Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 4, 2019

رمضان اور چندے میں مصروف علماء۔


تحریر _فضیل احمد ناصری_صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
دنیا کا معاشی نظام چندے پر ٹکا ہوا ہے، کوئی حکومت ہو، کوئی تنظیم ہو، کوئی سرکاری ادارہ یا دینی تعلیم گاہ ہو، اس کی روحِ رواں یہی چندہ ہے- یہ علٰحدہ بات ہے کہ عنوانات الگ الگ ہیں، مگر مآل اور انجام سب کا ایک ہی ہے، حکومت اسی چندے کو ٹیکس کا نام دیتی ہے، کہیں اسی چندے پر "دان "کا اطلاق ہوتا ہے، کوئی اسی چندے کو "ڈونیشن "کہہ دیتا ہے، تو کوئی سیدھے سادے لفظ میں اس معاونتی پیش کش کو "چندے "ہی سے تعبیر کر دیتا ہے: وللناس فیما یعشقون مذاھب- شاعر نے کہا تھا:
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے، میر و سلطاں سب گدا
*چندہ اور دینی ادارہ*
انسانی آبادی کے دیگر شعبوں کی طرح ایک شعبہ "دینی ادارہ "بھی ہے- ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد بھی اسی معاونتی نظام پر ہے، دینی خدمات کے لیے "چندے "کا موجودہ نظام بھی دورِ رسالت سے مستفاد ہے- آپ ﷺ نے متعدد مواقع پر مسلمانوں کی گاڑھی کمائی کا ایک حصہ بطور چندہ مانگا ہے، حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا وہ واقعہ تو یاد ہی ہوگا، جس میں حضرت عمر "پراعتماد "ہوتے ہیں کہ آج میں بالیقین "صدیقِ اکبر "سے بازی لے جاؤں گا، کیوں کہ آج میں نے اپنا آدھا گھر قربان کر دیا ہے، لیکن چند ہی ساعتوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ "گیند "صدیق اکبر کے پالے میں جا گری ہے- اپنی پوری گھر گرہستی پیغمبرﷺ کے قدموں پر نثار کردی تھی - حضور علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو شاعر کی زبان میں ان کا جواب یہ تھا:
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے، خـــدا کا رسول بس
پھر چندے کا یہ سلسلہ عہد بہ عہد چلتا رہا اور اب ہمارے عہد میں بھی اس کا رواج 


زوروں پر ہے-
*دینی درس گاہیں عوامی تعاون سے چلتی ہیں، حکومتی امداد سے نہیں*
جب تک ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی، دینی ادارے سرکاری رقومات سے چلتے تھے، حکمراں اخلاق واوصاف میں ذاتی طور پر جیسے بھی رہے، مدارس کے تئیں ان کا رویہ قابلِ تقلید تھا،لیکن مغلیہ سلطنت کے سقوط کے بعد مدارس کا نظام حکومت سے جوڑنے میں مفید نہ رہا، اسی لیے روشن ضمیر اور جہاں بین علما نے عوامی چندے پر زور دیا اور درس گاہوں کو سرکاری الحاقات سے دور دور ہی رکھنے کی کوشش کی، اس باب میں بھی لاریب دارالعلوم دیوبند کے سر قیادت کا سہرا سجتا ہے-
*سرکاری مدارس کی زبوں حالی*
علماے امت کے "اندیشۂ چالاک "کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے انگریزی عہد میں وہ سب دیکھ لیا جو اب آزاد ہندوستان کا ناسور کہلاتا ہے- انہوں نے دینی اداروں کو سرکاری دستبرد سے آزاد رکھ کر جس روش کی بنا ڈالی، وہ کل تو لائق تحسین تھی ہی، آج بھی لائقِ صد تبریک ہے، کیوں کہ سرکاری اداروں اور آزاد مدارس میں وہ فرق ہے جو فرق گھوڑے اور گدھے کے درمیان ہوتا ہے- سرکاری درس گاہوں سے نکلنے والے علما بالعموم "لکھ لوڑھا، پڑھ پتھر "کا مصداق ہوتے ہیں، تو آزاد مدارس سے تیار علما "ایں خانہ ہمہ آفتاب است " مدرسہ بورڈ سے سند یافتہ علما اور فضلا یہ بتانے پر بھی قادر نہیں ہوں گے کہ "علما اور فضلا "کا مادۂ اشتقاق کیا ہے؟ اگر یہ واحد ہیں تو ان کی جمع کیا؟ اور جمع ہیں تو ان کا واحد کیا؟ سرکاری مدارس کے ایسے بے شمار فضلا سے  میری ملاقات ہوئی ہے جو "سرٹیفکٹ "کو بے تکلف "سارٹی فٹک "کہتے سنے گئے ہیں- بورڈ کے مدارس یقینی طور پر "صلاحیت خور "ہوتے ہیں اور آزاد درس گاہیں دینی رہ نماؤں کے مراکزِ تجلی-
