Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 12, 2019

مولانا عبیداللہ سندھی کی مظلومیت کی داستان۔

از قلم مولانا محمد اسمٰعیل حسنی۔۔۔۔صداٸے وقت۔
     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سندھی رحمہ اللہ سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے، اسلام قبول کیا، دیوبند میں تعلیم پائی ، حسب فرمائش استاذ حضرت شیخ الہند سیاسیات میں داخل ہوئے استاذ ہی کے حکم پر جلاوطنی کی زندگی کابل، ماسکو، انقرہ اور یورپ کے مختلف مقامات میں گذار کر حجاز آئے دس بارہ برس حجاز میں حرم محترم کے زیر سایہ رہے اور اس کے بعد ہندوستان لوٹ آئے، مولانا سندھی رحمہ اللہ کی زندگی کبھی پرسکون نہیں رہی ، سیاسی تحریک و تحرک کے تمام نشیب و فراز دکھ، سکھ اور رنج و غم کی گھاٹیوں میں گذری، طویل سفر کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی ترقی کا راز جن چیزوں میں ڈھونڈ لیا ان پہ بیسیوں کتب، سیکڑوں رسائل اور ہزاروں لیٹریچرز لکھے جاچکے ہیں، بے شمار مسائل میں سے ایک بڑا مسائل مسلمانوں کی فکری جمود کو بھی قرار دیدیتے ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، ہماری درمیان یہ جمود اب بھی کسی نہ کسی صورت میں پائی جارہی ہے، یہی جمود ہمیں کسی بھی معاملے کی حقیقی دریافت تک پہنچنے نہیں دے رہی اس جمود کو توڑنے کےلیے حضرت سندھی نے مقدور بھر کوششیں کی، ہر بار استعماری قوتوں کے آلہ کار مولویوں نے ان کی تکفیر و تضلیل کی چنانچہ ان فتووں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اگر حضرت سندھی رحمہ اللہ کی سو سچ باتیں سامنے آئیں تو ہم ان پہ تذبذب کے شکار ہوں گے اور مخالف طبقہ ایک جھوٹ بولے تو ہمیں وہ سچ نظر آئے گا۔
مولانا سندھی کی تکفیر کئی بار کی گئی:

پہلی بار سن 1911 میں جب وہ اپنی استاذ حضرت شیخ الہند کی حکم پر ان کے اساسی فکر کو عملی جامہ پہنانے کےلیے دو نصاب انقلابی مقرر کیا، نصاب تعلیم قرآن اور کلید قرآن کے نام پر مشتمل تھا جن میں جہاد کی تلقین یوں کی گئی تھی کہ مسلمانان ہند پر اس وقت بھی جہاد اتنا ہی فرض ہے جتنا کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ کے پیرووں پر فرض تھا۔ حضرت سندھی کی اس قرآنی انقلابی تعلیمات سے انگریز گورنمنٹ نہایت ناخوش تھی۔ چنانچہ ان شعوری تعلیمات کا راستہ روکنے کےلیے ایک ہی طریقہ تھا کہ حضرت سندھی کو گمراہ کن عقائد کا حامل ثابت کیا جائے اور اس کاروائی کےلیے انگریز نے کچھ علماء کی خدمت حاصل کیں ان علماء نے حضرت شیخ الہند کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت سندھی کے ساتھ ایک مجلس رکھی اور اس میں دعوت تبلیغ پر بات ہوئی کہ تبلیغ کیسے اور کس درجے کی ہوتی ہے؟ اس مجلس میں ان علماء نے ایک سازش کی تحت حضرت سندھی پر کفر کا فتوی لگایا اور حضرت کے دیوبند مدرسہ آنے پر پابندی لگادی گئی۔ مذکورہ مجلس کے علماء میں سے ایک بہت بڑے عالم اور دارالعلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے 1928 میں اس سازش کو بھانپ لیا اور حضرت سندھی کے نام دکھ بھرا معافی کا پیغام بھیج دیا، اصل میں یہ جھگڑا ارباب اہتمام نے کھڑی کردی تھی، انگریز ارباب اہتمام کے ذریعہ مدرسہ کو غیر سیاسی رکھنا چاہتے تھے جبکہ حضرت شیخ الہند اور ان کے شاگردوں کا خیال تھا کہ دیوبند کا مدرسہ 1857 کی تلافی کےلیے صرف پچاس سال کی خاطر اسی حالت میں برقرار رکھنے کےلیے بنایا گیا تھا، مدرسہ کے قیام کا مقصد تعلیم نہیں آزادی تحریک کو زندہ رکھنا تھا۔
