Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 4, 2019

ملک کی سلامتی کے لئیے پابندی برقعہ پر نہیں ہندوتوادی تنظیموں پر لگے۔


جاوید اختر نے گھونگھٹ پر پابندی کی بات کہہ کر کیا غلط کردیا۔
شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
تو پھر گھونگھٹ پر بھی پابندی لگے!
نغمہ نگار جاوید اختر کے مذکورہ مطالبے پر ’ کرنی سینا‘ کو بھلا مرچی کیوں  لگی ہے !
آخر جاوید اختر نے کون سی غلط بات کہی ہے ، یہی تو کہا ہے کہ اگر برقع پر پابندی کی بات کی جاتی ہے تو ’ گھونگھٹ‘ پر بھی پابندی لگے ۔ ’ کرنی سینا‘ کو  ان کی اس بات پر ایسا طیش آیا ہے کہ اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر تین روز کے اندر جاوید اختر ’گھونگھٹ‘ پر پابندی لگانے والی  اپنی بات کے لئے معافی نہیں مانگتے تو گھر کے اندر گھس کر انہیں ماریں گے  ۔ یہ دھمکی ’ مہاراشٹر کرنی سینا‘ کے صدر جیون سنگھ سولنکی نے دی ہے اور یقین رکھئے کہ ایسی ’خطرناک دھمکی‘ دینے کے باوجود سولنکی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔  دھمکی پر کارروائی تو دور اگر جاوید اخترمعافی نہیں مانگتے  ہیں اور اس کے نتیجے میں ’ کرنی سینا‘ کے غنڈے ان کے گھر کے اندر گھس کر انہیں مارتے پیٹتے یا  اودھم مچاتے ہیں تب بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی ۔ بلکہ شاید سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ غنڈے جاوید اختر کی ’لنچنگ‘ کردیتے ہیں تب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی کیونکہ اس ملک میں ان سارے عناصر کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دی گئی ہیں جو گئورکھشا کے نام پر ، ہندو خواتین کی عزت کی حفاظت کے نام پر ، ہندو دھرم کو بچانے کے  نام پر یا لوجہاد کی مخالفت کے نام  پر’ ہجومی تشدد‘ کی شکل میں لوگوںکو بالخصوص مسلمانوں کو قتل کرتے پھر رہے ہیں ۔ یہ ’ مودی راج‘ ہے اور ’ مودی راج‘ میں ’ سب کا راج سب کا وکاس‘ کا مطلب صرف اور صرف ایک ہی ہے’ ہندوتوا کا راج ،ہندوتوا کا وکاس‘۔
سولنکی کا یہ کہنا ہے کہ  جاوید اختر نے راجستھان کی تہذیب اور ثقافت کی توہین کی ہے ۔ وہ یہ بات اس لئے کہہ رہے ہیں کہ راجستھان میں ہندو عورتیں عام طور پر لمبے لمبے گھونگھٹ ڈالتی ہیں ۔ لیکن بات صرف راجستھان ہی کی نہیں ہے ، اتربھارت کی اکثر ریاستوں میں ہندو عورتیں لمبے لمبے گھونگٹ میں نظر آتی ہیں ، اور یہ رواج مسلم خواتین میں بھی پایا جاتا ہے اس لئے سولنکی کا جاوید اختر کے بیان کو محض راجستھان کی  تہذیب وثقافت کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے ۔ جاوید اختر کی بات کا اطلاق ہر خاتون کے لمبے گھونگھٹ پر ہوسکتا ہے ، چاہے وہ راجستھان کی ہو ، یوپی کی ہو ، چاہے وہ راجپوت ہو  یا پھر مسلمان ہو ۔۔۔ بات پڑوسی ملک سری لنکا میں برقع پر پابندی سے شروع ہوئی تھی۔ لوگ جانتے ہی ہیں کہ سری لنکا میں عیسائیوں کی عید یعنی ایسٹر کے تہوار پر کئی بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 40غیر ملکیوں سمیت جن میں آٹھ ہندوستانی بھی شامل تھے 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ پانچ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے ۔ دھماکوں کے نتیجے  میں تین چرچ اور 
