Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 1, 2019

اردو شاعری کے آئینے میں " مزدور دوس"


از/محمد عباّس دھالیوال،
مالیر کوٹلہ ،پنجاب۔/ صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کوئی وقت تھا جب اکثر سرمائیدار پونجی پتی یاصنعتی گھرانوں کو ہی اکثرملازم یا مزدور طبقہ کا مخالف یا استحصال کرنے والا خیال کیا جاتا تھا اس کے بر عکس آج جب ہم غور و خوض کرتے ہیں تو مزدووں کا ستحصال کرنے کا الزام صرف مذکورہ کوہی قطعاً نہیں دیا جاسکتا۔آج ستم ظریفی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جو سرکاریں کبھی مزدوروں کے حقوق کی محافظ وپاسباں سمجھی جاتی تھیں وہی آج کل اپنی ملازم مخالف پالیسیوں کے چلتے مختلف محکموں میںٹھیکہ سسٹم کے تحت بہت ہی معمولی تنخواہوں پرملازمین کو رکھتے ہوئے نہ صرف انکا اقتصادی کرتی ہیںبلکہانکی تعلیمی و لیاقت و قابلیت کا ایک طرح سے مذاق اڑاتی ہیں۔ اس ضمن میں متاثرہ مزدور ، کسان یاملازمین اپنے بنیادی حقوق کی حفاظت کی خاطر کوئی جدوجہد یا احتجاج کرتے ہیں توان کی آواز کو اکثر بکائو میڈیا کوریج نہ کرتے ہوئے اپنے عوام مخالف رویوں کا ثبوت دیتا ہے۔ 
مسئلہ چاہے ون رینک ون پینشن کا 