اس بارے میں مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"سچی بات تو یہی ہے کہ مولانا سندھی کے ساتھ ارباب اہتمام نے جو کچھ کیا وہ اسی جرم بے گناہی کے طور پر تھا کہ جس کا چسکا ان کے اندر خود حضرت شیخ الہند نے پیدا کیا تھا یعنی انگریز دشمنی، جسے ارباب اہتمام ایک لمحہ کےلیے برداشت کرنے کو تیار نہ تھے، لیکن براہ راست اس پر ایکشن لینے میں بہت سے خطرات تھے اور سب سے بڑا خطرہ خود حضرت شیخ الہند کی ذات گرامی تھی۔ اس لیے علمی مسئلے کا شاخسانہ کھڑا کرکے مظلوم حضرت سندھی کو ہٹایا گیا۔"
معاصر کو بدظن کرکے
تاج برطانیہ کے خدمت گذاروں نے مولانا سندھی کی شعوری تعلیمات کو تقسیم برصغیر کے منصوبہ میں حائل سمجھا تو 1912 میں ایک مرتبہ پھر قدیم تکفیری واردات کو استعمال کرتے ہوئے حضرت سندھی کے افکار و نظریات پر جرح شروع کردی، مسلم لیگی مولویوں اور ان کے ہم خیال حضرات سے ضمیر کے بدلے یہ خدمات حاصل کیں، ان فتووں کے پیچھے اصل کردار سامراج کی سرمایہ داریت تھی استعمال مولوی ہورہے تھے۔
جلاوطنی کے بعد پہلا تکفیری مرحلہ:
منکرین حدیث نے اپنے ماہنامہ طلوع اسلام کے 16دسمبر 1941 کے شمارے میں "حضرت شاہ ولی اللہ اور قرآن و حدیث" کے عنوان سے مضمون شایع کرکے یہ کوشش کی ہے قرآن و حدیث، فقہ اور تصوف سے ہمارے خیالات امام شاہ ولی اللہ کے خیالات جیسے ہیں، پرویزیوں نے قارئین کو دھوکہ دینے کےلیے  حضرت سندھی کے ایک مقالہ (جو الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر میں شایع ہوچکا تھا) بھی شامل کردیا، ایک طرف شاہ صاحب اور سندھی صاحب جو اہل سنت کے فقہ حنفی کے تحت چار چیزوں قرآن و سنت۔ اجماع اور قیاس کو شریعت کی بنیاد سمجھتے ہیں دوسری طرف قرآن کے علاوہ بقیہ ماخذ کو نہ ماننے والے خیالات کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں؟
پرویزیوں عام تعلیم یافتہ طبقہ اور بالخصوص اہل علم طبقہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ پرویزیوں کو نظرٙٙا اور عقیدتٙٙا امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے نقش قدم کے راہی سمجھے جائیں، چنانچہ اس تاثر کو زائل کرنے کےلیے مولانا ظفر احمد تھانوی نے ماہنامہ "الفرقان بریلی" میں 1942 کو ایک مفصل تنقیدی مضمون لکھا، مولانا عثمانی کا مضمون واقعی بہترین ردعمل کے طور پر تھا مگر قارئین یہ سمجھ بیٹھے کہ مولانا ظفر احمد صاحب یہ مضمون حضرت سندھی کی فکری تعلیمات کے خلاف ہے، جس کی تردیدی وضاحت مدیر الفرقان مولانا منظور نعمانی کے نوٹ کے ساتھ شایع ہوئی تھی، مولانا نعمانی فرماتے:
"ہم اپنے ناظرین کرام کو یہ بتلانا مناسب بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ "ادارہ طلوع اسلام" نے مولانا سندھی کے مقالہ کے جو اقتباسات اپنے اس مضمون میں پیش کیے ہیں ان کے انتخاب اور ترتیب میں بڑی ماہرانہ چالاکی اور یوشیاری سے کام لیا ہے اور چونکہ مولانا ظفر احمد عثمانی کے پیش نظر اس مضمون کے لکھتے وقت مولانا سندھی کا اصل مقالہ نہیں تھا اس لیے وہ یہ اندازہ نہیں فرماسکے ہیں کہ فی الحقیقت اس میں کتنی بات مولانا سندھی کی ہے اور کتنی بات "ادارہ طلوع اسلام کی پیدا کی ہوئی ہے۔"
