Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 12, 2019

نٸی دہلی۔۔جمیتہ علمإ کے زیر اہتمام ”عید ملن“ تقریب کا اہتمام۔

نئی دہلی - 11 جون 2019۔۔۔صداٸےوقت۔
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی انسانی اقدار اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ اور مظاہرے کے طور پر جمعیۃعلماء ہند کے زیر اہتمام  نئی دہلی کے ہوٹل آئی ٹی سی موریہ میں ایک پر تکلف عید ملن تقریب منعقد ہوئی. جس کی صدارت  صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری  مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند  نے ادا کی. اس تقریب میں سبھی مذاہب کے رہ نما بالخصوص عیسائی دنیا کے معروف رہ نما کارڈینل اوسوالڈ گریسیاس، صدر کیتھولک بشپ آف انڈیا، ہندو سناتن دھرم کی عالمی شہرت یافتہ شخصیت چدا نند سرسوتی مہاراج صدر پرماد نکیتن رسی کیش،  بہائی رہ نما اے. کے. مرچنٹ، حامد انصاری سابق نائب صدر جمہوریہ ہند، سوامی اگنی ویش وغیرہ نے شرکت کی. کارڈینل اوسوالڈ اور سوامی چیدا نند سرسوتی مہاراج نے اس موقع پر اپنے خطاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین پیدا کردہ دوری کے خاتمے کے عزم کا مظاہرہ کیا اور جمعیۃ علماء ہند کے رہ نماؤں کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر نفرت، دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے خلاف یک جٹ لڑنے کا اعلان کیا.


اس موقع پر اپنے تحریری خطاب میں مولانا محمود مدنی نے سبھی مذاہب کے رہ نماؤں کا شکریہ ادا کیا اور اس تقریب کے انعقاد کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علما ء ہند کے عید کا مقصد بین الاقوامی انسانی اقدار کا فروغ
ہے خاص طور سے ہندستانی سماج کی  گنگا جمنی  تہذیب میں اور گہرا رچاؤ پیدا کرنا ہے۔ وہ تہذیب  جوکہ اس زمین پر بسنے والے لوگوں کے غم اور خوشیاں، رشتے ناتے، کھانا پینا، جشن اور سوگ اور یہاں تک کے معاشی ضرورتوں کو بھی ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے۔ ہمیں حوصلہ ہے کہ ہم اس روایت کو اپنے سانسکرتک ڈھانچے سے الگ نہیں ہونے دیں گے۔  دراصل ہمارے حوصلے کی جڑیں جمعیۃ علماء  ہند کی تاریخ اور روایت میں پیوست ہیں جو  جوڑتی ہے توڑتی نہیں۔ اپناتی ہے دھتکارتی نہیں۔ بناتی ہے بگاڑتی نہیں۔جو  بڑھ کر گلے لگانے کی تاریخ ہے ۔ امن اورایکتا  کی پر امید جدو جہد کی ایک پر جوش  داستان ہے۔