تین ہوٹل تباہ ہوگئے تھے ۔ 


ایک اندازے کے مطابق 
دھماکوں سے دوارب ڈالر کی ٹورسٹ انڈسٹری چرمراکر بیٹھ گئی ہے ۔ چونکہ دھماکوں کے کئی دنوں کے بعد انتہائی خطرناک سمجھی جانے والی دہشت گرد تنظیم ’ داعش‘ یا ’ آئی ایس آئی ایس‘ نے جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی  ہے ، دھماکوں کی ذمے داری قبول کی تھی اور سری لنکا کی ایک مسلم تنظیم ’ نیشنل توحید جماعت‘ پر شک کی سوئی گھومی تھی اور تفتیش کاروں کی طرف سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ چند برقعہ پوش خواتین دہشت گردوں کی مدد میں ملوث ہوسکتی ہیں ، اس لئے برقع پر پابندی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اور پابندی بھی سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرماسنگھےاور سری لنکا کے علمائے کرام سے بات چیت کے بعد ہی لگائی گئی ۔  اور اس میں بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ پابندی  صرف چہرہ ڈھکنے پر ہے اور وہ بھی  مستقل نہیں ہے ۔ سری لنکا کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر برقع پر پابندی کو مستقل کرنے کے لئے کسی طرح کی قانون سازی کی کوشش کی گئی تو وہ اس کی سخت مخالفت کریں گے ۔ 


سری لنکا کے دھماکوں پر پھر کبھی بات کریں گے فی الحال موضوع جاوید اختر کا بیان اور ’ کرنی سینا‘ کا نفرت انگیز ردّعمل ہے ۔ (واضح رہے کہ یہ  وہی کرنی  سینا ہے جو فلمساز بھنسالی  کو دھمکا چکی ہے اور فلم ’ پدماوت‘ کے معاملے میں دیپکا پڈوکون  کو ناک کاٹنے کی دھمکی دے چکی ہے ۔  کنگنا رناوت کو بھی  اس نے فلم ’ جھانسی کی رانی‘  کے لئے دھمکی  دی تھی۔)  جاوید اختر کا مکمل بیان نہ اشتعال انگیز ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ ، ان کا بیان بی جے پی کی زہریلی سیاست پر ایک زبردست طنز ضرور ہے ۔ ان کا مکمل بیان ملاحظہ کریں: ’’ سری لنکا میں برقع پرپابندی نہیں لگائی گئ ہے بلکہ وہاں صرف چہرہ ڈھکنے پر پابندی لگائی گئی ہے ، بھارت سرکار کو یہاں برقع پر پابندی لگانا  ہے تو پہلے راجستھان میں پولنگ سے قبل  گھونگھٹ پر پابندی لگانی چاہئے ۔ اگر برقع اور گھونگھٹ پر ایک ساتھ پابندی لگے گی تو خوشی ہوگی۔‘‘ بیان سے واضح ہے کہ جاوید اختر برقع پر پابندی کے مطالبے کو بی جے پی کا ایک سیاسی حربہ سمجھتے ہیں ، اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی سرکار الیکشن سے پہلے راجستھان میں گھونگھٹ پر تو پابندی لگاکر بتائے !  جاوید اختر کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بی جے پی کی سرکار نے گھونگھٹ پر پابندی کو سوچا بھی تو اسے راجستھانی عوام کے ووٹ نہیں ملیں گے کیونکہ گھونگھٹ بہرحال راجستھان  کی تہذیب وثقافت  کا ایک حصہ ہے ۔۔۔ لیکن یہ سرکار برقع پر پابندی ضرور لگانا چاہتی ہے کیونکہ برقع پر پابندی کا مطلب مسلمانوں کو مشتعل کرکے ہندوؤں کے ووٹوں کو اپنے لئے متحد کرنا ہوگا ، یعنی برقع پر پابندی کی بات سراسر ’ ہندو کارڈ‘ کا کھیلنا ہے ۔  جاوید اختر کے بیان سے واضح ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد برقع میں چھپ کر دہشت گردی کرسکتا ہے تو وہ گھونگھٹ کی آڑ سےبھی دہشت گردی کرسکتا ہے لہٰذا برقع اور گھونگھٹ کو ایک پلڑے میں کیوں نہ رکھا جائے !