* - ٢ ؍ مئی؍ ٢٠١٧*
*بزلہ سنج شعراء میں شمار اور مشہور و معروف شاعر ” خواہ مخواہ حیدر آبادی “ ...*
نام *غوث محی الدین احمد* قلمی نام *خواہ مخواہ حیدر آبادی*
*حیدر آباد ( ہندوستان )* میں پیدا ہوئے ۔ ان کا شمار ہندوستان کے ان نامور اور بزلہ سنج شعرا میں ہوتا ہے جنھیں عوام نے سند قبولیت عطا کی ،دور دور سے لوگ انھیں دعوت سخن دیتے تھے اور ان کی سخن طراز یوں پرد اد وتحسین کی بوچھار بھی کرتے تھے اور غوث محی الدین خواہ مخواہ کی شاعری میں وہ تجربات ہوتے تھے جن سے ہر کوئی گزرتا رہتا ہے۔ اُن کی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں ۔
*حیدر آباد ( ہندوستان )* میں پیدا ہوئے ۔ ان کا شمار ہندوستان کے ان نامور اور بزلہ سنج شعرا میں ہوتا ہے جنھیں عوام نے سند قبولیت عطا کی ،دور دور سے لوگ انھیں دعوت سخن دیتے تھے اور ان کی سخن طراز یوں پرد اد وتحسین کی بوچھار بھی کرتے تھے اور غوث محی الدین خواہ مخواہ کی شاعری میں وہ تجربات ہوتے تھے جن سے ہر کوئی گزرتا رہتا ہے۔ اُن کی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں ۔
منتخب کلام...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی ڈھل گئی کیسی جوانی دیکھتے جاؤ
جو تھیں بیگم وہ ہیں بچوں کی نانی دیکھتے جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی ڈھل گئی کیسی جوانی دیکھتے جاؤ
جو تھیں بیگم وہ ہیں بچوں کی نانی دیکھتے جاؤ
ٹنگی ہے جو مرے ہینگر نما کندھوں پہ میلی سی
مری شادی کی ہے یہ شیروانی دیکھتے جاؤ
مری شادی کی ہے یہ شیروانی دیکھتے جاؤ
دکھا کے دسویں نو مولود کو مجھ سے وہ یہ بولیں
محبت کی ہے یہ تازہ نشانی دیکھتے جاؤ
محبت کی ہے یہ تازہ نشانی دیکھتے جاؤ
کیا بیگم نے نافذ گھر میں دستور زباں بندی
مرے گھر آؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
مرے گھر آؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
میں پچپن کا ہوں وہ پندرہ برس سے تیس کے ہی ہیں
جوانی ان کی میری ناتوانی دیکھتے جاؤ
جوانی ان کی میری ناتوانی دیکھتے جاؤ
کھڑے ہیں سامنے آئینے کے اور مسکراتے ہیں
جوانی ہو گئی کیسی دوانی دیکھتے جاؤ
جوانی ہو گئی کیسی دوانی دیکھتے جاؤ
بجھا سکتا نہ تھا جو تشنگی صحرا کی وہ بادل
حیا سے ہو گیا ہے پانی پانی دیکھتے جاؤ
حیا سے ہو گیا ہے پانی پانی دیکھتے جاؤ
بہت مجبور ہوتا ہے تو انساں خون پیتا ہے
گراں ہے کس قدر پینے کا پانی دیکھتے جاؤ
گراں ہے کس قدر پینے کا پانی دیکھتے جاؤ
ہمارا خون اک نہ اک دن لا کر رہے گا رنگ
تمہیں مہنگی پڑے گی زندگانی دیکھتے جاؤ
تمہیں مہنگی پڑے گی زندگانی دیکھتے جاؤ
لہو پر بے گناہوں کے رکھی ہوں جس کی بنیادیں
نہیں چلنے کی ایسی حکمرانی دیکھتے جاؤ
نہیں چلنے کی ایسی حکمرانی دیکھتے جاؤ
حیا اور شرم اٹھتی جا رہی ہے اس زمانے سے
نہ جانے کب مرے آنکھوں کا پانی دیکھتے جاؤ
نہ جانے کب مرے آنکھوں کا پانی دیکھتے جاؤ
چڑھتی کہیں کہیں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
جانے کہاں کہاں سے گزرتی ہیں سیڑھیاں
جانے کہاں کہاں سے گزرتی ہیں سیڑھیاں
یادوں کے جھلملاتے ستارے لئے ہوئے
ماضی کی کہکشاں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
ماضی کی کہکشاں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
لیتی ہیں یوں سفر میں مسافر کا امتحاں
ہموار راستوں پہ ابھرتی ہیں سیڑھیاں
ہموار راستوں پہ ابھرتی ہیں سیڑھیاں
کرتی ہیں سر غرور کا نیچے اتار کر
پستی کا سر بلند بھی کرتی ہیں سیڑھیاں
پستی کا سر بلند بھی کرتی ہیں سیڑھیاں
تاریکیوں کو اوڑھ کے سوتی ہیں رات بھر
سورج کی روشنی میں نکھرتی ہیں سیڑھیاں
سورج کی روشنی میں نکھرتی ہیں سیڑھیاں
ہلتی نہیں ہلائے سے ثابت قدم تلے
مہکیں اگر قدم تو بہکتی ہیں سیڑھیاں
مہکیں اگر قدم تو بہکتی ہیں سیڑھیاں
منبر پہ چڑھ کے بیٹھتی ہیں واعظوں کے ساتھ
رندوں سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتی ہیں سیڑھیاں
رندوں سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتی ہیں سیڑھیاں
جب کوئی حال پوچھنے آئے نہ مدتوں
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے مرتی ہیں سیڑھیاں
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے مرتی ہیں سیڑھیاں
یادوں کے پھونک پھونک کے رکھنے پڑے قدم
زخموں سے دل کے جب بھی سنورتی ہیں سیڑھیاں
زخموں سے دل کے جب بھی سنورتی ہیں سیڑھیاں
لیتی ہیں بڑھ کے سب کے قدم تو لگا مجھے
تنہائی کے عذاب سے ڈرتی ہیں سیڑھیاں
تنہائی کے عذاب سے ڈرتی ہیں سیڑھیاں
یوں دل میں تیری بات اترتی ہے ؔخواہ مخواہ
گہرے کنویں میں جیسے اترتی ہیں سیڑھیاں۔
گہرے کنویں میں جیسے اترتی ہیں سیڑھیاں۔
صدائے وقت۔