Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 20, 2019

سوشل میڈیا پر وظائف کی ترغیب کی بھرمار۔۔۔۔ایک نایاب تبصرہ۔

از/ سیف الرحمٰن ندوی ۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سوشل میڈیا پر عام انتخابات کے نتائج آنے تک پڑھنے کے لیے کچھ  اوراد و وظائف کےیہ جو سلسلے چل رہے ہیں،   اسے چلایئے اور پڑھتے رہیئے!
پڑھتے رہیئے شاید کچھ ہوجائے؛ لیکن اسی تناظر میں "غبار خاطر " کا ایک شاندار اور حقیقت پر مبنی اقتباس بھی پیش ہے اسے بھی پڑھتے چلیے:
’’یورپ مجنونانہ جوش کا علمبردار تھا۔ مسلمان علم ودانش کے علمبردار تھے۔ یورپ دعاؤں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتاتھا، مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا، مسلمانوں کا یقین خدا کی مدد پر بھی تھا لیکن خدا کے پیدا کیے ہوئے سرو سامان پر بھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا، دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا۔
یہ حال تو تیرہویں صدی اور مسیحی کا تھا لیکن چند صدیوں کے بعد جب پھر یورپ اور مشرق کا مقابلہ ہوا تو اب صورت حال یکسر الٹ چکی تھی۔ اب دونوں جماعتوں کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے تھے اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی اسے اب یورپ نے اختیار کرلیا تھا۔
اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ علمائے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کردینا چاہئے کہ انجاح مقاصد کے لیے تیر بہدف ہے چنانچہ ایسا ہی کیاگیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کردیا۔
انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھاجائے۔ ادھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کررہی تھیں، ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب یا محول الاحوال کے نعرے بلند کررہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا جس میں ایک طرف گولہ وباردو اور دوسری طرف ختم خواجگان" .
. . . . . . 
مذکرہ بالا اقتباس پڑھ لینے کے بعد میں یہی کہوں گا کہ ذرا عقل سے کام لیجیئے اور تدبیر کیجیئے تدبیر!
حیریت ہے کہ
آپ کبھی دھوپ کا بہانہ، کبھی سردی کی دشواری اور کبھی رمضان کا عذر کرکے ووٹ نہیں ڈالتے، آپ کی عورتیں دن میں پچاس بار معمولی ضرورتوں کے لیے بازار کا چکر تو لگاتی ہیں؛ لیکن ووٹ والے دن وہ اس قدر پردہ نشیں ہوجاتی ہیں کہ ووٹ ڈالنے سے رہ جاتی ہیں، آپ متحد نہیں ہوتے،آپ کا اپنا مفاد اپنی قوم کے  مفاد سے بڑا ہو، آپ چند ٹکوں میں اپنے قیمتی ووٹوں کو بیچ دیتے ہوں، آپ آپسی دشمنی،  عناد اور حسد میں اس قدر ڈوب چکے ہوں کہ ایک جس کو ووٹ دے دوسرا اس کے خلاف جانا اپنی جیت تصور کرتا ہو، نہ آپس میں اتحاد، نہ کوئی تدبیر،  نہ کوئی ترتیب، نہ کوئی منصوبہ ، نہ کچھ تیاری اور آپ چاہیں کہ وظیفے پڑھ کر ظالم و جابر  حکومتوں کا تختہ پلٹ دیں!
یہ تو ایسا ہی ہوا کہ امتحان میں کاپی خالی چھوڑ کر امتیازی نمبرات سے کامیابی کی دعا میں لگ جایا جائے -
لہذا بند کریئے یہ مکاری اور اپنی جیب میں رکھیئے یہ وظیفے، آپ کا ایمان ایسا ایمان نہیں ہے کہ آپ اسباب کا انکار کرسکیں!
                    سیف الرحمن ندوی لکھنؤ