دوسرے گروہ یہی کوشش کرتے ہیں کس طرح ایک دانا شخص کو اپنا ثابت کیا جائے، اس کےلیے وہ ایڑی چھوٹی کا زور لگالیتے ہیں مگر ہمارا عمومی مزاج اور علمی مذاق یہ رہ گئی ہے کہ کس طرح کسی دانا کے بارے میں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہم سے نہیں، حقیقت میں یہ ایک علمی کمزوری ہوتی ہے کہ اس کے بلند افکار تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے تو انہیں ثابت نہیں کرپاتے ہیں نتیجتا لاتعلقی کا اعلان کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
تکفیر کا دوسرا مرحلہ:
مولانا سندھی جب وطن واپس آئے تو مودودیوں نے ان کے علمی اور سیاسی نکات پر الفاظ و اشارات کی سنگ باری شروع کردی، یہ وہ دور ہے جو ان کے امام مولانا ابوالاعلی مودودی "مسئلہ ملکیت زمین" لکھ چکے تھے، جس میں انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کو عین اسلام قرار دیا جائے، چونکہ مولانا سندھی کے نظریات سرمایہ دار شکن تھے اس لیے انہیں ہدف تنقید بنانے کو سیاسی ضرورت سمجھا گیا۔ 1939ء میں مولانا سندھی نے وطن واپس آکر مسلمانان ہند میں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حکمت پر مبنی قرآنی تعلیمات کو بنیاد بناکر دینی سیاست متعارف کرایا جس میں سیاسی مفادات دین کے دائرہ میں رہتے ہوئے حاصل کرنے کی حکمت عملیوں پر زور دے رہے تھے جبکہ مولانا مودودی کے سیاسی دین میں مفادات کی حصول کےلیے ناجائز تعبیرات کی گنجائش بھی موجود تھی۔ جس کے نتیجے میں انبیاء کرام علیہم الصلوات والسلام اور امہات المومنینؓ پر الزامات لگاکر انہیں تختہ مشق بنایا جاسکتا تھا، اس لیے امت مودودیہ کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ مولانا سندھی کے افکار و نظریات کو نقطئہ اعتراض بناکر ہی اپنی سیاسی دین کو تحفظ دیا جا سکتا ہے اور اسی میں انہوں نے عافیت سمجھی۔
تکفیر کا تیسرا مرحلہ:
فتنہ مودودیت اور فتنہ پرویزیت کی کوششیں جب غیر موثر ثابت ہوئیں تع فکر مسعودیت نے سر اٹھایا، فکر مودودیت کے ترجمان مولانا مسعود عالم ندوی نے ستمبر 1944 کو بقول مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہ اس قساوت قلب کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے کہ ٹھیک اسی مہینہ میں جبکہ مولانا سندھی کے انتقال پر ملال سے ان کے ہزاروں عقیدت مندوں اور شاگردوں کے دل چھلنی ہورہے تھے انتہائی غضب آلود اشتعال انگیز اور ہیجان پرور لب ولہجہ میں تنقید شائع کی جاتی ہے اور معلوم نہیں کیوں ڈیڈھ سطریں تعزیت کے بھی اسی میں لکھ دی گئی ہیں جس پر مولانا سندھی کی روح کہہ سکتی ہے۔
ہمارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی
مولانا مسعود عالم ندوی کو حضرت سندھی پر تنقیدی جائزہ لکھنے سے پہلے اپنے مولانا مودودی کے افکار کا جائزہ لینا چاہیے تھا کہ وہ کس حد تک دین اسلام کے تعلیمات کے موافق ہیں؟  کیا ان کے علم میں مولانا مودودی کے وہ نظریات نہیں تھے جن کے باعث انبیاء کی عصمت تار تار اور صحابہ کرام کی نظیف و نفیس دامنوں کو داغدار کیا گیا ہے؟
(مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد ص 70 سے 88 تک سے اقتباس)۔