Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 17, 2019

چیف جسٹس آف انڈیا کو تو کلین چٹ مل گئی۔۔۔اگر یہی الزام دیگر کسی شخصیات پر لگا ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟زیڈ کے فیضان کا ایک حقیقت پر مبنی تبصرہ۔

چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف سازش کی جانچ ۔۔۔۔۔ایک مناسب فیصلہ۔
جنسی تعلق کے الزامات سے عدالت نے جو وقت کی معیاد ختم کردی اس سے " می ٹو" کی سنامی آگئی۔
جنسی معاملات میں عدالت عظمیٰ کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت۔
. . . . .  زیڈ۔کے فیضان۔
نئی دہلی/ صدائے وقت۔/ پریس ریلیز۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .. 

زیڈ۔کے فیضان
. . . . . .
پیو پلس ایورنیس فورم کے سکریٹری جنرل و ایڈو کیٹ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میں چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف سازش کی جانچ شروع کرنے کو ایک مناسب قدم قرار دیتا ہوں۔یہ ضروری تھا کہ سارے حقائق کا پردہ فاش ہوسکے۔
رنجن گگوئی۔چیف جسٹس۔

انھوں نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ میں خود سپریم کورٹ میں وکالت کرتا ہوں اور کورٹ کی حدود میں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کس طرح چند وکلاء اور  اسٹاف نے  ملکر ایک گروہ تیار کیا ہے اور ان کی یہ کوشش رہتی رہی ہے کہ کیسے عدلیہ کو گمراہ کرکے اپنے حق میں آرڈر حاصل کئیے جائیں اور موکل سے ایک لمبی رقم وصول کی جائے ۔در اصل یہ پورا ایک ریکٹ ہے اور اس جانچ سے ان سب کا بھنڈا پھوڑ ہوگا۔
زیڈ۔کے فیضان نے کہا کہ جہاں تک سپریم کورٹ کے تین ججوں کی کمیٹی کا چیف جسٹس کو کلین چٹ دئیے جانے کا فیصلہ ہے یہ انتہائی اطمنان بخش بات ہے ورنہ اس معطل شدہ خاتون نے تو عدالت عظمیٰ کی شبیہ کو خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ویسے بھی بادی النظر میں یہ الزام جھوٹا اور بے بنیاد لگ رہا تھا۔انھوں نے کہا کہ لیکن، بہتر یہ رہا ہوتا ، اگر یہ انکوائری سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں کے بجائے کسی دوسری ایجنسی یا پھر سپریم کورٹ کے ہی ریٹائرڈ ججوں سے کرائی گئی ہوتی جیسا کی اٹارنی جنرل نے اپنی نجی حیثیت میں ایک خط لکھ کر سجھاوٰ دیا تھا۔ یا پھر سپریم کورٹ کے  ہی ایک موجودہ جج نے اپنے ساتھی ججوں کو یہی صلاح دی تھی اور کہا تھا کہ خاتون کو وکیل ساتھ لے آنے کی اجازت دے دی جانی چاہئیے تھی۔ایسا ہوتا تو بہتر تھا۔

زیڈ کے فیضان نے کہا کہ " چیف جسٹس کو تو کلین چٹ مل گئی مگر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ان کی جگہ پر یہ الزام کسی سیاست داں، بیروکریٹ یا دیگر وی آئی پی، حتیٰ کہ گورنر پر بھی لگا ہوتا تو کیا ہوتا۔"جبکہ دستور ہند کی رو سے عہدے پر رہتے ہوئے گورنر پر کوئی فوجداری کی کاروائی نہیں کی جاسکتی۔
انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو اس پس منظر میں سارے معاملات کو از خود نوٹس لیتے ہوئے از سرنو غور کرنا چاہئیے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سپریم کورٹ و دیگر عدالتوں کے فیصلوں، نظیروں اور احکامات کیوجہ سے ایک ایسا ماحول ملک میں بن گیا ہے کہ " جیسے خواتین کبھی کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتی"۔پولیس ودیگر ایجنسیوں کو اتنے اختیارات حاصل ہو گئیے ہیں کہ جس کسی کی بھی پگڑی اچھلوانی ہو اس کے خلاف کسی خاتون سے کمپلینٹ داخل کرا دو۔۔۔
انھوں نے کہا کہ خواتین کے لئیے ساری ہمدردی رکھنے کے باوجود کہنا چاہتا ہوں کہ آج ایک خاتون کے ذریعے کمپلینٹ داخل کرکے کسی مرد کو بلیک میل کرنا ایک عام بات ہوگئی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ جنسی الزامات کے تعلق سے کورٹ نے جو وقت کی معیاد ختم کردی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ " می ٹو" کی سنامی آگئی۔سیاست دانوں ، بیروکریٹس، حتیٰ کی جرنلسٹوں کو نہیں بخشا گیا ، وزیروں کو استعفیٰ دے کر جیل جانا پڑا ۔۔۔انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے آپ کو دیگر وی آئی پی کی جگہ رکھ کر سوچنا چاہئیے۔اگر یہی الزام کسی دوسرے کے خلاف لگا ہوتا تو کیا اس سے بچ پاتا؟۔اس لئیے تقاضہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پر بھی غور کر ایک مثبت نظیر قائم کرے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی خاتون  قانون کا بیجا استعمال کر بلیک میل نہ کر سکے۔