہ)
یہ مجموعہ’’تذکرۂ سجاد‘‘جوآپ کے ہاتھوں میں ہے،اس کو محض پچھلی چیزوں کااعادہ تصورنہ کیاجائے؛بلکہ اس میں بہت سی نئی چیزیں بھی شامل ہیں،جو پہلی بار تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں آئی ہیں،اس کاصحیح اندازہ تواس وقت ہوگا، جب آپ اس کاخودمطالعہ کریں گے؛لیکن بطورتعارف چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتاہوں :
* حضرت مولاناسجاد کے خاندان اورعلاقہ کے بارے میں پچھلی کتابوں میں بہت کم معلومات ملتی ہیں، جب کہ خاندان اوروطن کے احوال بھی تاریخ کاحصہ ہیں،کسی انسان کی سیرت اس کے مقامی حالات اور علاقائی پس منظر سے کٹ کر مکمل نہیں ہوسکتی،اس مجموعہ میں آپ کے خاندانی احوال اورعلاقہ کے جغرافیائی ،تمدنی اور دینی پس منظرپر پہلی مرتبہ تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،مولاناہی کے ہم وطن جناب مولاناکفیل احمدندوی (بہارشریف )نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ افرادخاندان سے مل کراورمتعلقہ کاغذات کامطالعہ کرکے ایک اہم تاریخی دستاویزتیارکردی ہے۔(جزاہ اللہ)
* مولاناسجادمدرسہ کے آدمی تھے ،مدرسہ نے ہی ان کوتیارکیاانہوں نے ایک طویل عرصہ تک مدرسوں میں تدریسی خدمات انجام دیں،تعلیم وتدریس آپ کی زندگی کااہم ترین باب ہے؛لیکن مولاناکی ملی اورسیاسی خدمات پر جو توجہ دی گئی، وہ اس حصہ پر نہیں دی گئی اورمولاناکی قائدانہ حیثیت کوجس قوت کے ساتھ نمایاں کیاگیا،آپ کی معلمانہ حیثیت کو نہیں کیاگیا،آپ پرشائع شدہ مقالات کے پڑھنے سے بادی النظر میں مولانامحض ایک ملی رہنما اور قومی لیڈر محسوس ہوتے ہیں،بلاشبہ مولاناکی قائدانہ حیثیت بے حدبلندہے؛لیکن مولانااصلاًعلمی آدمی تھے اوراس کااظہارآپ کی علمی وتدریسی زندگی کی تفصیلات کے بغیر نہیں ہوسکتا؛اس لیے ضرورت تھی کہ مولاناکی زندگی کے اس حصہ کو بھی سامنے لایا جائے؛تاکہ آپ کی علمی حیثیت کوسمجھنے میں آسانی ہو۔اس حقیر نے آپ کی شخصیت کے اس حصہ پرایک مقالہ تحریر کیاہے اورکوشش کی ہے کہ پچھلی معلومات کو اس طرح مرتب کردیا جائے کہ آپ کی زندگی کایہ گوشہ بڑی حدتک روشنی میں آجائے۔مولانامفتی محمدنذرتوحید مظاہری (چتراجھارکھنڈ)اورمفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذدارالعلوم دیوبندکے قیمتی مقالات بھی اسی موضوع پر ہیں۔
* حضرت مولاناسجادصاحب اپنے زمانہ کے بڑے فقیہ تھے،وہ فقہ وقانون کی بے نظیر مہارت رکھتے تھے،جن علماء کی آپ سے ملاقاتیں ہوئیں،انہوں نے آپ کی فقہی اورقانونی بصیرت کااعتراف کیا۔علامہ انورشاہ کشمیریؒ ،شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی ؒ ،مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ اور حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی ؒ یہ تمام حضرات آپ کی فقہی دقیقہ رسی اوربالغ نظری کے معترف تھے،علامہ کشمیری ؒ اور علامہ عثمانی ؒ آپ کو فقیہ النفس کہتے تھے ؛لیکن مولاناکی شخصیت اس میدان میں جس قدر بلندتھی،اتناہی اس موضوع پر کم لکھاگیا،بعض اہل علم کی مختصراورقیمتی تحریریں ضرورموجود ہیں؛لیکن ضرورت تھی کہ اس پر مزیدتفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جائے؛تاکہ مولاناکافقہی مقام نئی نسل کے سامنے نکھرکرآسکے۔مولانامفتی عتیق احمدبستوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،مفتی سعیدالرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ اورحقیرراقم الحروف نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے اورمولاناکے فقہی اورقانونی حصہ کابڑاذخیرہ جمع ہوگیاہے ، مولانا کی فقہی بصیرت پراتنی تفصیل کے ساتھ پہلے نہیں لکھا گیاتھا۔
* عصر حاضرمیں ملکی اورعالمی حالات کے تناظرمیں افکارسجاد کی بڑی معنویت ہے،یہ بہت حساس اوراہم مسئلہ ہے؛لیکن پچھلے مطبوعہ ذخیرے میں اس پہلوکو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی تھی ،حالاں کہ مفکرین ملت ہر دورمیں مولانامحمدسجاد کے افکار کو رہنماخطوط کی حیثیت سے دیکھتے رہے ہیں۔پہلی بار زیرنظر مجموعہ میں اس موضوع کو خاص ہدف بنایاگیا،کئی اصحاب علم نے اس پہلوپراپنی قلمی کاوشیں ہمیں ارسال کیں ،ان میں مولانا خالدسیف اللہ رحمانی  جنرل سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا،ڈاکٹر فہیم اخترندوی صدرشعبۂ اسلامک اسٹڈیز مولانا ابوالکلام آزادنیشنل اردویونیورسیٹی حیدرآباد،ڈاکٹرابوبکرعباددہلی یونیورسیٹی دہلی،مولانا عبدالحمید نعمانی بطورخاص قابل ذکرہیں۔
