Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 2, 2019

حقوق انسانی کی غیر سرکاری تنظیم این سی ایچ آر او کے وفد نے حراست میں مارے گئے محمد رمضان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔

پولیس اپنے بچاو میں کر رہی ہے کاروائی۔
. . . . . .  وفد۔
کوٹہ۔۔راجستھان۔۔صدائے وقت۔پریس ریلیز۔ . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
حقوق انسانی کی تنظیم نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے مورخہ 1 مئی کو محمد رمضان کی عدالتی حراست میں ہوئی مشتبہ موت کے معاملے میں متوفی کے اہل خانہ سے ملاقات کی ۔۔۔تنظیم کے جنرل سکریٹری محمد حنیف نے بتایا کہ ریاستی صدر تی ایس راہل کی ہدایت پر ایک وفد مرحوم رمضان کے گھر باراں ضلع کے منگرول قصبہ جاکر اہل خانہ سے ملاقات کی۔مرحوم رمضان پر ایک مقدمہ دفعہ 307 کے تحت 1987 سے چل رہا تھا جس میں 9 ماہ قبل ہائی کورٹ سے دو سال کی سزا یوئی تھی۔اور وہ تبھی سے سزا کاٹ رہے تھے ۔اسی دوران جیل میں طبیعت خراب ہونے سے ان کا علاج بھی چل رہا تھا ۔ان کی ضمانت کے لئیے بھی سپریم کورٹ میں ان کے بیٹے محمد رضوان نے عرضی دائر کر رکھی تھی۔۔محمد رضوان کے مطابق ان کے مرحوم والد کی طبیعت خراب ہونے پر ان کو کوٹا کے میڈیکل کالج کے قیدی وارڈ میں رکھا گیا ۔جب اہل خانہ کو اسکی خبر ملی تو ان کی بیوی  ، بیٹے ان سے ملنےبپہنچے  لیکن ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہل کاروں نے ملنے کے لئیے 509 کی رشوت مانگی ، نہ دینے پر ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی ۔اس کک شکایت اسپتال کے افسران سے کی گئی جس سے ناراض ہوکر پولیس والوں نے مرحوم رمضان کیساتھ مار پیٹ کی انھیں زنجیر سے باندھ کر الٹا کرکے مارا گیا جس سے ان کی طبیعت اور بگڑ گئی۔جس سے ان کو جے پور ایس ایم ایس میں ریفر کردیا گیا ۔۔وہاں پر جب طبیعت میں سدھار ہوا تو انھوں نے ان کے ساتھ ہوئے بد سلوکی اور مارپیٹ کی تفصیل اہل خانہ کو دی اور میڈیا والوں کو بلاکر بھی بیان دیا ۔وفد میں شریک ممبر شبینہ انجم نے بتایا کہ مرنے سے پہلے رمضان نے ایک ویڈیو کلپ میں بتایا تھا کہ ان کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی کہ ان کے ساتھ جس کچھ ہوا ہے وہ کسی کو نہ بتائیں۔ٹوپی  داڑھی اور مذہب کو لیکر برا بھلا کہا گیا ۔۔۔دو دن بعد ہی ان کو پولیس نے ڈسچارج کرا کر دوبارہ کوٹا لے آئی اور پھر ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئ اور 26 اپریل کو انک موت ہوگئی۔
وفد کا ماننا ہے کہ محمد رمضان کی موت نفرت کا نتیجہ ہے۔وہاپولیس مملزمان نے رمضان پر مذہب کی بنیاد پر مارا پیٹا اور بدسلوکی کی ۔آج اسٹیٹ ملازمین بھی متعصب ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے نہیں ڈرتے ہیں۔اس معاملے میں تنظیم کا مطالبہ ہے کہ متاثر خاندان کو مناسب معاوضہ دیا جائے ، جن پولیس اہلکاروں پر مارپیٹ جیسی ہلکی دفعات میں مقدمہ درج ہے ان پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔اور اہل خانہ کے کسی فرد کو سرکاری نوکری دی جائے۔