Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 8, 2019

نئے امیر جماعت اسلامی ہند سعادت اللہ حسینی کے کاندھوں پر چیلنجوں اور امیدوں کا بوجھ۔


تحریر/قاسم سید/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اقامت دین کی داعی جماعت اسلامی ہند کی اعلیٰ طاقتی فیصلہ ساز باڈی 157رکنی مرکزی مجلس نمائندگان نے گھنٹوں کے تبادلہ خیال، گہرے غور وخوض اور مباحثہ کے بعد کثرت رائے سے 46سالہ سید سعادت اللہ حسینی کو اپنا نیا امیر منتخب کرلیا، اس طرح روایتی، تجربہ کار، منجھی ہوئی بزرگ قیادت کے مقابلہ آزادی کےبعد پیدا ہوئی نسل کے تعلیم یافتہ روشن خیال، دانشور، متحرک شخصیت پر بھروسہ کو ترجیح دی، یہ فیصلہ انتہائی دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس لئے بھی کہ ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس میں اوسط کے لحاظ سے 40 فیصد سے زائد مسلم نوجوانون ہے۔ ملک کی زیادہ تر پارٹیوں کی قیادت مابعد آزادی والی نسل کے ہاتھوں میں منتقل ہونے کا عمل سامنے ہے۔ شاید اس لئے عمومی طور پر اس جرأت مندانہ فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ بادی النظر میں اس میں امکانات ہیں اور اندیشے بھی، توقعات ہیں اور تشویش بھی، بہتری اور خطرات بھی ۔ تحریکوں کا مزاج نہ سمجھنے والوں کے لیے یہ فیصلہ حیرت کا باعث ہوسکتا ہے کہ ایسے وقت جبکہ ملک انتہائی نازک اور سنگین دور سے گزر رہا ہے ، نظریاتی جنگ کے دوراہے پر ہے ،عام انتخابات کے نتیجہ میں موجودہ حکومت کو عوام ایک موقع اور دے دیتے ہیں تو جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے صرف جمہوریت ،آئین ہی خطرے میں نہیں ہوں گے خود اقلیتیں، ان کے ادارے تعلیمی سیاسی رجحانات و تنظیمیں اپنے مستقبل اور وجود کی بقا سے نبرد آزما ہوسکتی ہیں ، مجلس نمائندگان نے زمام کار نوجوان قیادت کو سونپ کر کوئی رسک تو نہیں لیا؟ یہ خود اعتمادی ہی ہے یا نوجوان قیادت کی بے پناہ صلاحیت، اس کی بیش انتہا فکری ونظریاتی قوت پر بھروسہ، ایسا بھی نہیں ہے کہ سعادت اللہ حسینی اچانک ابھر کر سامنے آئے ہوں۔ گزشتہ امارت کے انتخاب میں وہ معمولی ووٹوںکے فرق سے رہ گئے تھے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت کے اندرونی نظام کو ان کی کتنی شدید ضروریات محسوس ہورہی تھی اور وہ ہر حال میں تبدیلی کے حق میں تھا۔
بلاشبہ یہ غیرمعمولی انقلابی قدم ہے ۔ جماعت کے نظریہ اور طریق کار سے اختلاف کی کافی گنجائشوں کے حق کے ساتھ بغیر شک وشبہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ قیام کے ستر سال گزارنے کے بعد بھی اس کے اندر موجود جمہوری روخ آج بھی اتنی ہی توانا ومتحرک ہے اس میں خاندانی وراثت کا رحجان دور دور تک نہیں جو ہمارے ملک کی زیادہ تر دینی وسیاسی جماعتوں کی شناخت بن چکا ہے۔
یہ رسک بھی جماعت ہی لے سکتی ہے کہ نئی نسل کو قیادت سونپ دے اور سب کچھ معمول کے مطابق رہے۔ بہرحال یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ سعادت اللہ حسینی ان امیدوں اور توقعات کی کسوٹی پر کھرے اتریں گے جوان سے وابستہ ہیں۔؟ جوش اورتجربہ کے درمیان توازن رکھیں گے۔ تحریک کے اندر اٹھنے والے سوالوں کا صبر وتحمل سے جواب دینے اور انہیں ساتھ لے کر چلنے کو ترجیح دیں گے؟ نوجوان طبقہ کی بے پناہ امنگوں اور آرزوؤں کی طغیانی میں پرکشش اور جارح لہروں کو مثبت سمت دیں گے؟ طلبا تنظیم اور تحریکی قیادت کے درمیان محسوس کی جانے والی دوری کو قربت میں بدل سکیں گے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ تحریک کو اس کے اصل محور یعنی غیرمسلموں میںتبلیغ و دعوت اور مسلمانوں کی سماجی وفکری تربیت پر واپس لانے کے حامیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان سوالوں کا جواب آنے والا وقت اور اقدامات سے ملے گا۔ سید سعادت اللہ حسینی کے کاندھوں پر امیدوں اور توقعات کابہت بڑا بوجھ ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مودی سے عوام کو بہت ساری توقعات تھیں۔ توقعات آئینہ کی طرح ہوتی ہیں ۔ امید ہے کہ وہ پرانی اور نئی نسل کے درمیان پل کا کام کریں گے ۔ آج سے وہ اپنے ہمدردوں، بہی خواہوں اور نکتہ چینیوں کی کسوٹی پر ہوں گے ۔ یہ تبدیلی ملک اور تحریک کے حق میں ثمر آور ہوگی۔ایسی امید کرنا چاہئے۔