Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 11, 2019

مودی ڈیوائیڈر ان چیف!!!!ٹائم میگزین نے کیا لکھ دیا ؟


شکیل رشید/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . 
کیا آپ ’ہندوستان کے ڈیوائڈرانچیف‘ کو جانتے ہیں؟
’ڈیوائڈرانچیف‘یعنی ہندوستان کو بانٹنے والا مکھیا!
جواب کے لیے بہت زیادہ ذہن دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے، جواب سامنے ہے: وزیر اعظم نریندرمودی ، جن کی خود کو’پردھان سیوک‘کہتے ہوئے زبان نہیں تھکتی ۔ بتاتے چلیں کہ انہیں ’دیوائڈرانچیف‘ دنیا کے انتہائی معروف امریکی جریدے ’ٹائم‘ نے قرار دیاہے

’ٹائم‘ نے اپنی کور اسٹوری مودی پر تحریر کی ہے اور ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ کیا آئندہ کے پانچ برسوں کے لیے ہندوستان مودی کو برداشت کرسکتاہے؟ اس سوال کا جواب بھی کوئی مشکل نہیں ہے، اگر ہم گھوم کر مودی سرکار کے پانچ برسوں کے ’کارناموں‘ پر نظر ڈالیں تو آسانی سے سمجھ میں آجائے گا کہ’مودی کی واپسی‘ ہندوستان کے لیے بہرحال ’رحمت‘ نہیں ثابت ہوگی۔ مودی اگر آئے تو بہت کچھ بدل جائے گا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب کچھ بدل جائے گا تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ مثلاًاس ملک میں مودی کے دور حکومت میں فی الحال ایک فوجی اور ایک ہندوتوادی انتہا پسند کے درمیان جو فرق ہے اس پر غور کریں۔ سب سے بڑا فرق تو یہی ہے کہ ایک فوجی یہاں الیکشن نہیں لڑسکتا، مثال تیج بہادر یادو ہیں۔ لیکن ہندوتوا دی انتہا پسند الیکشن لڑسکتے ہیں، مثال سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ہیں۔ اور صرف سادھوی کیوں، سدھا کردویدی اورمیجر رمیش اپادھیائے بھی تو الیکشن لڑرہے ہیں ، یہ بھی تو سادھوی ہی کی طرح مالیگائوں بم بلاسٹ کے ملزم ہیں اور سادھوی ہی کی طرح’ضمانت‘ پر باہر ہیں۔ یہ تو آج کی بات ہے ، کل کو اگر مودی کی واپسی ہوئی تو دہشت گردی کے کسی ’ملزم‘ کا الیکشن لڑنا تو عین معمول کی بات ہوگی، ’مجرم‘ بھی ، اگر ان کا تعلق ہندوتوادی بر یگیڈ سے ہوا، الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہونگے۔ ’ٹائم‘ کی کور اسٹوری میں جسے آتش تاثیرنے تحریر کیا ہے یہ جملے مستقبل کے ایک ایسے ہندوستان کی تصویر دکھاتے ہیں جہاں انتہا پسند انہ قوم پرستی اور مجرمانہ سرگرمیاں ہم معنی ہوں گی:’’ ان دنوں ضمانت پر باہر سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی امیدواری بتارہی ہے کہ انتہا پسند انہ قوم پرستی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے درمیان فرق ختم ہوجائے گا۔‘‘