ویسے  دھمکی کے بعد جاوید اختر اب آئیں بائیں کررہے ہیں ، بات انہوں نے اچھی کہی تھی لیکن اب یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ انہوں نے برقع کے ساتھ گھونگھٹ پر پابندی کی بات خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کہی تھی۔  اس طرح کی پابندی خواتین کو باوقار بنائے گی ۔ جاوید اختر بات پلٹتے خوب ہیں لیکن بہرحال تادم تحریر انہوں نے گھونگھٹ پر  پابندی والا  جملہ واپس نہیں لیا ہے ۔ ویسے ہمارا موقف تو یہ ہے کہ  پابندی نہ برقع پر لگے نہ نقاب پر ، کہ  حجاب  چاہے جیسا ہو عورتوں کو وقار بخشتا ہے ۔
سری لنکا میں برقع پر پابندی کی خبر آنے کے بعد ہندوستان میں سب سے پہلے ایک ہندو توادی تنظیم’ ہندوسینا‘ نے وزارت داخلہ کو ایک مکتوب بھیج کر برقع پر پابندی  کا مطالبہ کیا تھا۔ مکتوب داخلہ سکریٹری  راجیوگوبا کے نام تھا۔ مکتوب میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ جس طرح سری لنکا کی سرکار نے عوامی مقامات پر برقع اور نقاب کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے اسی طرح ہندوستان میں بھی عوامی مقامات پر برقع اور نقاب پر پابندی عائد کردی جائے تاکہ دہشت گردانہ حملوں سے بچنا ممکن ہوسکے ۔۔۔ واضح رہے کہ یہ وہی ’ ہندوسینا‘ ہے جس نے 22 جنوری کے روز ملکۂ وکٹوریہ کو 118 ویں سالگرہ پریہ کہتے ہوئے مبارکباد  پیش کی تھی اور شکریہ ادا کیا تھا کہ ملکہ نے ’’ہندوستان کو مغلوں کی آمریت سے  نجات دلوائی تھی۔‘‘ یہ وہی ’ ہندو سینا‘ ہے جس نے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے یوم پیدائش پر سات کلوگرام سے زائد وزن کا کیک بنواکر اس لئے انہیںمبارکباد پیش کی تھی کہ انہوں نے کئی مسلم ممالک کےشہریوں کے امریکہ میں داخلے پر روک کا اعلان کیا تھا۔ اور اب اسی  ’ ہندوسینا‘ نے سری لنکا میں برقع اور نقاب پر پابندی کا خیر مقدم کیا ہے ، مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنا اور ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے ۔ پر ’ ہندوسینا‘ واحد تنظیم نہیں ہے جس نے برقع پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے ، بہتی گنگا میں شیوسینا نے بھی ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کی ہے ۔ شیوسینا نے اپنے مراٹھی ترجمان ’ سامنا‘ میں باقاعدہ اداریہ تحریر کرکے وزیراعظم نریندر مودی سے عوامی مقامات پر بغرض ’ نیشنل سیکوریٹی‘  برقع  کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اداریے میں سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا کی شان میں اس لئے قصیدے پڑھے گئے کہ انہوں  نے عوامی مقامات پر برقع اور نقاب کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے ۔ اداریہ میں بات صرف برقع اور نقاب پر پابندی کے مطالبے تک ہی محدود نہیں رکھی گئی ہے بلکہ مسلمانوں کو یہ سکھلانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ حقیقی اسلام کیا ہے ! وہی  بے تکی باتیں کہ برقع کا استعمال فرسودہ رسم ہے ، مسلمان کئی کئی شادیاں کرتے ہیں ، بات بات پر تین طلاق دے دیتے ہیں اور خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کرتے یعنی کثرت سے بچے پیدا کرتے ہیں ۔ شیوسینا  برقع پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے یہ سوال دریافت کرتی ہے :’’ اگر راون کی لنکا میں برقع پر پابندی عائد ہوسکتی ہے تو رام کی ایودھیا میں کیوں نہیں؟‘‘