*اس لیے آزاد مدارس کو خوب چندے دیجیے*
وقت جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، عالمِ اسلام کے حالات تنگی و ترشی کے تھپیڑوں میں ہیں- امت کو علماے اسلام سے بدظن کرنے کی کوششیں جاری ہیں- علما اور عوام کا رابطہ ختم کرنے کے لیے ہرممکن ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں، کیوں کہ اسلام دشمنوں کو معلوم ہے کہ جب تک مدارس سے یہ ملاّ نہیں اٹھ جاتے اور ان کی ٹوٹی چٹائیاں اور پھٹے بوریے بھی پھینک نہیں دیے جاتے، اسلام کی عالم گیر تحریک اور دینِ قیم کی یہ "شمع "کبھی نہیں بجھے گی- مدارس کو "دہشت گردی کا مرکز "اور علما کو دہشت کی علامت بلا وجہ نہیں کہا جا رہا، اس کے پیچھے بڑی زبردست اور گہری سازش کارفرما ہے، اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے قدرت نے "روشن بصری "سے نوازا ہو، لہذا دین کی ترقی جس مسلمان کے بھی پیشِ نظر ہو، وہ اپنی گاڑھی کمائی کا ایک حصہ دینی درس گاہوں کو لازماً دے-
*کالی بھیڑوں کو پہچان کر اپنی زکوۃ وغیرہ ادا کیجیے*
جس طرح ہر موضوع کے ساتھ مہمل اور اچھوں کے ساتھ برا بھی ہوتا ہے، اسی طرح مدارس کے چندے کے لیے نکلنے والے لوگوں میں "زید "کے ساتھ "دیز "بھی ہوتے ہیں- یہ دیز آے دن پکڑے جاتے ہیں، جعلی دستاویزات، فرضی رسیدیں، غیر واقعی گوشوارے - ان لوگوں کو عزت ذلت کی کچھ پڑی نہیں ہوتی، منہ اٹھایا اور سیٹھوں کے دربار کے چکر لگانے لگے، یہ لوگ چندے کے لیے اس طرح لائن لگاتے ہیں، جس طرح کھانا لینے کے لیے مدارس کے مطبخ میں طلبہ- مزید برآں سیٹھ کی طرف سے آرام کی غرض سے دیے گئے کمرے میں یہ سفیدپوش لیٹ کر اپنی باری کا اس طرح انتظار کرتے ہیں گویا اسٹیشن کے ویٹنگ روم کا نظارہ سامنے ہو  ایسی کالی بھیڑوں کو پہچان کر انہیں بھیڑ سے الگ کر دینا چاہیے، یہ لوگ علما اور مدارس کو بدنام کرنے والے عناصر ہیں-
*کچھ زمیں پر بھی چاند تارے ہیں*
ان کالی بھیڑوں کی شناخت کے ساتھ "سفید بندوں "کی مکمل رعایت بھی ہونی چاہیے، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے- ایک تو اتنے تصدیق نامے لازم قرار دے دیے گئے ہیں کہ انہیں جمع کرنا بھی کارے دارد- دوسرے یہ کہ "معلوم، نامعلوم "کا فرق بھی اٹھا دیا گیا، مشہور اداروں کے ساتھ بھی وہی "مظالم "ہیں، جو غیرمشہور اداروں کے ساتھ روا رکھے جاتے ہیں- قاعدے کے لحاظ سے دارالعلوم دیوبند اور امارتِ شرعیہ بہار کی تصدیق کافی ہونی چاہیے تھی، مگر اب اتنی ساری تصدیقات چاہییں کہ سن کر پتّہ پانی ہوجاے- کئی بڑے اہلِ علم کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا کہ ان سے مقامی جمعیۃ کی تصدیق مانگ لی گئی، جو ان کے پاس نہیں تھی، نتیجتاً وہی ہوا جو ہونا تھا، خالی ہاتھ ہی رخصت کردیا گیا-
سیٹھوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ملک میں دین کی خدمات میں مصروف مشہور ادارے کئی ایک ہیں، میں چند صوبوں کے کچھ مشہور مدارس کے نام لینا چاہوں گا، بہار میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ، مدرسہ اشرف العلوم کنہواں، سیتامڑھی، جامعہ رحمانیہ خانقاہ رحمانی مونگیر، مدرسہ جامع العلوم مظفرپور، مدرسہ محمود العلوم دملہ، مدرسہ قاسمیہ گیا وغیرہ - یوپی میں آئیے تو دیوبند میں ہی کئی بڑے ادارے آپ کو مل جائیں گے، دارالعلوم کے علاوہ دارالعلوم وقف، جامعہ امام محمد انورشاہ، جامعۃ الشیخ اور دارالعلوم زکریا - دیوبند کے باہر مظاہر علوم وقف، سہارن پور، مظاہر علوم جدید، سہارن پور، مدرسہ حسینیہ اجراڑہ، مدرسہ خادم الاسلام باغوں والی، مدرسہ ناشرالعلوم پانڈولی، دارالعلوم الاسلامیہ بستی، مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور وغیرہ- راجستھان کا رخ کیجیے تو "جامعہ ھدایت "جے پور، دارالعلوم پوکھرن، مدرسہ بساؤ وغیرہ- یہ چند صوبوں کے چند مشہور مدارس کے نام لیے گئے ہیں، ورنہ تو ہندوستان کے طول و عرض میں اور بھی مشہور مدارس ہیں، جن کے فیوض و برکات سے پورا عالم مستفیض ہو رہا ہے- اربابِ خیر کے پاس ان مشہور اداروں کی فہرست ہونی چاہیے اور وہاں سے آے ہوے نمائندے کے ساتھ "گوانتا ناموبے جیل کے قیدی " جیسا برتاؤ نہیں ہونا چاہیے-
*کشاکش درمیاں کیوں ہو؟*
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مشہور مدارس کے علما کے ساتھ سیٹھ تو سیٹھ، مساجد کے ٹرسٹیان، حتیٰ کہ ائمہ بھی وہ "انتہاپسندانہ "سلوک کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ سب کا غصہ اماموں پر ہی اتار دیا جاے- علما اور ائمہ مساجد کے درمیان یہ کشاکش نہیں ہونی چاہیے- مساجد اور مدارس کا باہمی رشتہ جس قدر مضبوط رکھا گیا ہے، وہی رشتہ برقرار رکھنا چاہیے، ائمۂ مساجد کو مدارس کا "وکیل "ہونا چاہیے نہ کہ معاند اور سدِ راہ-
*روزے بھی گئے، رخصت بھی گئی*
چندہ دینے والے سیٹھ ہوں یا مساجد کے سیاہ و سفید والے ٹرسٹیان و ائمہ، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ علما بڑی دور سے آے ہوے ہیں، کئی کئی دن کا سفر انہوں نے سلیپر کلاس میں کیا ہے، بعضے تو "جنرل بوگی "میں ہی آگئے ہیں، دین کے نام پر ہر قسم کی اذیت جھیلتے ہوے- ممبئی کی شدید گرمی، چلچلاتی دھوپ، جھلسا دینے دینے والی ہوائیں- نہ راحت نہ آرام، صبح سے شام تک بس کام ہی کام- دیوانہ وار کبھی یہاں اور کبھی وہاں، دھکے کھاتے ہوے، نیند سے سمجھوتہ کیے ہوے- بہتوں کو تو تراویح بھی نہیں مل پاتی، کچھ تراویح پاتے ہیں تو پورا قرآن سننے سے محروم- بعض لوگ تگ و دَو کی شدت سے اتنے مضمحل کہ روزے بھی ان سے رکھے نہیں جاتے اور بعدِ رمضان قضا سے کام چلاتے ہیں- ان کے ساتھ ہی اپنی دوماہ کی طویل رخصت بھی اداروں کے لیے قربان- ان بے چاروں کے ساتھ رعایت تو بنتی ہے-
*کاش! چندہ وصولی کا یہ نظام غیرِ رمضان میں ہوتا!*
رمضان جیسے شدید گرمی اور بارش کی زد میں جا رہا ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ تقسیمِ زکوۃ و صدقات کا یہ سلسلہ دوسرے ماہ لے جایا جاتا- اس کے کئی فوائد ہوتے، ایک تو یہ کہ علما اپنی رخصت سے پوری طرح مستفید ہوتے، دوسرے یہ کہ روزہ خوری، اور ترکِ تراویح کی بیماری سے بچ جاتے، تیسرے یہ کہ رمضان کے انوار و برکات سے جیب و داماں بھرتے، چوتھے یہ کہ اپنے وطن میں عید کی خوشیاں مناتے- زکوۃ دینا رمضان میں ہی فرض نہیں ہے، جب سال پورا ہو، فرض ہو جاتا ہے، اگر مدارس والوں کی سہولت کے پیشِ نظر اربابِ خیر اتفاقِ راے سے تقسیمِ زکوۃ کا یہ نظام غیر رمضان کی طرف منتقل کر دیتے تو ایک ساتھ بہت سے مسائل سے چھٹکارا مل جاتا- ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں اس پہلو پر غور ہو-