Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 6, 2019

حقیقت کشا تحریر!! جمیتہ علماہ ہند کانگریس کے لئیے ماحول سازی میں سر گرم۔۔۔۔۔۔خفیہ میٹنگوں کا سلسلہ جاری !!!

ازقلم/ آفتاب اظہر صدیقی۔/ صدائے وقت/ نمائندہ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کل شام جب مجھے کسی خیرخواہ کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ مولانا انوار عالم ناظم اعلیٰ دارالعلوم بہادرگنج نے گزرے ہوئے منگل 2/ اپریل کو "اوقات سحر و افطار " کے عنوان سے علماء کی میٹنگ کرکے ایم آئی ایم کی مخالفت اور کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا ہے، بلکہ کانگریس کے لیے زمینی سطح پر کام کرنے کا بھی حکم کیا ہے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیسے ہمارے سیدھے سادھے خدا ترس بزرگ علماء کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ اشارہ واقعی جمعیۃ کے اعلیٰ پیمانے کے عہدے داران کی طرف سے ہوگا، جو برسہا برس سے کانگریس کی غلامی میں جی رہے ہیں۔ جنہیں قوم کی بھلائی سے کوئی سروکار نہیں صرف اپنے مفاد پر نظر رہتی ہے۔
اگر جمعیۃ کو کانگریس کی ہی غلامی پسند ہے تو جمعیۃ کے علماء کو چاہیے کہ وہ جگہ جگہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں،  لیکن چونکہ یہاں "مدعی سست گواہ چست" والا معاملہ ہے،  کانگریس آپ کو منھ نہیں لگاتی اور آپ ہیں کہ کانگریس کے لیے باضابطہ "ورکری" کر رہے ہیں،  وہ جو راجیہ سبھا میں اعزازی سیٹ ملی تھی کیا اب تک اس کا حق ادا نہیں ہوا؟ بی جے پی کی سرکار کیوں بنی،  کیوں کہ کانگریس کے تعلق سے یہ نظریہ عام ہوچکا تھا کہ وہ جمعیۃ علماء کے ساتھ ہے،  غیر مسلم بی جے پی کی طرف کیوں گئے،  کیوں کہ کانگریس کے بارے میں علمائے جمعیۃ نے مسلم پارٹی ہونے کا تصور عام کردیا تھا۔ جب اسی کانگریس کو اندازہ ہوگیا کہ ان علمائے حرص کی وجہ سے ہمارا سیاسی دائرہ سمٹتا جا رہا ہے تو اس نے بھی مسلمانوں اورخاص کر علماء سے دوری بنانا شروع کردی، آنے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس نے ملکی سطح پر گنے چنے مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے، ان میں اکثر کشن گنج کے امیدوار کی طرح بے دین و ضمیر فروش ہیں۔ ایک طرف کانگریس آپ کو لات مار کر دور پھینک رہی ہے اور دوسری طرف آپ ہیں کہ بار بار اسی کے قدموں میں جاکر گر رہے ہیں۔ مولانا محمود مدنی کے بارے میں محقق رپورٹ یہ ہے کہ کانگریس خود چل کے آکر انہیں کہیں کا ٹکٹ دیتی تو وہ انکار نہیں کرتے، لیکن کانگریس نے انہیں اپنے ساتھ شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ بی جے پی پھر کانگریس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتی کہ ہم پنڈت نواز ہیں تو یہ بھی مولوی نواز پارٹی ہے۔ مولانا اسرارالحق قاسمی کو پہلی بار کانگریس نے جمعیۃ کے کہنے پر ٹکٹ نہیں دیا تھا، بلکہ ان کی میدانی سطح کی محنت،  عوامی پکڑ اور دہلی میں رہنے والے کچھ علماء کی پرزور اپیل پر ٹکٹ دیا گیا تھا اور پھر دوسری مرتبہ ٹکٹ دینا کانگریس کی مجبوری بن گئی تھی۔ مولانا اسرارالحق قاسمیؒ  جیسے علماء تو اب سیاسی پارٹیوں کو ملنے سے رہے،  لیکن اب بھی جو کام کے علماء ہیں ان سے کانگریس پوری طرح بیزار ہوچکی ہے۔ ہاں! اگر اب بھی کانگریس آپ کی اہمیت کو سمجھتی ہے،  اب بھی وہ آپ کے کسی عالم کو ٹکٹ دینے کو تیار ہے یا کم سے کم جیتنے کے بعد آپ کی کچھ شرائط ماننے کو تیار ہے، یا آپ کی کسی سیاسی پارٹی سے اتحاد کرنے کو تیار ہے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کانگریس کے لیے ورکری کریں گے،  لیکن یہ ممکن نہیں کہ اب کانگریس آپ کو منھ لگائے۔
کانگریس نواز جمعیۃ کو یہ بھی واضح کردینا چاہیے کہ آپ کے مولانا بدرالدین اجمل سے کانگریس نے الائنس کیوں نہیں کیا؟ مولانا بدرالدین اجمل کے مقابل اپنا امیدوار کیوں کھڑا کیا؟ بات صاف ہے کہ کانگریس ہو یا بی جے پی سب کی نظر میں آپ نکمے اور بیکار مال ہیں، آپ کی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں ہے،  کیوں کہ آزادی کے بعد آپ نے اپنی سیاسی قوت بنانے کی کوشش ہی نہیں کی، دوسری سیاسی جماعتوں کی غلامی کرتے رہے،  ادھر آر ایس ایس اور شیو سینا نے بی جے پی کو تیار کیا، بی جے پی کے لیے میدان ہموار کیا اور ملکی سطح پر بی جے پی کی حکومت بنواکر اپنے ایجنڈے پر کام کروایا۔ آپ بھی چاہتے تو اپنی ایک سیکولر سیاسی جماعت بناتے،  آپ جمعیۃ میں رہتے ہوئے اس کی رہبری کرتے تو آج ملکی سطح پر نہیں تو صوبائی سطح پر ضرور آپ کی پارٹی حکومت سازی کے پوزیشن میں ہوتی۔
آپ کو پارلیمنٹ میں بولتے ہوئے مولانا بدرالدین اجمل، اسدالدین اویسی بہت اچھے لگتے ہیں، لیکن پارلیمنٹ سے باہر آپ کبھی ان کی حمایت نہیں کرتے، یہ آپ کی کیسی ظالمانہ پالیسی ہے۔
اے جمعیۃ کے علم بردارو!  کیا آپ کشن گنج اور سیمانچل کی پسماندگی سے واقف ہیں؟ کشن گنج میں آپ کانگریس کے ذریعے برسہا برس میں کوئی حکمت عملی تیار نہیں کرا سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایم آئی ایم یہاں آئی تو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ اسے قبول کیا اور آج کشن گنج کے بیشتر پڑھے لکھے لوگ اور علماء کی وہ اکثریت جسے جمعیۃ سے کوئی سروکار نہیں، وہ سب ایم آئی ایم کے ساتھ ہیں۔ مولانا ابو طالب رحمانی، مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی، مولانا عبداللہ سالم چترویدی، راشٹریہ علماء کونسل کی ٹیم، مولانا بدرالدین اجمل اور کشن گنج کے بریلوی اور اہل حدیث مسلک کے اکثر علماء بلا تفریق مسلک و مشرب جناب اخترالایمان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
ان کے ساتھ ساتھ اظہار اصفی، قمر الہدیٰ اور قومی تنظیم کے صحافی علی رضا صدیقی، بہادر گنج کے معصوم رضا، چھترگاچھ کے مولانا نورالحق، ٹھاکرگنج سے مولانا انظارالقادری یہ سب اخترالایمان کی حمایت میں ہیں۔
  ایسے وقت میں اگر آپ کانگریس کے ایک نکمے امیدوار کے لیے جس سے اس کا اسمبلی حلقہ ہی ناخوش ہے ورکری کریں گے تو بدنامی کس کی ہوگی؟
........................................
از قلم: آفتاب اظہر صدیقی

__________________________ مضمون نگارکےخیالات ونظریات سےصداۓوقت کااتفاق ضروری نہیں!