صاف ظاہر ہے کہ ’ ہندوسینا‘ اور ’شیوسینا‘ دونوں کی جانب سے برقع پر پابندی کا مطالبہ ’نیشنل سیکوریٹی ‘ کو مدّنظر رکھتے ہوئے  نہیں بلکہ ’ مسلم دشمنی‘ میں کیا جارہا ہے  ۔ حالانکہ  بعد میں شیوسینا نے برقع پر پابندی کے مطالبے سے خود کو ’ بری‘ رکھنے کے لئے یہ کہتے ہوئے لیپاپوتی کی کوشش کی کہ اداریہ پارٹی سربراہ ادھو ٹھاکرے سے تبادلۂ خیالات کے بغیر لکھا گیا تھا  لہٰذا اس اداریے سے شیوسینا پارٹی کا کوئی سروکار نہیں ہے ۔۔۔ لیکن اداریے سے پلّہ جھاڑنے  سے بات کیسے بنے گی! ’سامنا‘ شیوسینا پارٹی کا اخبار ہے اور اس میں شائع ہونے والا ہر اداریہ پارٹی کی ’ پالیسیوں‘ کا ترجمان ہوتا ہے ۔ اس لئے شیوسینا چاہے لاکھ ہاتھ جھاڑے  مانا یہی جائے گا کہ اس نے برقع پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر بی جے پی نے برقع پر پابندی کے مطالبے کی مخالفت کی ہے ۔  بی جے پی کے ترجمان جی وی ایل نرسمہاراؤ نے صاف لفظوں میں یہ کہا ہے کہ ہندوستان میں برقع پر پابندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ویسے شیوسینا اور بی جے پی کے اس ردعمل کی وجہ ممکن ہے جاری الیکشن ہو ، ممکن ہے انہیں یہ اندیشہ رہا ہو کہ کہیں الیکشن کمیشن کی کارروائی نہ ہوجائے !
برقع پر پابندی کی بات شرانگیز بھی  ہے اور نفرت انگیز بھی ، ساتھ ہی ساتھ فرقہ وارانہ بھی ، کیونکہ اس طرح کے مطالبے کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ برقع پوش خواتین ، یعنی مسلم عورتیں دہشت گرد ہیں !  جاوید اختر کے بیان پر نفرت انگیز ردّعمل کا اظہار کرنے اور کان  ناک زبان کاٹنے کی دھمکی دینے والے سولنکی کو راجستھان کی تہذیب وثقافت پر ذرا سی آنچ برداشت نہیں ہے ، اور یہ اچھی بات ہے ، لیکن انہیں یہ کہتے  ہوئے ذرا سی بھی شرم نہیں محسوس ہوتی  کہ ’’ برقع دہشت گردی سے جڑا ہے اور یہ معاملہ ملکی سلامتی کا ہے ‘‘۔ سولنکی کو یہ بات دھیان میں رکھنا چاہیئے کہ جس طرح سے گھونگھٹ ان کی تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہے اسی طرح برقع یا حجاب ، نقاب مسلمانوں کی تہذیب وثقافت  ہی کا نہیں  ان کے مذہب کا حصہ ہے لہٰذا جیسے انہیں جاوید اختر کا جملہ  ناگوار گذرا ہے اسی طرح مسلمانوں کو ان کا یہ جملہ نہ بھایا ہے نہ بھائے گا کہ’ ’ برقع دہشت گردی سے جڑا ہے ۔‘‘  راجیوگاندھی کو ہلاک کرنے والی خاتون برقعہ پوش نہیں تھی اور نہ ہی مالیگاؤں میں بم دھماکہ  کرانے والی خاتون برقعہ پوش تھی۔ سمجھوتہ ایکسپریس ، اجمیر شریف درگاہ ، مکّہ مسجد کسی بھی دھماکے میں کوئی برقع پوش خاتون ملوث نہیں تھی۔ مہاتما گاندھی کو گولی مارنے کا گھناونا کام بھی کسی برقع پوش خاتون نے نہیں کیا تھا۔ ہاں برقعہ پوش خواتین ظلم کا شکار ضرور ہوئی ہیں ، چاہے گجرات 2002 کے مسلم کش فسادات رہے ہوں ، چاہے ممبئی کے دو مرحلوں میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد ، ہندو توادیوں کی دہشت گردی برقع پوش خواتین کے ساتھ  شدید تر تھی ، لہٰذا اگر ملک کی سلامتی کے لئے پابندی کی ضرورت ہے تو پابندی برقع پر نہیں ہندوتوادی تنظیموں پر لگائی جانی چاہیئے ۔