Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 27, 2019

کیا ہمارے سر پر بھی سیاسی چھت ہے ؟


تحریر / عزیز اعظمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ستر دہائیوں سے موقع کی فراق میں لگی برہمنیت کو جس سیاسی رہنمائی اور موقع کی تلاش تھی ایک حد تک مودی کی شکل میں وہ تلاش پوری ہوگئی اب اس موقع کافائدہ اٹھاتے ہوئے سیوک سنگھ  اور زعفرانی حکومت ہر وہ کام کرے گی جو انکے ایجنڈے کے  مطابق ہے ۔۔ ایجنڈے اور خواب تو بہت سارے ہیں لیکن آر ایس ایس کے قیام کا بنیادی مقصد اور زعفرانی حکومت کی اولین ترجیح " ہندتوا کا نفاذ " ہے جس کے اندر " مسلمان دوئم درجے کا شہری ہو"   اپنی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل اور اسکے نفاذ کے لئے ہر وہ قدم اٹھائیں جو انکے لئے مفاد سے مفاد تر ہو  اس سے قطع نظر کہ وہ قدم  ملک 

کے مفاد میں ہے یا نہیں   ۔  
ہندو راشٹر قائم کرنا ، مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ان دونوں چیزوں کا  نفاذ آسان نہیں جب تک اس ملک کی ستر فیصد آبادی کو یکجا نہ کر لیں اب اسکے لئے انھیں جو بھی راستہ اپنانا ہوگا وہ اپنائیں گے ۔ ملک میں نفرت پھیلا کر ، میڈیا اور ادارے کو خرید کر ، الیکشن کمیشن اور ساشن کو قابو میں رکھ کر ، پولنگ بوتھ اور مشین پر قبضہ جما کر ،  اٹھارہ فیصد کا خوف اَسّی فیصد والی آبادی  کے دل میں بیٹھا کر اور آپ نے دیکھا بھی کہ یہ سارے ہتھ کنڈے انھوں نے پچھلے پانچ سال میں اپنائے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں ۔
اب ایسے حالات میں مسلمان چاہے سیکولرازم کے ساتھ جائے یا پلوریلیزم کے ساتھ جائے یا پھر دائیں ، بائیں کسی محاذ کے ساتھ چلا جائے اس کے لئے کوئی بھی درخت ، شجرہائے سایہ دار نہیں سوائے اسکی اپنی فراست اور متحدہ سیاسی  قوت کے ،  کیونکہ زعفرانی سیاست ہر حال میں مسلمانوں کی کھوپڑی پر سوار ہوکر اپنے ایجنڈے کو پورا کرنا چاہے گی ۔۔ اور جب بھی اس حکومت کے کارندے مسلمانوں کی کھوپڑی پر سوار ہونگے ، گؤرکشا ، لوجہاد ، دہشتگردی کے نام پر انھیں پیٹ پیٹ کر ماریں گے جیسا کہ آج ہی مدھ پردیس میں گؤرکشا کے نام پر تین مسلمانوں کو بے رحمی سے پیٹا گیا یہ تمام سیکولر پارٹیاں خاموش رہیں ہیں اور خاموش رہیں گیں اور اس لئے خاموش رہیں گی کہ گؤرکشا ، جیسے دھارمک آستھا والے مسئلے پر اگر وہ کھل کر اسکی مخالفت کرتی ہیں اور مسلمانوں کےساتھ کھڑی ہوتی ہیں تو انکو میڈیا کے ذریعہ نشانہ بنایا جائے گا اور انکے خلاف ایسی ہوا بنائی جائے گی کہ انھیں اس بات کا خوف ہوگا کہ اگر مسلمانوں کا ساتھ دیا تو بَچا کُھچا ہندو ووٹ بھی کِھسک جائے گا ۔ ووٹ کی اس بھوک اور خوف کے اس ماحول نے انکی زبان پر مصلحت پسندی کا ایسا تالا لگائے گا کہ آپ کے زخموں پر مرہم رکھنا تو دور مذمت کے ایک لفظ بھی نہ بول سکیں گے ۔ ایسےحساس معاملے میں اگر کوئی کھڑا ہوگا تو وہ آپکی قیادت اور امن پسند ہندو بھائی جو تشدد پر یقین نہیں رکھتا اس لئے ہمیں ایسی سوچ اور ایسی فکر کے ساتھ جانا  ہوگا جو کم از کم ہمارے مسائل پر مصلحتاً خاموش رہنے کے بجائے ہمارے ساتھ ہورہے ظلم و ناانصافی پر بولنے کی ہمت اور ہمارے دفع کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔۔
ہمارے پاس کوئی سیاسی چھت نہیں جس کے سایہ تلے ہم زمانے کی دھوپ چھاؤں سے بچ سکیں بدلتے دور میں جس طرح زمانے کی شدت بڑھ رہی ہے اب ضرورت ہے کہ ہم بھی  اپنے لئے چھت کا انتظام کریں اگر چھت نہیں تو کم ازکم ایک ایسا سائبان ضرور بنائیں جو ہمیں مختصر ہی سہی لیکن سایہ دے سکے ، ہماری سیاسی حیثیت ، سیاسی پسماندگی اور سیاسی بے وزنی نہ تو سیاست سے دُور رہ کر حل ہو سکتی ہے اور نہ ہی سیکولزم بچانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لیکر  بے سود کوشش  معاون ثابت ہوگی اور نہ ہی یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لینے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے کہ ہمارا کام تو دعوت و تبلیغ ہے اس لیے سیاسی اتھل پتھل اور داؤ پیچ ہمارا کام نہیں ہے..
بلکہ موجودہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو بدلنے اور اس کے مطابق چلنے اور مستقبل ایک لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے اورلائحہ عمل یہ ہوسکتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں مسلم قیادت کے ساتھ جانا چاہئے جیسے حیدرآباد اور اورنگ آباد میں ہوا ۔۔
جہاں اکثریت نہیں لیکن فیصلہ کن حالت میں ہیں وہاں سیکولرازم کےساتھ اس شرط پر جانا چاہئے کہ آپ کو ہمارے مسائل پر کھل کر بولنا ہوگا ہماری عزت و آبرو ، ہماری جان و مال کا کھل کر دفع کرنا ہوگا اور اگر آپ میں یہ ہمت اور صلاحیت ہے تو ہماری جوانی آپ پر قربان ہے  ورنہ ہمارے پاس دوسرا راستہ ہے ہم بے سود آپ کے لئے کسی دوسری جماعت کے دشمن کیوں بنیں ، اسکی نفرت و عداوت شکار کیوں ہوں ۔ جب ہمیں آپ کے ساتھ بھی رہ کر بے وقعت ہونا ہے اور انکے ساتھ بھی تو ہم انھیں کے ساتھ کیوں نہ جائیں جسے ہم سے شکایت ہے ۔