ہو یا پھر ایکوئل پے ایکوئل ورک کا یا پرانی پینشن بحالی کا ، یا مقروض کسانوں کی خود سوزی کا یا پھر کسانو ں کی فصلوں کے صحیح نرخ نہیں ملنے کا یا یا آسمان چھوتی مہنگائی کا یا اپنی انتہا پر پہنچی بے روزگاری کا دیش کا غریب و بے بس عوام میٖڈیا اور سرکار کے ہا تھوں خود کو اکثرٹھگا ٹھگا ہوا سا محسوس کر تاہے۔
کیا خوب کہا کسی شاعر نے کہ
آج بھی دورِ حکومت وہی پہلے سا ہے
آج بھی گزرے ہوئے وقت کا خادم ہوں میں
جیسا کے ہم جانتے ہیں کہ یکم مئی کو بین العقوامی سطح پر یومِ مزدور کے طورپرمنایا جاتا ہے اس کی شروعات امریکہ میں یکم مئی 1886ء کے مزدوروں کے اس احتجاج سے ہوئی مانی جاتی ہے جب شکاگو میں پہلی مرتبہ کچھ مزدور تنظیموں کی جانب سے کام کے لیے ایک دن میں 8آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کی مانگ کو لیکر دھرنا پردرشن کیا گیا، اسی دوران وہاں کی 'حے مارکیٹ 'میں ایک بمب کا دھماکہ ہوا یہ دھماکہ کس کی طرف سے کیا گیا اسکا کچھ پتا نہیں چلا لیکن اس قوت وہاں موجود پولیس اہلکاروں کی جانب سے مزدوروں اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ جس کے نتیجے میں سات مزدور جاں بحق (ہلاک)ہوگئے ۔اس سلسلے میں فوراً تو کوئی کاروائی عمل میں نہیں آسکی ،لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد امریکہ میں مزدوروں کی مانگ پوری ہوئی اور کام کے لیے آٹھ گھنٹے مقررکر دیئے گئے اس کے بعد دنیا مختلف ملکوں میں اس سلسلے میں قوانین بنائے گئے ہمارے ملک بھی مزدوروں کے آٹھ گھنٹے کام کرنے کا قانون عمل میں آیا۔
آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک لاکھ مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کا دعوی کرتے پھریں۔لیکن اس سلسلہ میں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت زمانہ پہلے یعنی تقریباً 1450سوسال قبل عرب کے ریگستانوں میں اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے ہم سمجھتے ہیں سب سے پہلے مزدوروں کے حق میں اس وقت آواز اٹھائی جب آ پ ﷺ نے کہاکہ مزدور کو اس کی مزدوری اسکے پسینہ سوکھنے (خشک)سے پہلے پہلے ادا کردو۔آپ ﷺ نے اپنے آخری خطاب میں بھی خصوصی طورپر سبھی کو اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں یا ملازموںکے حقوق ادا کرتے رہنے کی بار بار تلقین فرمائی اور ساتھ ہی مزدوروں یا غلاموں کے لیے بھی خوش خبری دی کہ جو مزدور اپنے رب کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کی بھی فرمانبرداری کریگا اسے جنّت میں دو مقامات سے نوازہ جائے گا۔
جب ہم ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو یہاں گورونانک دیو جی نے کسانوں محنت مشقت کرنے والے مزدورں کے حق میںاپنی آواز بلند کی ،جب آپ نے اپنے عہد کے کے ایک مغرور و لٹیرے قسم کے سرمائے دار ملِک بھاگو کے یہاں کھانا نہ کھاکر ایک غریب مزدور 'بھائی لالو' کی طرف سے محنت سے کمائی روٹی کھانے کو ترجیح دی ۔ اس طرح ہم سبھی کو انھوں نے ہلال کمائی کمانے کرنے والوں(مزدوروں اور کسانوں)کو احترام دینے کی تلقین کی۔
اب اگر ہم اردو شاعری کے حوالے سے مزدور دوس کی بات کریں تو اردو کے تمام ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء نے محنت و مشقت سے اپنی روزی روٹی کمانے والے مزدوروں اور کسانوں کے حق میں اپنے اپنے انداز میں آواز بلند کی ہے۔
اسی سلسلہ میںمثلاً تاج محل سے جسے پوری دنیا محبت کی نشانی کے طور پر پوری تسلیم کرتی ہے ۔لیکن جب شاعر کا محبوب اس محبت کی نشانی مانے جانے والے تاج محل میں ملاقات کرنے کا اصرار کرتاہے تو شاعر اپنے محبوب سے تاج محل میں ملنے سے یہ کہتے ہوئے منع کرتا ہے کہ تاج محل کو بنانے میں تیرے اور میرے غریب مزدور آبائو اجداد کا خون صرف ہوا ہے شاعر کہتا ہے اپنی بیوی کے مقبرے کو حسین جمیل بنانے پر ایک شہنشاہ کی طرف سے اتنی دولت بہائی گئی ،اگر دیکھا جائے تو جن کاریگر مزدوروںکی جانب سے اس مقبرہ کو اتنی خوبصورت شکل دی گئی۔ دراصل ان غریب مزدوروں کو بھی اپنی بیویوں سے اتنی ہی محبت رہی ہوگی ،جتنی کہ شہنشاہ کو اپنی بیوی سے تھی۔ لیکن ان غریب مزدوروں کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ اپنی محبت کی تشہیر کر سکیں ۔بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انکے گھروں میں تو تمام عمر قبروں کے اندر جیسی تاریکی چھائی رہی ۔انھیں سبھی باتوں سے دل برداشتہ ہو کر شاعر اپنے محبوب سے تاج محل کے احاطہ ملنے سے گریز کرتا ہے بلکہ اس سلسلہ میں وہ اپنے محبوب کو یہی تلقین کرتاہے کہ:
تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیِ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہیں میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایاہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
آج ہم محسو س کرتے ہیں کہ مزدور کی روزانہ زندگی میںاسکی سخت محنت و مشقت کے باوجود کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیںملتی۔جس مزدور کی سخت محنت اور کوششوں سے مختلف فیکٹریوں اور ملوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا ہے افسوس کہ اس کے یہاںکبھی کبھی تو نوبت ایسی بھی آجاتی ہے کہ اسکے گھر میں کئی کئی دنوں تک مسلسل آگ نہیں جلتی اور وہ اور اسکے اہلِ خانہ فاقوں بھری زندگی والے دن کاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیںشاید اسی منظرکی تصویر شاعر نے کچھ اس انداز میں اتاری ہے۔
اگر محنت سے دنیا میں بدل سکتی ہیں تقدیرں ۔!