Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 12, 2019

ساتواں روزہ۔۔۔۔۔۔۔ساتواں سبق۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلہ وار تحریر۔

ساتواں سبق:/ صدائے وقت۔/ بذریعہ عاصم طاہر اعظمی۔
ماہِ رمضان میں اسلامی گھروں کا ماحول۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ارشادِ باری ہے: ’’أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلی تَقْویٰ مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ، خَیْرٌ أَمْ مَّنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہ فِيْ نَارِجَہَنَّمَ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِيْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ‘‘۔ (التوبہ: ۱۰۹)
ترجمہ: پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا سے ڈرنے پر اور خدا کی خوشنودی پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارہ پر جو کہ گرنے ہی کو رکھی ہو پھر وہ اس کو لے کر آتشِ دوزخ میں گرپڑے اور اللہ ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۱۵۷)
حقیقی معنوں میں اسلامی گھر کہے جانے کا مصداق وہی گھر ہے، جس کی بنیاد اور جس کے ستون تقویٰ اور خوفِ خدا وندی پر قائم ہوں، جس کا شامیانہ اعمالِ صالحہ اور جس کی زیب وزینت اوامر کی بجا آوری ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ، عَلَیْہَا مَلاَئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ‘‘۔ (التحریم: ۶)
ترجمہ: اے ایمان والو تم اپنے اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جس پر تُند خو مضبوط فرشتے ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۵۶۲)
گھر ایک امانت اور ذمہ داری ہے، رعیت کی طرح اس کی بھی دیکھ بھال کرنا ضروری ہے، اور ایک امانت دار ذمہ دار کی طرح اس ذمہ داری کی ادائیگی بھی مطلوب ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہ‘‘۔
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اور گھر کی ذمہ داری نماز کی بجا آوی کے ذریعہ مکمل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وَکَانَ یَأْمُرُ أَۂلَہُ بِالصَّلاَۃِ والزَّکَاۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہ مَرْضِیًّا‘‘۔ (سورہ مریم: ۵۵)
ترجمہ: اور اپنے متعلقین کو نماز اور روزہ کا حکم کرتے رہتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۴۴۳)
ایک اسلامی گھر کی سب سے بڑی ضرورت نیک والد اورایمان والی ماں کا وجود ہے، بشرطیکہ دونوں تربیت کا کام بحسن وخوبی انجام دیتے ہوں۔
۔ایک اسلامی گھر کو ماہِ رمضان میں ذکر وتلاوت، خشوع وخضوع ، خوفِ خداوندی اور تقوی کا حامل ہونا چاہئے۔
۔ایک اسلامی گھر کو سونے، جاگنے، اٹھنے، بیٹھنے اور کھانے، پینے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے معمور ہونا چاہے۔
۔ایک اسلامی گھر کو حجاب کا احترام واہتمام کرنا چاہئے، حجاب کو عورت کے لیے عزت وشرافت اور اجر وثواب کا ذریعہ سمجھنا چاہئے۔
آج بہت سے گھرانے ، گانے بجانے کی مصیبت میں مبتلا ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کے دل فاسد ہوچکے ہیں، اور اپنی پوری طاقت وشوکت کھو چکے ہیں۔
جو گھرگانے بجانے کے عادی ہوجاتے ہیں، وہاں سے سکون ووقار کا خاتمہ ہوجاتاہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِيْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ‘‘۔ (سورۃ لقمان:۶)
ترجمہ: اور بعضا آدمی ایسا ہے جو اُن باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے۔ (بیان القرآن،ج: ۳/ ۱۴۱)
اہل علم نے لہو الحدیث سے گانے بجانے کو بھی مراد لیا ہے، کیونکہ نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ گانے بجانے کی وجہ سے لوگوں کی اقدار متاثر ہوگئیں اور عقلیں غارت ہوگئیں۔
۔ایک اسلامی گھر کا امتیاز یہ ہے کہ اُس کی صبح وشام سونا اور جاگنا سب کچھ اللہ کے ذکر کے ساتھ ہو، لہو لعب اور فضول گوئیوں سے دور ہو، ایسے ہی لوگوں کی اللہ تعالیٰ تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ‘‘۔ (المؤمنون: ۳)
ترجمہ: اور جو لغو باتوں سے بر کنار رہنے والے ہیں۔ (بیان  القرآن، ج:۲/ ۵۳۳)
۔اسلامی گھرانوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہاں شرم وحیا باقی رہتی ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ اسْتَحْیُوْا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ وَالْاسْتِحْیَائُ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأسَ وَمَا وَعٰی وَالْبَطْنَ وَمَا حَوَی وَمَنْ تَذَکَّرَالْبَلاَئَ تَرَکَ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ وَالدُّنْیَا‘‘۔
ترجمہ: اے لوگو! اللہ سے حیاء کرو، جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے، اور اللہ سے کما حقہ حیاء  یہ ہے کہ تم سر، پیٹ اور ان دونوں کے گرد وپیش کی حفاظت کرو، جو شخص بھی آزمائشوں کو ملحوظِ خاطر رکھے گا وہ زیب وزینت ترک کردے گا شاعر کہتاہے:
ترجمہ: نیک لوگوں کے گھروں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی وجہ سے ایک عمدہ گونج اور آواز ہوتی ہے، اُس ذکر کا ایک چمکتا ہوا نور ہوتاہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی شعاعیں طور سینا سے نکل رہی ہوں۔
• کاش اسلامی گھروں میں شرعی علوم کا رواج ہوتا تو آج یہ گھر معرفت اور مغفرت کے باغ ثابت ہوتے۔
ایک مسلمان گھر کی چند اہم ضروریات اور مسائل ہوتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
• پنج وقتہ نمازوں کی خشوع، خضوع اور روحانیت کے ساتھ پابندی۔
• صبح وشام قرآن کریم کی تلاوت۔
•  صبح وشام اللہ رب العزت کا ذکر۔   
• ہر لمحہ سنتوں کی رعایت۔
• لہو ولعب، فضول گوئیوں اور جھوٹ سے مکمل طور پر احتراز۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلاَئِکَۃُ أَلاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘۔ (سورۃ حم السجدۃ: ۳۰)
ترجمہ: جن لوگوں نے اقرار کرلیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر مستحکم رہے، ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور تم جنت پر خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جایا کرتا تھا۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۳۳۰)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَائُ‘‘۔ (سورۂ ابراہیم: ۲۷)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس پکی بات سے دنیا اور آخرت میں مضبوط رکھتا ہے اور ظالموں کو بچلا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۲۹۷)
ماہِ رمضان کی وجہ سے مسلم گھروں پر روحانیت اور سکون ووقار کا غلبہ رہتا ہے، اسی روحانیت کی وجہ سے لوگ اللہ کی عبادت، اس سے ذکر اور دن میں روزے کی توفیق سے سرفراز ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَأَقَامُوْا الصَّلاَۃَ وَأَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلانِیَۃً، یَرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُوْرَ، لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدَہُمْ مِنْ فَضْلِہ إِنَّہُ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ‘‘۔ (فاطر: ۲۹، ۳۰)
ترجمہ: جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو عطا فرمایا ہے اس میں پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو کبھی ماندہ نہ ہوگی تاکہ اُن کو اُن کی اجرتیں پوری دیں اور اُن کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیں، بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بڑا قدر دان ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۲۲۴)
نسألک یا أرحم الراحمین أن تملأ بیوتنا بالإیمان والحکمۃ والسکینۃ۔ آمین