Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 1, 2019

پارلیمانی الیکشن 2019۔۔جونپور پارلیمانی حلقہ۔۔اتحاد کے امیدوار سے بڑھتی جا رہی ہے مسلمانوں کی دوری۔

معراج احمد

جونپور پارلیمانی حلقہ سپا کے قدآور لیڈر سے ہوئی بحث سے یادو برادری کاایک خیمہ بھی ناراض
نظر انداز سے پریشان کارکنان بھی امیدوار سے بنا رہے ہیں فاصلہ۔
جون پور (معراج احمد)۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اپنے کارکنان اور مسلم ووٹروں کے دم پر کسی بھی پارٹی کو منھ توڑ جواب دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہنے والی سماجوادی پارٹی کے قدآور لیڈران سمیت کارکنان موجودہ پارلیمانی انتخاب میں بسپا کے حصے میں ضلع کی صدر سیٹ کے جانے اور موجودہ اتحاد کے امیدوارکی عدم توجہی اور قدآور لیڈران پر طنز اور تنقید سے اس قدر مایوس ہو گئے ہیں کی امیدوار کی حمایت میں محض کچھ عہدیداران ہی نظر آتے ہیں۔صدر لوک سبھا سیٹ سے اتحاد کے امیدوار نے ایک طرف مسلمان ووٹروں سے دوری بنا رکھی ہے تو دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے ضلع کی شان کہے جانے والے سابق وزیر سے ہوئے کہاسنی اورایک دوسرے پر تبصرہ کئے جانے سے کارکنان خاصے ناراض ہو چکے ہیں۔ ملہنی اسمبلی حلقہ میں منعقد ایک پروگرام کے دوران مقامی ممبر اسمبلی سابق کابینہ وزیر پر متنازعہ بیان بازی سے پارٹی کے خیمے میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور کہیں نہ کہیں بیان بازی اتحاد کے امیدوار کیلئے خطرے کا سبب بنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
واضع ہو کہ صدر لوک سبھا سیٹ سے بسپا کے سماجوادی پارٹی سے اتحاد کے امیدوار شیام سنگھ یادو کے نام پر مہر لگنے کے بعد سماجوادی پارٹی کے کارکنانوں نے کافی جوش کے ساتھ استقبال کیا تھا لیکن کچھ ہی دن میں سیاست نے رنگ دکھانہ شروع کیا اورامیدوار نے کارکنانوں کو ہی نظر انداز کرنا شروع کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کے کارکنان دو خیموں میں تقسیم ہو گئے۔ادھر امیدوار کی جانب سے مسلم ووٹروں پر زیادہ توجہ نہ دینے سے بھی قدآور لیڈر کا خیمہ خاصہ ناراض چل رہا ہے اور الگ سے پارٹی کے حق میں رابطہ کررہا ہے۔پارٹی زرائع کی مانیں تو گزشتہ دنوں ملہنی اسمبلی حلقہ میں منعقد ایک پروگرام کے دوران امیدوار اور مقامی ممبر اسمبلی صوبے کے سابق کابینہ وزیر کے درمیان کارکنانوں کو نظر انداز کرنے کو لیکر بحث ہو گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لینے کی دھمکی اور طنز اور تبصرہ کرنے لگے جس پر سابق کابینہ وزیر کے حامیان خاصہ ناراض ہو گئے۔کارکنان کے مطابق بسپا کے امیدوار پیسے کے دم پر سیاست کے میدان میں ضرور اتر گئے ہیں لیکن سیاست میں اپنے سنیئر لیڈر اور کارکنان کے ساتھ سلوک کرنے کا ان کاطریقہ کافی حد تک غلط ہے۔ان کے سلوک سے ایک طرف جہاں سماجوادی پارٹی کے قدآور لیڈر اور ان حامیان نے امیدوار سے دوری بنا لی ہے وہیں مسلم ووٹروں کو اپنی جاگیر سمجھنے کی بھی بھول کر رہے ہیں۔سماجوادی پارٹی کے ایک سنیئر لیڈر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ بہوجن سماج پارٹی پیسہ لیکر ہی ٹکٹ دیتی ہے ایسے میں امیدوار شاید اپنے پیسے کی خماری اور بسپا کے دلت ووٹوں کے سہارے اپنی سیاسی حساب بنارکھا ہے۔اس انتخاب میں سماجوادی پارٹی سے اتحاد ہونے کے بعد شاید امیدوار اس غلط فہمی میں ہیں کہ سماجوادی پارٹی کے مسلم ووٹر وں کو ان کے حق میں ووٹ کرنا مجبوری ہے جو ان کی بڑی بھول ثابت ہوسکتی ہے۔ادھر سماجوادی پارٹی کے قدآور لیڈر ملہنی ممبر اسمبلی سابق کابینہ وزیر سے ہوئی بحث بھی کہیں نہ کہیں سیاست کے حساب کو خراب کرنے میں کافی ہوگی۔