Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 28, 2019

مذہبی صفحہ۔۔۔۔۔اولاد کی تربیت سے غفلت مت برتیٸے!!!


        محمد قمرالزماں ندوی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                              *علامہ* *اقبال* مرحوم کو اس قدر شہرت، مقبولیت، بلندی ،عروج اور نیک نامی کیسے اور کیوں کر حاصل ہوئ اس کے پیچھے ان کے والدین اور خاص طور ان کی والدہ کی بے مثال تربیت کا دخل تھا ۔ ان کی شخصیت عہد حاضر کے لئے ایک معجزہ سے کم نہ تھی انگریزی کا گریجویٹ، قانون کے ماہر،کامیاب بیرسٹر، علوم دینیہ کا آشنا شعر و شاعری کا بلبل ،اسلام کے ترجمان اور مبلغ اور قرآن کے واقف اسرار تھے،حقیقت میں علامہ اقبال رح اسلام کے سچے نام لیوا تھے،اللہ، رسول کے بڑے شیدائ اور عاشق تھے،اسلام کے بقا و استحکام اور اس کی عظمت و سربلندی کے لئے بڑے کوشاں تھے اور مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کے خواہاں تھے اور ملک و ملت کے عروج کے طالب تھے ۔ 

          علامہ اقبال مرحوم کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ اقبال مرحوم کی شخصیت سازی میں ان کی والدہ ماجدہ ۔ بیگم امام بی۔ کا بڑا دخل ہے،ان کی امی جان کو ان کے  ابو ۰۰ شیخ نور الدین ۰۰ کی آمدنی پر شبہ تھا وہ ان کی امدنی کو مشکوک اور پورے طور پر حلال نہیں سمجھتی تھیں ۔ کیونکہ ان کے والد عدالت میں پیشکار یا سرکاری وکیل تھے ۔ اور وکالت کے پیشہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں ۔ آج بھی یہ پیشہ ہر طرح سے لوگوں کی نگاہ میں مشکوک ہی ہے کیونکہ یہاں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے یہ ایک طرح سے جھوٹ فراڈ اور مکر و فریب والا ذریعئہ معاش اور آمدنی کا ذریعہ ہے ۔ اسی لئے تو ایک شاعر نے ایسے ہی وکیلوں کے لئے کہا تھا ۔
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے
لیکن علامہ اقبال مرحوم کے والد عام وکیلوں کی طرح نہیں تھے انتہائی دین دار اور مذھبی تھے نماز اور تلاوت کے حد درجہ پابند تھے ۔ علامہ اقبال کے اندر قرآنی بصیرت اور اس کے اندر قرآن مجید سے شغف اور تدبر پیدا کرنے کا ذریعہ خود ان کے والد محترم ہی تھے کہ انہوں نے اقبال مرحوم سے کہا تھا کہ بیٹا!
تم قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو کہ گویا قرآن مجید تم پر ہی نازل ہو رہا ہے اور پھر ہونہار بیٹے نے باپ کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دکھایا۔
لیکن ان تمام خوبیوں اور نیکیوں کے بعد بھی اقبال کی والدہ کو اپنے محبوب شوہر کی آمدنی پر شک تھا اور وہ اس پیسے کو کہیں اور غریبوں  و  یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کردیتی تھیں اور اس آمدنی کی ایک پائ اور روپیہ اقبال پر خرچ نہیں کرتی تھیں ۔ اور احتیاط کا حال یہ تھا کہ علامہ اقبال کی پیدائش کے بعد ان کی ماں نے ان کو اپنا دودھ پلانا مناسب نہ سمجھا چنانچہ انہوں نے جائز طریقوں سے حاصل شدہ اپنا زیور بیچ دیا اور ایک بکری خرید لی اور علامہ اقبال کو اس کا دودھ پلانے لگیں،مزید براں یہ کہ اس مثالی خاتون نے علامہ اقبال کی تعلیم و تربیت اور دیگر اخراجات کی ذمہ داریاں اپنے جان ناتواں پر ڈال لیں، سوت کاٹتی تھیں اور اس کی آمدنی سے علامہ کی تمام ضروریات پوری کرتیں اور تعلیم کا خرچ دیتی تھیں، پرورش و پرداخت میں ان کی اس احتیاط نے اور تعلیم و تربیت میں ان کی خاص فکر و انداز نے اقبال کو واقعتا علامئہ عصر،مفکر اسلام اور شاعر مشرق بنا دیا اور علامہ اقبال کی سعادت مندی دیکھئے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کو اپنی والدہ محترمہ کا فیض نظر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آداب و اخلاق تعلیم گاہوں سے نہیں ماوں کی گود سے حاصل ہوتے ہیں ۔
علامہ اقبال نے اپنی والدہ بلکہ ساری ہی ایسی خواتین کو جنھوں نے اپنی اولاد اور لخت جگر کی ایسی تربیت کی ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ۔
تربیت سے تری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میں میرے اجداد کا سرمائہ عزت ہوا
اور ایک دوسرے شعر میں ماں کی ان مثالی تربیت کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ۔
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے بطن سے پھوٹے شرار افلاطوں
اور فارسی اشعار میں بھی اپنی والدہ صاحبہ کی اس تعلیم وتربیت کا بڑے اچھے انداز میں اقرار و اعتراف کیا ۔
مراد او ایں خرد پر در جنونے
  نگاہ  مادر  پاک  اندر   ونے
زمکتب چشم و دل  نتواں گرفتن
کہ مکتب،نیست جز سحر و فسونے
علامہ اقبال کی والدہ محترمہ کی تعلیم و تربیت کے ان مثالی نمونوں اور آدئیل کو اج کے دور میں اپنانے اور خاص طور پر خواتین کو اس پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے اگر وہ چاہتی ہیں کہ ان کی اولاد اسلام کا سچا اور صحیح سپوت اور ترجمان بنے ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو بھی ایسی ہی اپنی اولاد کی تعلیم و  تربیت کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