Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 24, 2019

زبان کو مذہب کا چشمہ لگا کر نہ پڑھئے::::::::::معروف صحافی ڈاکٹر شعیب نگرامی۔


روزنامہ راشٹریہ سہارالکہنٶکےسینٸرسب ایڈیٹرراشدخاں ندوی کو "ایوارڈبراۓصحافت" سےنوازاگیا۔
______________________
لکھنٶ/٢٣اپریل/٢٠١٩[صداۓوقت]
قاسمیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے پانی پت سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب، کئی کتابوں کے مصنف رمیش چندر پوہال کے ادبی کارناموں پر پڑی گرد ہٹانے کیلئے مولانا محمد علی جوہر فاؤنڈیشن میں ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو یکجا کیا۔ اعزاز و استقبال کی اس پروقار تقریب کی صدارت برسوں قاہرہ ریڈیو سے وابستہ رہے معروف ادیب ڈاکٹر محمد شعیب نگرامی نے کی۔ مہمان خصوصی کے بطور سینئر صحافی و افسانہ نگار احمد ابراہیم علوی، سنجے مصرا شوق اور محمد وصی صدیقی رونق محفل رہے۔ مومن انصار سبھا کے قومی صدر محمد اکرم انصاری مہمان ذی وقار کی حیثیت سے پروگرام کا حصہ رہے۔ اس موقع پر مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے صاحبان کمال کو اعزاز و اکرام سے نوازا گیا۔ رمیش چندر پوہال کو قومی یکجہتی ایوارڈ بدست ڈاکٹر شعیب نگرامی، احمد ابراہیم علوی کو مولانا عبدالماجد دریابادی ایوارڈ، رضوان احمد فاروقی کو فخر ادب ایوارڈ، محمد راشد خان ندوی اور جیلانی خان علیگ کو ایوارڈ برائے صحافت، موسی رضا کو برائے فروغ زبان، حافظ نوراللہ کو فروغ تعلیم ایوارڈ، جامعہ ام ہانی للبنات لکھنؤ کی پرنسپل رقیہ نوری کو ام ہانی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

صدر پروگرام ڈاکٹر محم
شعیب نگرامی نے زور دے کر کہا کہ زبان کو مذہب کا چشمہ لگا کر نہ پڑھئے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان بتانے والے لوگ رمیش چندر پوہال سے سبق لیں۔ مولانا فیروز ندوی اردو کے سچے شیدائیوں کو سامنے لاکر بڑا کام کررہے ہیں۔ ممتاز صحافی و افسانہ نگار احمد ابراہیم علوی نے کہا ’’داستانِ حالی‘‘ کی سطر سطر سے تحقیق کے ساتھ اخلاص ٹپکتا ہے۔ ان کے کام اور علم و فضل نے مجھے واقعتا متاثر کیا۔ صدر جلسۂ استقبالیہ شاعر و ادیب رضوان فاروقی نے مسٹر پوہال اور مولانا حالی کے حوالہ سے بھرپور مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ رمیش چندر پوہال ’’داستانِ حالی‘‘ کے حوالے سے زندہ رہیں گے۔ کنوینر پروگرام فیروز ندوی کے مطابق ’’داستانِ حالی‘‘ کام نہیں کارنامہ ہے۔ مسٹر پوہال سیکولر مزاج انسان ہیں۔ مسلمانوں اور علم و ادب سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ ناظم پروگرام رحمت لکھنوی نے کہا کہ سرسیّد نے جس شخصیت کو اپنا بازو کہا وہ شخصیت معمولی ہے نہ ہی اس کے کمالات! معروف شاعر سنجے مصرا شوق کے مطابق ’’داستان حالی‘‘ ایک دو دن کا کام نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حالیؔ کا کارنامہ انتخاب غالب ہے تو مسٹر پوہال کا کارنامہ ’’داستان حالی‘‘ ہے۔ اکرم انصاری کی نظر میں یہ کام اس لئے مفید ہے کہ اس سے گنگا جمنی تہذیب فروغ پائے گی۔ مولانا مہیب ندوی نے مسٹر پوہال کی خدمات کو اجاگر کرنے والوں کی تعریف و ستائش کی۔ جوہر فاؤنڈیشن کے روح رواں محمد وصی صدیقی نے اعلان کیا کہ وہ سرسیّد ڈے کے موقع پر رمیش چندر پوہال کو خصوصی طور پر نوازیں گے۔ ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی نے کہا کہ ان کے کارنامہ نے ان کو قابل احترام اور لائق ذکر بنا دیا ہے۔
اس موقع پر خاص طور پر اکرام انصاری، محمد جنید قاسمی، غیور ایوبی، ہارون رشید ندوی، کاتب امام الدین، انجینئر محمد شعیب، انور حبیب علوی، نائلہ خاتون، علی ساگر، ساحل عارفی، احمد جمال، اعزاز حسین، محسن لکھنوی، آفتاب اثر، زاہد حسین، جاوید ہاشمی، نجمی لکھنوی، انصاری اجمیر، قمر سیتاپوری، حسیب ایڈوکیٹ، مظہر عباس وغیرہ موجود تھے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس پروگرام کا آغاز ایک خاتون قاری نے کلام ربانی سے کیا جن کا اسم گرامی رقیہ نوری ہے اور نذرانۂ نعت عرفان لکھنوی نے پیش کیا۔ کلمات تشکر کے ساتھ ضیافت کا اہتمام فیروز ندوی نے کیا۔