* مولانامحمدسجادؒ جمعیۃ علماء ہند کے بانیوں میں ہیں،مولانااس کے قیام سے لے کرتاحیات جمعیۃ سے وابستہ رہے اور اس کے ذمہ
دارانہ منصب پر بھی فائز رہے ،اس میدان میں بھی آپ کی خدمات کادائرہ بہت وسیع ہے، خودامارت شرعیہ کاقیام بھی جمعیۃ علماء ہی کے پلیٹ فارم سے عمل میں آیا؛ لیکن جمعیۃ علماء ہندکی نسبت سے آپ کی خدمات کاتذکرہ بہت کم کیاگیا؛بلکہ اب رفتہ رفتہ نئی نسل یہ بھولتی جارہی ہے کہ مولانامحمدسجاد کاجمعیۃ علماء ہند سے کیا تعلق تھا ؟اس مجموعہ میں رفیق مکرم مولانامفتی محمدسلمان منصورپوری صاحب کامقالہ اسی موضوع پرہے ،اورحقیرراقم الحروف نے بھی اس موضوع پرخامہ فرسائی کی ہے۔
* یقیناًانسان کی شخصیت کی تعمیرمیں اس کے اساتذہ کا بڑاکردارہے،اب تک کے لٹریچرمیں مولانا محمدسجادؒ کی تعلیمی زندگی اورآپ کے اساتذۂ کرام کے احوال کاحصہ انتہائی تشنہ رہاہے،عام طور پر صرف دوتین اساتذہ کا ذکر کیاجاتاہے اور وہ بھی غیر محقق طور پر، اس مجموعہ میں مولاناطلحہ نعمت ندوی استھانوی کا مقالہ اسی موضوع پر ہے، جس میں آپ کے تمام اساتذہ کی ممکنہ تفصیلات ذکر کی گئی ہیں ،یہ بھی اس مجموعہ کی اہم حصولیابی ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی کئی ابواب ہیں،جن پر اب تک کام نہیں ہوسکاہے ،مثلاً :*مولاناسجادکی طالب علمانہ زندگی اورتعلیمی ادوار کی تفصیلات،*آپ کی روحانیت ،بیعت طریقت اورآپ کی خانقاہی زندگی ،*آپ کی قانونی وآئینی بصیرت اورقوانین عالم پر آپ کی نگاہ ،*آپ کا نظریۂ تعلیم اور تعلیمی افکار ومساعی وغیرہ ،میری خواہش تھی کہ ان موضوعات پر بھی کچھ تفصیلی تحریریں شامل ہوں؛لیکن اس میں کامیابی نہیں مل سکی ۔اللہ نے چاہاتو کسی اور طریقہ سے اس کی تلافی کی جائے گی ۔
مولاناکی ملی وسیاسی خدمات میں امارت شرعیہ ،نظام قضا اور آپ کی سیاسی پارٹی پر پہلے بھی بہت کافی لکھا جاچکاہے اور اس مجموعہ میں بھی اس موضوع پرقیمتی تحریریں موجود ہیں؛اس لیے کہ مولاناکی زندگی کے یہ وہ ابواب ہیں جن کے بغیر حیات سجاد کاتصور نہیں کیا جاسکتا؛اس لیے تکرارمضامین کے باوجودایسے مقالات شامل کئے گئے ہیں ،البتہ ان میں بعض نئے گوشے بھی آگئے ہیں،جن کا پہلی کتابوں میں کوئی تصور نہیں تھا ،اس باب میں جناب مولاناعطاء الرحمن قاسمی چیرمین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ دہلی کامقالہ انتہائی قیمتی ہے ان کے مضمون نے تاریخ کے بہت سے نایاب گوشوں سے پردہ اٹھایاہے،اورانہوں نے بڑے اعتدال اورتوازن کے ساتھ امارت وجمعیۃ کی تاسیس کے پس منظرپرروشنی ڈالی ہے، حضرت مولاناشاہ ہلال احمد قادری خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی تحریر بھی بہت اہم ہے انہوں نے بڑی صاف گوئی اور حقیقت پسندی کے ساتھ تحریک امارت کاجائزہ لیا ہے۔ حضرت مولانامحمدقاسم مظفرپوری قاضی شریعت امارت شرعیہ پٹنہ اور مفتی اشرف عباس  استاذ دارالعلوم دیوبند نے نظریۂ امارت کو قرآن وحدیث اور فقہی نصوص سے مدلل کیاہے اورشکوک و شبہات کے گرد وغبار صاف کئے ہیں اورامارت شرعیہ کے تعارف پر مولانانورالحق رحمانی استاد المعہد العالی امارت شرعیہ کامقالہ بھی بہت اہم ہے۔
اس موقعہ پرمیں بحیثیت کنوینرجملہ اہل قلم کے علاوہ جمعیۃ علماء ہندکے اکابر وذمہ داران کابھی شکریہ ادا کرتا ہوں ،بالخصوص امیرالہندحضرت مولاناقاری محمدعثمان منصورپوری صدرجمعیۃ علماء ہند ،جمعیۃ علماء ہندکے فعال ناظم حضرت مولاناسیدمحموداسعدمدنی اورحضرت مولانامعزالدین ناظم ادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماء ہندکی خدمات عالیہ میں کلمات تہنیت و تشکر پیش کرتاہوں کہ انہوں نے اس عظیم کام کابیڑہ اٹھایااورمحض اپنے حسن ظن کی بنیادپر سیمینار کی علمی ذمہ داری اس حقیرکے حوالے کی ،اللہ پاک ان سب کو جزائے خیرسے نوازے۔( آمین)
ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم