Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 1, 2019

معروف تنقید نگار و ترقی پسند مشہور شاعر" خلیل الرحمٰن اعظمی " کے یوم وفات کے موقع پر خراج عقیدت۔

تاریخ وفات۔- یکم ؍ جون ؍ ١٩٧٨
*جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں، انجمن ترقّی پسند مصنفین کے سکریٹری اور ترقی پسند شاعر” خلیل الرحمٰن اعظمیؔ صاحب “ کا یومِ وفات...*
*خلیل الرحمٰن اعظمیؔ  9 اگست 1927کو اعظم گڑھ* کے *سلطان پور* میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد *مولانا محمد شفیع صاحب(بانی مدرستہ الاصلاح،سراۓمیر* جید عالم دین تھے ۔کہتے ہیں *شبلیؔ* سے ان کے براہِ راست مراسم تھے ۔ *والدہ رابعہ بیگم* معمولی پڑھی لکھی تھیں ۔طالب علمی کے زمانے میں ہی *خلیلؔ*  نے ایک قلمی رسالہ *' بیداری'* نکالا جس میں دوسرے طالب علم بھی لکھتے تھے ۔اسی زمانے میں بچوں کے رسائل میں ان کی کہانیاں اور نظمیں چھپنے لگی تھیں۔وہ اپنے نام کے ساتھ *مستقیمی* لکھتے تھے ۔ *پروفیسر رشید احمد صدیقی* کی تحریروں سے متاثر ہوکر علی گڑھ تعلیم حاصل کرنے آئے ۔47کے فساد میں دہلی اور علی گڑھ کے درمیان فسادیوں نے اس ترقی پسند شاعر کو ٹرین سے پھینک دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ *باقر مہدی* ساتھ میں تھے وہ چلتی ٹرین سے کودے اور ان کو ریلیف کیمپ تک پہنچایا ۔جب *خلیل*  بی اے کے طالب علم تھے آتش پر ان کا مقالہ بالاقساط نگار میں شائع ہوا۔انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی ہوئے ۔رشید احمد صدیقی کی وجہ سے ان کو علی گڑھ گزٹ میں نوکری ملی ۔اپنی ادارت کے زمانے میں *خلیل* نے اس گزٹ کو علمی اور ادبی اخبار بنا دیا ۔1953میں علی گڑھ میں لیکچرر ہوگئے ۔ 
خلیل الرحمٰن اعظمی۔

*سہیل عظیمؔ آبادی* کی پہل پر ان کی شادی *راشدہ بیگم* سے ہوئی ۔ *’’ترقی پسندتحریک‘‘* پرمقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ *یکم جون1978ء* کو *علی گڑھ* میں انتقال کرگئے۔
✧◉➻════════════
پیش کش: ایڈیٹرصداۓوقت

۔_____________
منتخب اشعار .
تو بھی اب چھوڑ دے ساتھ اے غمِ دنیا میرا
میری بستی میں نہیں  کوئی شناسا میرا
-----
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا
-----
*ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نمازِ عشق*
*یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو*
-----
لاکھ سادہ سہی تیری یہ جبیں کی تحریر
اس سے اکثر مرے افکار کو ملتی ہے زباں
-----
مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے
یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے
-----
نگاہِ مہرباں اٹھتی تو ہے سب کی طرف لیکن
نہیں واقف ابھی سب لوگ رمز آشنائی سے
-----
تیرے نہ ہو سکے تو کسی کے نہ ہو سکے
یہ کاروبارِ شوق مکرر نہ ہو سکا
------
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے
-----
یہ تمنا نہیں اب دادِ ہنر دے کوئی
آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
-----
مجھے عزیز ہے یہ نکہتوں کا گہوارا
خدا کرے نہ ملے تیرے غم سے چھٹکارا
-----
ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
-----
*یہ الگ بات کہ ہر سمت سے پتھر آیا*
*سر بلندی کا بھی الزام مرے سر آیا*
-----
ازل سے تھا وہ ہمارے وجود کا حصہ
وہ ایک شخص کہ جو ہم پہ مہربان ہوا
-----
ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی
ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط
-----
ہم سا ملے کوئی تو کہیں اس سے حال دل
ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال
-----
دنیا داری تو کیا آتی دامن سینا سیکھ لیا
مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا
-----
*پینا نہیں حرام، ہے زہر وفا کی شرط*
*آؤ اٹھا دیں آج مئے جاں فزا کی شرط*
-----
عارض پہ تیرے میری محبت کی سرخیاں
میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے
-----
*ہم اہلِ غم بھی رکھتے ہیں جادو بیانیاں*
*یہ اور بات ہے کہ سنیں لن ترا نیاں*
-----
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے
-----
*نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی*
*جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا*
-----
آج ڈوبا ہوا خوشبو میں ہے پیراہن جاں
اے صبا کس نے یہ پوچھا ہے ترا نام و نشاں
-----
*میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!*
*پھر صدا اپنی سنا دے  زندگی اے زندگی!*
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
              