’ٹائم‘ نے ۲۰۱۴ میں مودی نے جو ’وعدے ‘کیے تھے وہ گنائے ہیں او ربتایا ہے کہ وعدے وفا نہیں کیے گئے۔ملک کی’ انتہائی زہریلی مذہبی قوم پرستی‘کا تذکرہ کرتے ہوئے بی جے پی کے ایک نوجوان قائد تیجسوی سوریہ کے یہ انتہائی خطرناک جملے دئیے گئے ہیں کہ ’’اگر آپ مودی کے ساتھ ہیں تو ہندوستان کے ساتھ ہیں ، اور اگر آپ مودی کے ساتھ نہیں ہیں تو آپ ہند مخالف عناصر کو تقویت دے رہے ہیں۔‘‘یعنی مودی کے مخالفین ملک مخالف عناصر کے مدد گار ہیں، باالفاظ دیگر وہ سب خود ملک مخالف ہیں۔ یہ بی جے پی کی ’نئی قوم پرستی‘ ہے۔ یہ وہ ’قوم پرستی‘ ہے جو بی جے پی کے رہنمائوں سے یہ دعوے کراتی ہے کہ اگر اب کی بار مودی سرکار آگئی تو ملک ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل ہوجائے گا، اور پھر نہ اس ملک میں کبھی الیکشن ہونگے اور نہ ہی یہ آئین برقرار رہے گا۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں ملک سے آئین کا خاتمہ شامل ہے۔سنگھ اس ملک کو منوکے قوانین پر چلانے کے لیے بے تاب ہے۔ منو کے قوانین میں سوائے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے باقی سب ، نچلےدرجے کے شہر ی ہونگے۔ ان شہریوں میں وہ جنہیں آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک گرو گولوالکر ’غیر ملکی‘ قراردے چکے ہیں، یعنی مسلمان اور عیسائی، وہ حاشیے سے باہر ہونگے ، انہیں اگر اس ملک میں رہنا ہوگا تو سنگھیوں کے ’سہارے‘ پر رہنا ہوگا ورنہ ان کے لیے باہر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، وہ جہاں چاہے چلے جائیں۔
ویسے قانون اور آئین کو تو ابھی سے کنارے لگادیا گیا ہے۔ 

سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بی جے پی کی امیدواری دینے کا وزیر اعظم مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ دونوں نے ہی دفا ع کیا ہے۔ مودی اور شاہ کی نظر میں سادھوی بے گناہ ہیں حالانکہ ابھی عدالت میں ان پر مالیگائوں بم بلاسٹ کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اب تو یہ تازہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ صحافی گوری لنکیش کے قتل میں جو عناصر ملوث ہیں وہ سادھوی کے ساتھ مالیگائوں بم بلاسٹ کے بھی ملزم ہیں۔ کالسنگرا سے لے کر ڈانگے اور اشوانی چوہان تک سب کا نام سادھوی کے ساتھ مالیگائوں بم بلاسٹ کے ملزمین کی فہرست میں شامل ہے۔ اور بات صرف مالیگائوں بم بلاسٹ یا گوری لنکیش قتل معاملے تک ہی محدود نہیں ہے، یہ وہ ’بریگیڈ‘ ہے جس کا ہاتھ سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ، اجمیر شریف درگاہ بلاسٹ، مکہ مسجد بلاسٹ، گوا بلاسٹ اور تھانہ بلاسٹ غرضیکہ مختلف علاقوں میں ہوئے بم بلاسٹوں تک دیکھا جاسکتا ہے۔ سادھوی کی امیدواری پرمودی فخر سے اپنی56انچ کی چھاتی پھلاکر کہتے ہیں کہ سادھوی کی امیدواری ان کے لیے جو ہندو مذہب کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں ایک جواب ہے! اب اندازہ کرلیں کہ اگر مودی اور شاہ کی جوڑی واپس آگئی تو یہ ہر اس دہشت گرد کو جس کے ہاتھ ہندوستان کی اقلیتوں کے خون سے رنگے ہونگے’قوم کا ہیرو‘ ٹہرائے گی۔ بلکہ لوگوں سے انہیں ’قوم کا ہیرو‘ منوائے گی!’ٹائم ‘ نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو اس بھوپال سے امیدواری دینا جس کی ایک شاندار مسلم تاریخ رہی ہے، جہاں مسلمانوں کی آبادی25فیصد ہے، شرمناک قرار دیا ہے ۔ اور لکھاہے کہ مودی نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے جذبات پیدا کرنے کے لیے قطعی جتن نہیں کیے۔ یعنی مودی نے دونوں کو ’بانٹا‘ ہے۔ 
