Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 20, 2019

آر ایس ایس کے مدارس، ۔۔مقاصد، خدشات، تنبیہات اور لائحہ عمل۔

تحریر/عبید الرحمٰن عبید اللہ قاسمی۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .                
     باوثوق ذراٸع سے یہ خبر موصول ہو رہی ہے کہ آر ایس ایس نے اپنا پہلا مدرسہ کھولنے کے لیۓ  صوبہ اتر اکھنڈ کے ہریدوار میں مکمل تیاری کر لی ہے۔ زمین خریدی جا چکی ہے ۔ تعمیری کام جنگی پیمانہ پر شروع ہوا چاہتا ہے۔ تعلیم اور نصاب تعلیم طۓ شدہ ہیں۔ “یہ خبر آر ایس ایس کی زیر قیادت چلنے والی”  راشٹریہ مسلم ایکتامنچ“ نامی تنظیم کی ایک ذمہ دار لیڈی نے دی ہے ۔ ان کایہ بھی کہنا ہے کہ”ہندوستان کے ہر خطہ میں اس مخصوص طرز کے مدارس کا قیام ان کی اولیں تر جیحات میں سےہے“
       غالب گمان ہے کہ شوال تک طلبہ کی آخری تشکیل و
تر تیب  بھی پاۓ تکمیل کو پہنچ جاۓ ۔ ان مدارس کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ طلبإ ایمانی بول مشرکانہ عقاٸد،نورانی چہرے،شیطانی دماغ ، عربی زبان، بھگوا روح  کے ساتھ نظر آٸینگے۔ 

     کتا ب وسنت کی تعلیم  رسولﷺ کی سیرت  اٸمہ واسلاف کے  اقوال سے عمل  ودعوت نہیں بلکہ شر انگیزی     فتنہ پروری دھوکہ دہی  ہواۓ نفس مفا د پرستی حسد بغض بے حیاٸی  بد کاری فحش گوٸی  جھوٹ تکذیب قتل وغارت گری  ظلم وذیادتی مار پیٹ گروہی رقابتیں  فرقہ واریت چپقلشیں تشدد پسندی دہشت گردی اور ہندو احیا ٕ پرستی برہمن واد نصب العین ہے۔
        ایک طرف ہندو احیا ٕ پرستوں کاقوم پرستی اور حب الوطنی کےعنوان سے ہندتوا تہذیب کو مسلمانوں اور دیگراہل مذاہب پر مسلط کرنے پر زور  دیۓ جانے کی بنا ٕپر  قتل وفساد کی جو کاررواٸیاں دیکھنے کو ملیں وہ جگ ظاہر ہیں۔ ہندتوا دھرم دراصل قدیم برہمن واد کا ایک نیا غلاف ہے۔جس کو ہر مسلمان اچھی طرح جانتا ہے جس نٸی تہذیب وتعلیم سے ارتباط کرایا جارہاہے وہ کفر وبت پرستی کے سوا کچھ اور نہیں دینے والا ہے۔

          دوسری جانب  ایمانی روحانیت ،دینی باقیات، اور اسلامی شعاٸر وشناخت  کو ختم کرنےاور مسلمانوں کو شدھی بنانے کے لیۓمنصوبہ بند پلان  ”اسلامی  تعلیمات“ پر ضرب کاری ہے  وہ ”گھر واپسی “  کی پلاننگ کو نٸے طریقے سے روبعمل لانے کے لیۓ اب براہ راست مسلمانوں کو شدھی بنانے پر اصرار نہیں کرتے بلکہ وہ ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں  کہ جن کے تسلیم کر لینے کے بعد شدھی کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ان مدارس کے قیام کا  پہلا مقصد   علما ٕ کوبد نام کرکے مسلمانوں ان سے بیزار کرناہے۔ یہ اسی پالیسی کی نقل ہے جو مسلمانوں کے خلاف اسپین میں اپناٸی گٸی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں آج تک اسلام ابھر نہیں سکا ۔اور دوسرا براہ راست مقصد  مسلمانوں کوشدھی بنا نے کا یقینی عمل  ہے
     اس فکری یلغار کے تعلیم یا فتہ طلبہ اسلام پر ایمان وایقان کا تو دعوی کریں گے لیکن اسلام  کی بہت سی بنیادی اور منصوص و متفق علیہ مساٸل میں خود ہی اسلام پر شب خون مارینگے۔  دین مخالف ذہنی بھگواسوچ رکھنے والی یہ جماعت اپنے پیمانے سےہر بات کو قبول اور رد کرنے میں آزاد ہوگی جو آزادی ہندتویت کی پابند سلاسل ہوگی۔
           پھر یہ ایک خاص آزادانہ ذہن اور طرز فکر اپنا کرفارغ ہونگےتو مشرکانہ براٸیاں اور خرابیاں لیکر ملک وقوم کا جدید حصہ بنکر اسلامی سماج کے توازن کو بگاڑ دینگے ۔اوراسلام کی بیخ کنی میں وہ کارہاۓ بد انجام دینگے جنکی مثالیں تاریخ میں مفقود ہیں۔
     اس لیۓ  مسلمانوں کو ایک طویل المدتی اور ہمہ گیر  طریقہ کار پرغوروخوض کرنے نیز اس طریقہ پر کار بندی کرنے کی اولین ضرورت ہے جس میں تمام اسلامی تحریکوں ادراروں  تنظیموں اور تمام مکاتب فکرکی عملی اتحاد کی ہمراہی کے ذریعہ ہی کسی نتیجہ پر پہنچا جا جاسکتا ہے۔ جس کے لیۓ وقتاً فوقتاً عمومیت کے ساتھ ”اسلامی تعلیم وعقاٸد کی بیداری “ “ملک وملت کی تعمیر مسلمانوں کا کردار اوران کا دینی تشخص“ کردار سازی میں سیرت کا دخل “ وحدت ادیان کی بجاۓ ”وحدت اسلام کا ارتقا  ٕ“ اسلام اور کفر کی حد بندی “ جیسے عنوانات پراجتماعات کے انعقاد کو زیر عمل لا یا جاۓ۔اور”  ضروریاتِ  دین کے پہلو وں پر تر بیتی کیمپ اور مذاکرے ہوں۔ ۔
     اسی طرح غیرمسلموں میں” اسلام کا تعارف“ اور مدارس کے قیام کا مقصد“ اور ان کی تعلیم وتر بیت کا امتیاز “ اسلام کا پیام ِامن“ جیسے موضوعات پر عصری ا سلوب میں  روشنی ڈالی جاۓ علاوہ ازیں یہ بھی باور کرایا جاۓ کہ آر ایس ایس کے ان مدارس کے ہم بھی خلاف ہیں اسلام کا ان سے کوٸی لینا دینا نہیں ان کی فساد انگیر کاررواٸیوں سے اسلام اور مسلمانوں کا کوٸی لینا دینا نہیں ہے ۔
          اسی کے ساتھ ساتھ دینی قیادت اور اسلامی شعور رکھنے والے افراد اور جماعت پر فرض ہےکہ وہ  ”نبوی نظام تعیلیم“ پر مبنی مدارس کی کی حفاظت کریں یہ وقت کا سب سے بڑا تقاضہ ہے ۔  بلاشبہ مدارس اسلامیہ ملت کے گراں مایہ اثاثے ہیں اگر ان کی حفاظت نہ کی گٸی تو ملت اسلامیہ کا ناقابل تلافی خسارہ ہوگا۔