Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 23, 2019

سترہواں روزہ۔۔۔۔۔۔۔۔سترہواں سبق۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔

سترہواں سبق:
رمضان محبت ِخدا وندی میں اضافہ کا سبب ہے۔
صدائے وقت/ ماخوذ/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رمضا ن المبا رک وہ مہینہ ہے،جس میں رب کی اطا عت بہت نما یا ں طور پر محسوس ہو تی ہے،ہر مو من کی زندگی پہلے کے مقابلہ میں کچھ نہ کچھ تبدیل ہو ہی جا تی ہے، رب کی اطا عت رب سے محبت پیدا کر تی ہے،رمضا ن کے روزے اس محبت میں اضا فہ کا سا ما ن پیدا کر تے ہیں ، روزہ دار کادل عبا دت کی وجہ سے محبت خداوندی سے رفتہ رفتہ لبر یز ہو تا جاتا ہے، اللہ سے محبت کی دس علا متیں ہیں ، اگر یہ علامتیں مو جو د ہوںتواس کا مطلب ہے کہ اللہ سے حقیقی محبت ہے، ایسی نہیں جس میں صر ف دعو ی ہی دعوی ہو ، ذیل میں وہ دس علا متیں ذکر کی جارہی ہیں ۔

(۱) کلا م اللہ سے محبت :  یہ وہ کلا م ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنی مخلو ق سے خطاب کیا او راپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کونا زل کیا ،کلا م اللہ سے محبت کا مطلب یہ ہے، کہ اس کی تلا وت کا شو ق وجذبہ دل میںموجو د ہو ، اس میں تدبر و تفکر سے کا م لے ، اس کی تعلیما ت و ہدا یا ت پر عمل پیرا ہو ، قرآنی ہدایات کے با غ میں سیر و تفر یح سے ہی اس کے دل کو سکو ن و اطمینا ن نصیب ہو تا ہو، تا ریک راتوں میں، نمازوں او رسجدو ں کی حالت میں شب بیدا ری اس کا مشغلہ ہو ، زندگی کے تمام معا ملا ت میں قرآنی تقا ضو ں ،ربا نی احکا م اور خدا وندی فیصلو ں پر سر تسلیم خم کر نے میں اس کو گرانی کا احسا س نہ ہوتا ۔
(۲)رسو ل اللہ ﷺسے محبت :  بندے کے دل میں جا گزیں ہو ، آپ کی اتبا ع ہی میں اس کو لطف ملتا ہو،کثر ت سے آپ پر درودو سلا م بھیجتا ہو اور آپ ہی کو نمونٔہ عمل بنا تا ہو ، یہی مطا لبہ قرآ ن کا بھی ہے، ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرُ اللّٰہَ کَثِیْرًا‘‘ (احزاب: ۲۱)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی اس کا مقتدا ہو ، آپ کے طریقہ ٔکا ر کو ہی رہنما بنا تا ہو، اور اس با بت کسی قسم کی تنگی اور تذبذب کا شکا ر نہ ہو ، اسی لیے رب العزت ارشا د فرما تے ہیں ،’’ فَلاَ وَرَبَّکَ لاَ یُوْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْنَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘۔ (النسائ: ۶۵)
(۳) حدود اللہ کا احترا م: مو من کی شان یہ ہونی چا ہیے کہ حدود اللہ کا احترا م کرے ، محرمات سے دوری اختیا ر کرے ،اسلا می شعا ئر کی بے حر متی اس کے لیے ناقابل برداشت ہو ، بدعات وخر افا ت اور رسو م وروا ج سے اس کا دل تڑپ اٹھتا ہو ، دل ،زبا ن اور ہا تھ کے ذریعہ ممکنہ حد تک دین اسلا م کے استحکا م ، الہی احکام کے نفاذواجراء اور ان پر عمل در آمد سے پیچھے نہ ہٹے ؛بلکہ اسی میں اس کو لذت وقو ت ملتی ہو۔
(۴) اللہ کی ولا یت: بندہ اللہ کی ولا یت سے شر ف یا ب ہو ، بلکہ اس کے حصول کے لیے کوشا ں بھی ہو، اللہ کو ایسے بندے بہت پسند ہیں ،اللہ ان کی خوب تعریف کر تا ہے، ’’ أَلاَ إِنَّ أَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ، الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ‘‘ (یونس:۶۲) دوسری جگہ فر ما تا ہے، ’’إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقِیْمُوْنَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُوْنَ، وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا فَإِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمْ الْغَالِبُوْنَ‘‘۔ (المائدہ: ۵۵، ۵۶)
(۵)امر با لمعروف ،نہی عن المنکر : ایک مومن کا شیو ہ ہو نا چا ہیے ، دین اسلا م کے تئیں تن من دھن کی قر بانی کے لیے ہمہ وقت تیا ر ہو نا چاہیے ، بندہ اسلا م کی وہ چکی بن جائے، جس کی حر کت صر ف اور صر ف اسلا م کے لیے ہو ، مو قع پڑے تو اسلا م کی تلو ار بن جا ئے ، ضرورت پڑے تواسلا م کا نیزہ بن جا ئے ، یہی فدا ئیت اللہ کو بھی پسندہے: ’’ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃً یَدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ، یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ أُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔ (اٰل عمران: ۱۰۴)ماہِ رمضان مومن کی اِس صو رت حال میں اضافہ کرتا ہے ،روزہ دا روں کی سا ری خیر خوا ہی اوران کی سا ری تگ ودو اللہ کے بندوں کے لیے مخلصا نہ طو ر پرخر چ ہو تی ہے، اور دنیاومافیہا سے بے نیا ز ہوکراجر کی امید محض ایک ذات سے ہو تی ہے۔