یہ وہ ملک ہے جہاں دہشت گردی کے ملزم الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہیں لیکن برخاست بی ایس ایف جوان تیج بہادر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ تیج بہادر یادو نے نریندرمودی کے خلاف الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کیے تھے۔ لیکن ان کے کاغذات الیکشن کمیشن نے رد کردئیے۔ وجہ؟ الیکشن افسر سریندر سنگھ نے جب تیج بہادر یادو کے کاغذات جانچے تو انہوں نے پایا کہ بی ایس ایف سے برخاستگی کے بارے میں انہوں نے اپنے پرچوں میں دو الگ الگ وجوہ بتائی ہیں۔تیج بہادر یادو چونکہ سرحد پر تعینات رہ کر وہ ملک کی ’چوکیداری‘ کرتے تھے اس لیے وہ خود کو ’اصلی چوکیدار‘ کہتے ہیں۔ اب اگر وہ ’ اصلی چوکیدار‘ ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں وہ ’نقلی چوکیدار‘ ٹھہرے جو زور و شور سے ’میں چوکیدار‘ کا نعرہ لگارہے ہیں۔ اور ان دنوں یہ نعرہ لگانے میں پیش پیش ہمارے وزیر اعظم یا ’پردھان سیوک‘ نریندر مودی ہی ہیں۔ اسی لیے کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ بلند کردیا ہے، اور اس نعرے میںکچھ ’ایسی کشش ہے کہ عام لوگوں نے اسے لپک لیا ہے اور کچھ اس طرح سے لپکا ہے کہ مودی اینڈ کمپنی کی نیند اڑگئی ہے۔ تو وارانسی کی لڑائی اصلی اور نقلی چوکیداروں کی لڑائی بنتی جارہی تھی۔ تیج بہادر یادو نے بی ایس ایف میں ملازمت کے دوران ایک ویڈیو وائرل کی تھی جس کے ذریعے انہوں نے مودی سرکار کی ’قوم پرستی‘ پر یہ کہتےہوئے حملہ کیا تھا کہ یہ سرکار بی ایس ایف کے جوانوں کو گھٹیا درجے کا کھانا پروستی ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر انہیں ڈسپلن شکنی کی پاداش میں نوکری سے برخاست کردیا گیا تھا۔ تیج بہادر یادو نے جب وارانسی سے پرچۂ نامزدگی بھر ا تھا تب وہ میدان میں اکیلے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے لگے اور جب سماج وادی پارٹی نے یہ اعلان کیا کہ اب وارانسی سے وہی ان کے امیدوار ہونگے تب تیج بہادر یادو مکمل طور پر لوگوں کی نظر میں آگئے، سماج وادی پارٹی کے علاوہ دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی انہیںحمایت ملنے لگی اور وارانسی کے لوگ ایک دلچسپ مقابلے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن مقابلہ ہونے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن نے تیج بہادر یادو کا پرچۂ نامزدگی رد کردیا ۔ اورسپریم کورٹ نے بھی ان کی عرضی خارج کردی۔