مولانامدنی نے کہا کہ عید چونکہ رمضان کے روزوں کا انعام ہے اس لیے رمضان اور روزے کی روح کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ذرا سا غور کریں تو صاف سمجھ میں آ جائیگا کہ رمضان  میں بھوک کا احساس  نادار اور مالدار کے درمیان دوری کو کم کرنے کا  سب سے کارآمد ذریعہ ہے ۔ بھوکے رہو تاکہ احساس ہو کہ بھوک کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ صبر کرو۔ معاف کرو۔ معافی مانگو۔ بھلاچاہو۔ایسا کرنے سے دوریاں مٹ جائینگی۔ قربتیں بڑھینگی۔ بد گمانیاں دور ہونگی۔ محبت کو پنپنے کا موقعہ ملیگا۔ ایک دوسرے کی کمزوریاں اور مجبوریاں نظر انداز کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ اور جس سوسائٹی کے ارکان ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنا، آڑے وقت میں کام آنا،  اور ایک دوسرے کو  اپنانا سیکھ لیں تو پھر ایسےسماج کا ذہنی سکون کسی  لگزری  کا محتاج نہیں رہتا۔
مولانا مدنی نے اپنے خطاب میں یاد کیا کہ رمضان کی آمد سے کچھ دن قبل عالمی سطح (international level)پر دو بڑے دل دھلا دینے والے دہشت گردی کے واقعات پیش آ ئے پہلے نیوزی لینڈ میں اور پھر  سری لنکا میں ۔ ان سے ہم نے دو اہم سبق سیکھے ایک تویہ کہ کچھ مٹھی بھر شیطانی افراد اور طاقتیں کس طرح مشترکہ انسانی سماج میں پھوٹ دالنے اور امن عالم کو غارتکرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔
دوسرا سبق ہم نے یہ بھی سیکھاکہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ سہان بھوتی اور پریم کے ذریعے انسان دشمن طاقتوں اور دہشت گردوں کو ناکام بنا سکتے ہیں،اس سلسلے میں ہم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی دانشمندانہ قیادت اور اقدامات کو تہ دل سے ستایش کرتےہیں ۔اسی طرح سری لنکا  اور ہندستان میں عیسائی مذہبی رہنمائوں کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمان رہنمائوں کے ساتھ مل کر ایسے نازک موقع پر ہمیں آپس میں نہ صرف جوڑے رکھا بلکہ عالمی امن کو بچایا۔ آج کی عید ملن تقریب میں  تمام مذاہب کے رہ نماؤں کی موجودگی ہمیں حوصلہ دیتی ہے ،کہ دہشت گرد شیطان ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ مذہبی کٹرپنتھی اور قتل و غارت گری  کا حل اینٹ کا جواب پتھر سے ہرگز نہیں ،بلکہ باہمی بات چیت امن و سلامتی اور رواداری کے ذریعہ ہی فرقہ پرستی اور تشدد کا مقابلہ کر سکتےہیں.
ہمیں فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ انسانی جذبے  سے کرنا ہے جیسا کہ ہمارے اکابرین کی روایت رہی ہے کہ انہوں نے ملک کی شانتی اور سلامتی کی حفاظت کرنے  میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی. متحدہ قومیت کا ان کا نظریہ جس کا ہمارے بڑوں نے صرف زبان سے پرچار نہیں کیا بلکہ  عمل کرکے دکھایا  جوسارے عالم کے لئے ماڈل ہے ۔ ہم بحیثیت ہندستانی  مسلمان اگر اس  پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو بہت سے  ہمارےمسائل خود بخود حل ہو جائینگے۔ اور ساری دنیا میں امن عالم کے بقا ء میں ہمارا  اہم کردار ہوگا  ہمارا پیارا وطن ہمیشہ ایکHarmonious Interdependence  پہ چلتا رہا ہے اور آگے بھی انہی Values کے سائے میں ترقی کرتا رہےگا.
مولانا مدنی کے اس خطاب کی سبھی شرکاء نے تائید کی.
اس تقریب میں مذکورہ شخصیات کے علاوہ مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیت علماء ہند، سادھوی بھاگوتی سرسوتی جی،پرمارتھ نکیتن، جناب سعادت اللہ حسینی،امیر جماعت اسلامی ہند،سیتارام یچوری،جنرل سکریٹری،سی پی آئی (ایم)،  بھوپندر یادو،جنرل سکریٹری ،بی جے پی عبدالواحد انگارا،سکریٹری ،انجمن خدام خواجہ،درگاہ اجمیر شریف، جناب احمد پٹیل،ایم پی،کنور دانش علی،ایم پی، فضل الرحمن قریشی ایم پی، اجیت ڈھوبال ،نیشنل سیکیورٹی ایڈوائیزر،منی شنکر ائیر،سنتوش باگروڑیا،چودھر ی اجیت سنگھ،عمران حسین،امانت اللہ خان،پروفیسر اخترالواسع،پروفیسر فیضان مصطفیٰ،ایس وائی قریشی،سابق چیف الیکشن کمشنر،قمر آغا،فادر ابراہیم میتھیو،فادرجروس ڈی سوزا،گیانی رنجیت سنگھ جی،ہیڈ پریسٹ گردوارا بنگلہ صاحب،افضل منگلوری،حکیم سراج الدین ہاشمی،کمال فاروقی،پنڈت این کے شرما،رشید قدوائی ،نغمہ سحرمعروف جرنلسٹ،روشن بیگ،ڈاکٹر سید محمد فاروق ،م افضل،مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، امیر جمعیت اہل حدیث ہند، مولانا محمد سفیان قاسمی،مہتمم دارالعلوم دیوبند (وقف)، مولانا جلال الدین عمری صاحب،سابق امیر،جماعت اسلامی ہند،نوید حامد،صدر، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورات، مجتبیٰ فاروق،سیکرٹری جنرل،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،  مولانا عبد الحمید نعمانی،جنرل سکریٹری،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت
اور دیگر اہم سماجی،سیاسی،صحافی شخصیات اور مختلف ممالک کے ڈپلومیٹ موجود تھے۔