(۶)صلحا ء کی صحبت : نیکو کا ر وں سے محبت ، اولیا اللہ کی مجا لس سے انسیت اور ان کی با تیں سننے کا شو ق وجذبہ بھی ایک مومن کے اندرموجود ہو، ان سے ملا قا ت اور زیارت کا اشتیا ق بھی ہو، ان کی عزت ونا مو س کا محا فظ بھی ہو، حتی المقدور ان کی خو بیا ں بھی بیان کرے ، اسی ایما نی جذبہ کے پیشِ نظر اللہ نے تمام مسلما نوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرا ر دیا ہے، ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ ‘‘ (الحجرات: ۱۰)اور اسی کا مطا لبہ کرتے ہوئے، ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلاَ تَفُرَّقُوْا ‘‘ (آل عمران: ۱۰۳)بھی فرمایاہے۔
(۷) نو افل کے ذریعہ اللہ کا تقر ب: ایک مو من کو نو افل کے ذریعہ اللہ کا قر ب اختیا ر کرنا چاہیے ، اعمال صا لحہ کے ذریعہ رب کی رضا جوئی کرے ، روزہ ، حج ، زکو ۃ ، ذکر وتلا وت ، اور صلہ رحمی وغیرہ ، کامو ں میں  دلچسپی لے اور بحسن وخو بی انہیںانجام دے ا یسے بندوں کی اللہ نے تعریف کی ہے، اسی لیے فر مایا ، :إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِيْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَہْبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْن ‘‘(الانبیائ: ۱۰) اور حدیث قدسی میں اللہ تعا لی فرما تے ہیں ، ’’مَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبُّہُ ‘‘یعنی بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب اختیار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ہوں۔
(۸)آخرت کو دنیا ئے فانی پر تر جیح دینا: یہ بھی ایک مو من کی فطر ت میں دا خل ہو نا چا ہیے ، اللہ عزوجل سے ملا قا ت کی تیا ری بھی ہو نی چا ہیے ، وہ سفر جس سے واپسی کی کوئی امید نہیں اس کے لیے ساما ن مہیا کر نا بھی ضروری ہے، بہتر سے بہتر زادِ راہ بھی ہو نا چا ہیے ، کیو ں کہ مو ت بندگا ن خدا کے لیے میقا ت کی حیثیت رکھتی ہے، جس سے آگے کی کوئی منزل نہیں ،ہمیں چاہیے کہ ایسی قو م میں اپنا نا م درج کرائیں جن کے پا س سفر کے لیے توشہ مو جو د ہو ،تاکہ کسی دقت کا سا منا نہ کرنا پڑے ۔
(۹) تو بٔہ نصوح: قرآن کہتا ہے: ’’تُوْبُوْا إِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوْحًا‘‘ (التحریم: ۸) لہٰذا تو بٔہ نصو ح ایک مومن کی پہچان ہو نی چا ہیے ، معا صی کو تر ک کردینا چاہیے ، با طل پر ستو ں سے دور رہنا چا ہیے ، غافلوں کو دوست نہ بناناچاہیے، اس سلسلے میں قرآ ن کی یہ نصیحت قا بل تو جہ ہے ، ’’اَلْأَخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إلاَّ الْمُتَّقِیْنَ ‘‘ (الزخرف: ۶۷)اور یہی خبر صا دق ومصدو ق صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی ہے، ارشا دفرما یا!:اَلْمَرْئُ یُحْشَرُ مَعْ مَنْ أَحَبَّ ‘‘۔
(۱۰) جذ بۂ شہادت : راہ خدا میں شہا دت اور جا ن قربا ن کرنے کی تمنا ہر مومن کے قلب میں ہونی ضروری ہے، بلکہ مو من کی شا ن ِجا ں نثا ری میں تو اس وقت چار چا ند لگ جا تا ہے، جب وہ اس دن کے انتظا ر میں رہتا ہے ، جس دن کہ انسا نی نفوس راہ خدا میں قر با نی کے لیے پیش کیے جا ئیں ،پھر وہ اپنی جا ن و ما ل اور اولاد سب کچھ اللہ سے فروخت کر دیتا ہے، اور اللہ اس کو اس قر با نی کے بد لے میں نفع ِعظیم کی دولت سے نوازتے ہیں ، انہیں مو منین کی تعریف کرتے ہوئے قرآ ن گو یا ہے،! ’’إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃُ یُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ‘‘ (التوبۃ: ۱۱۱)۔
یہ دس ایسے اصول ہیں کہ اگر انسا ن ان کو اپنی زندگی میں اتا رلے ، ان کو اپنا وظیفہ بنالے، تو پھروہ اللہ کامحبوب بن جا تا ہے، روئے زمین پر اس شخص سے بڑا خو ش نصیب کون ہو گا، جس کو اللہ اپنا محبو ب بنا ئے ، یو ں تو رمضا ن ویسے ہی قا بل ِقدر ہے، اب اگر کوئی جدوجہد کر کے ، رب کی محبو بیت کی سند رمضا ن جیسے مہینہ میں حا صل کرتا ہے، تو یقینا وہ قا بل رشک ہے ، اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کی تو فیق مر حمت فرمائے ، آمین