وہ اسے اپنے خلاف مودی کی سازش قرار دیتے ہیں ۔ اب یہ بھلے ہی مودی کی سازش نہ ہو لیکن الیکشن کمیشن نے  جس طرح سے تیج بہادر یادو کے خلاف ’کارروائی کی ہے وہ حیرت انگیز ضرور ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ ہے کہ پرچۂ نامزدگی میں غلط اطلاعات دی گئی تھیں۔ ہمیں اس پر کچھ نہیں کہنا ہے لیکن جہاں تک غلط اطلاعات کی بات ہے تو اسمرتی ایرانی کا معاملہ تو بہت صاف ہے۔اپنوں نے اب تک مختلف الیکشن لڑنے کے لیے جو کاغذات نامزدگی بھرے ہیںان سب میں ان کی تعلیمی لیاقت مختلف ہے!2004میں انہوں نے اپنے پرچۂ نامزدگی میںخود کو گریجویٹ قرار دیا تھا انہوںنے تحریر کیا تھا کہ انہوں نے1996میں دہلی یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اس بار کے پرچۂ نامزدگی میں انہوں نے تعلیمی لیاقت کے خانے میں خود کو کامرس کے پارٹ1کی طالبہ لکھا ہے، اور سن1996بتایا ہے! دونوں ہی حلف ناموں میں زمین وآسمان کا فرق ہے! سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اسمرتی ایرانی کے ’جھوٹ‘ پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی اور تیج بہادر یادو کے پرچۂ نامزدگی میں غلطیاں دیکھ کر ان کا پرچہ کیوں رد کردیا؟ تیج بہادر یادو نے اپنے حلف نامے میں یہ کہا تھا کہ انہوں نے بی ایس ایف میں رہتے ہوئے کسی قسم کی بدعنوانی نہیں کی۔
واضح رہے کہ اگر کسی فوجی کو بدعنوانی کے الزام میں برخاست کیا جاتا ہےتو وہ برخاستگی کی تاریخ سے آئندہ کے ۵؍سال تک کوئی بھی الیکشن نہیں لڑسکتا۔تیج بہادر چلاّتے رہ گئے کہ انہوں نے بدعنوانی نہیں کی تھی بلکہ ان پر ڈسپلن شکنی کا الزام ہے ، اس لیے ان کا پرچہ رد نہیں کیا جاسکتا ، مگرپرچہ ردکردیا گیا۔
اب اگر مودی کی واپسی ہوئی تو اول تو دعویٰ ہے کہ پھر کبھی الیکشن ہی نہیں ہونگے لیکن اگر الیکشن ہوئے تو شاید الیکشن کمیشن میں ایسا کوئی قانون بنادیا جائے کہ مودی کے خلاف زبان کھولنے والے ،نکتہ چینی اور تنقید کرنے والے پرچۂ نامزدگی بھر ہی نہ سکیں! ’ٹائم‘ نے مودی کو بھی اورہندوستانیوں کو بھی آئینہ دکھایا ہے ۔آتش تاثیر لکھتے ہیں کہ مودی نے ’وکاس‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن گذشتہ پانچ برسوں کے دوران مذہبی قوم پرستی ،مسلمانوں کے خلاف نفرت کے شدید جذبات اور ذات پات کے نام پر کٹر پن پنپتا رہا ہے۔ ’ٹائم‘ نے1984کے سکھ دنگوں اور2002کے گجرات مسلم کش فسادات کا بھی ذکر کیا ہے ؛’ٹائم‘ کا یہ ماننا ہے کہ کانگریس کے دور کے سکھ دنگوں اور2002کے گجرات فساد ات میں ایک نمایاںفرق یہ ہے کہ مودی گجرات کے فسادیوں کی پیٹھ تھپتاتے رہے ہیں جبکہ کانگریس نے خود کو کسی دنگائی کی پیٹھ تھپتھانے سے بچائے رکھا ہے۔ اب اگر مودی کی واپسی ہوئی تو اس ملک میں ہر’’فسادی‘‘بڑے گرَوْسے خود کو ’قوم پرست‘ قرار دے گا۔ ’ٹائم‘ کے اس مضمون میں ’’ماب لچنگ‘‘ کے نام پر جاری تشدد کا بھی ذکر ہے۔ لوجہاد اور ہجومی تشدد کے ذریعے ’بانٹنے‘ کا کام کیا گیا ہے اور’پردھان سیوک‘ اس میں پیش پیش رہے ہیں ۔لہٰذا اگر پھر مودی واپس آئے تو تو شاید یہ جو2014سے ’’ڈیوائڈ‘‘ کرنے یا ’بانٹنے ‘ کاکام شروع ہوا ہے اس کی تکمیل ہوجائے! اگر ایسا ہوا تو ملک کے لیے بھی اور عام لوگوں کے لیے بھی بڑا بُرا ہوگا۔