Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 5, 2019

ممبئی ائیر پورٹ پر اعلیٰ افسروں کے ساتھ گفتگو!!!


(مفتی محمد اشرف عباس قاسمی)
استاذ دارالعلوم دیوبند کی قلم سے۔
. . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . 
گزشتہ کئی سالوں کی طرح میں آج بھی 4 مئی 2019 کی صبح کو بعض افریقی ممالک کے سفر کے لیے ممبئی ایئرپورٹ پہنچا تو ایمیگریشن آفیسر  میرے پاسپورٹ پر ایک دوست پڑوسی ملک کا ویزا دیکھ کر مجھے اندر افسر اعلیٰ کے پاس لے گیا،جس نے مجھ سے معمول کے چند سوالات کیے، جس کے جوابات دیے گئے۔افسر اعلیٰ نے آخری سوال کیا کہ آپ ٹیچر ہیں تو آخر ان ملکوں میں جاتے کیوں ہیں؟ میری فلائٹ کا وقت قریب تھا؛ اس لیے جلد اس سلسلے کو ختم کرنے  کی کوشش میں واضح لفظوں میں کہا کہ میں دارالعلوم دیوبند میں پڑھاتا ہوں، اور دنیا بھر کے لوگ جو دین اسلام اور اس کی تعلیمات امن و انصاف میں یقین رکھتے ہیں، وہ دارالعلوم دیوبند سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے ہیں۔ جیسے ہی میں نے دارالعلوم کا نام لیا افسر اعلیٰ نے کہا اب ہمیں کچھ نہیں پوچھنا ہے؛ لیکن میں نے زور سے دارالعلوم کا نام لیا تھا اس لیے دوسری میز پر اپنے کام میں مصروف ایک اور افسر نے وہیں سے کہا: "آپ دارالعلوم دیوبند میں پڑھاتے ہیں، ذرا ہمیں بھی گیان دیجیے۔" میں نے سوچا شاید وہ اسلام کے متعلق کچھ سوالات کرے گا؛ لیکن دونوں  نے خالص سیاسی سوالات شروع کر دیے۔اس دوران پہلا افسر مجھے لے کر دوسرے کی میز کے پاس آگیا اور مزید دوچار ملازمین نے گھیر لیا۔ پہلے افسر نے معذرت خواہی کے ساتھ پہلا سوال یہ کیا کہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں یہ انہونی کیسے ہوئی کہ آپ کے دیوبند سے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، بی جے پی کنڈیڈٹ نکل گیا؟ میں نے پہلے تو یہ صاف کیا کہ دیوبند اسمبلی حلقے میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے، اور بتایا کہ اس کی اصل وجہ سیکولر ووٹوں کا انتشار ہے، اور اس کو اعداد و شمار کی روشنی میں واضح کیا۔ اگلا سوال یہ تھا کہ اس الیکشن میں مغربی یوپی کا کیا حال ہے؟ بتایاگیا کہ اتحاد کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ پھر وہ خاص سہارنپور، عمران مسعود، حاجی اور بھاجپا امیدوار کے سلسلے میں دریافت کرنے لگے۔ ان کا آخری سوال تھا کہ آپ کے اعتبار سے کس کی سرکار بننے جارہی ہے؟ میں نے مقام کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے دونوں میں سے کسی کی حکومت کو خارج از امکان نہیں قرار دیا، جس پر وہ کہنے لگے: کانگریس کی ہی سرکار بنے گی۔اور مایاوتی بھی کانگریس کو ہی سپورٹ کریں گی۔  مودی سرکار کو تو کسی حال 
میں نہیں آنا چاہیے، روزگار ختم ہے، جیٹ ایئر ویز کو تباہ کردیا۔ملازمین کے پیٹ پر لات ماردی۔اور بھی خامیاں شمار کراتے رہے۔میں نے کہا ان سب کے باوجود اس سرکار کے خلاف جو آکروش اور ناراضگی ہونی چاہیے وہ نظر نہیں آرہی ہے، اس پر وہ کہنے لگے: میڈیا سے متاثر مت ہوئیے۔ اندر ہی اندر مودی کے خلاف زبردست لہر ہے۔

 میں نے عرض کیا: اس کو باہر لائیے۔ ہم مسلمان اکیلے یہاں کی ڈیموکریسی اور سیکولر ازم کو نہیں بچاسکتے ہیں۔ گفتگو کو وہ حضرات طول دینا چاہتے تھے؛ لیکن بورڈنگ کا ٹائم قریب الختم تھا؛ اس لیے ان حضرات کو دیوبند کی دعوت دی اور شکریہ اداکرتے ہوئے میں نے جہاز کی راہ لی، اس خوش گوار احساس کے ساتھ کہ اس دفتر میں آج سے پہلے کسی نہ کسی سخت مزاج اور تند خو افسر سے ہی واسطہ پڑتا تھا؛ لیکن آج تو بفضلہ تعالیٰ معاملہ اس کے برعکس رہا، غالبا مودی سرکار کی مسلسل عوام مخالف پالیسیوں نے انصاف پسندوں کے ضمیر کو جگادیا ہے، اور استحصال کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے۔
      اور اس وقت جب کہ میرا جہاز محض اللہ رب العزت کی تسخیر سے اڑتیس ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز ہے، میں اسی قادر مطلق کی بارگاہ میں سربسجود ہوں اور یہ دعا اور تمنا کررہاہوں کہ آئندہ اٹھائیس مئی کو جب میں دوبارہ اپنے پیارے وطن کی سرزمین پر قدم رکھوں گا تو اس سے پہلے ہی موجودہ حکومت کے خاتمے کا اعلان ہو چکا ہوگا۔ اور ملک کو نسبتاً انصاف پرور، ترقی پسند اور اقلیت دوست سرکار مل چکی ہوگی۔ ولیس ذلک علی اللہ بعزیز۔