تاریخ ولادت- ١٥؍جون؍١٩٢٧
*ناول نگار، اردو میں اول سائنسی فکشن نگاری کے مشہور اور معروف شاعر” اظہار اثرؔ “ ...*
_________________________
پیش کش: صداۓوقت/آن لاٸن نیوزپورٹل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________________________
پیش کش: صداۓوقت/آن لاٸن نیوزپورٹل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
*اظہار اثرؔ* پہلے ایسے ادیب ہیں جنہوں نے اردو میں تسلسل کے ساتھ سائنسی فکشن لکھاہے۔ *’آدھی زندگی‘ ’مشینوں کی بغاوت‘ اور ’بیس ہزار سال بعد‘* جیسے سائنسی ناول لکھ کر انہوں نے اردو میں سائنسی فکشن کی روایت کو مضبوط کیا۔ ان کی شاعری بھی ان کے خیال اور فکر کی اسی جہت کو نمایاں کرتی ہے، اس میں سائنسی علم و آگہی سے حاصل ہونے والی بصیرت کے نقوش ملتے ہیں۔
*اظہار اثر* *کرت پور بجنور* اترپردیش میں *١٥ جون ١٩٢٧ء* کو پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور تلاش معاش میں لگ گئے۔ دہلی میں رہ کر ایک لمبے عرصے تک آزادانہ طور پر صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔ *’بانو‘* اور *’چلمن‘* جیسے رسالوں کی ادارت کی۔ *’ہم قلم‘* کے نام سے ایک پندرہ روزہ ادبی رسالہ جاری کیا اور ایک ڈائجسٹ بھی نکالا۔ *اظہار اثر ؔ* کے جاسوسی، سائنسی اور عوامی پسند کے موضوعات پر مشتمل ناولوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔
*اظہار اثرؔ* پہلے ایسے ادیب ہیں جنہوں نے اردو میں تسلسل کے ساتھ سائنسی فکشن لکھاہے۔ *’آدھی زندگی‘ ’مشینوں کی بغاوت‘ اور ’بیس ہزار سال بعد‘* جیسے سائنسی ناول لکھ کر انہوں نے اردو میں سائنسی فکشن کی روایت کو مضبوط کیا۔ ان کی شاعری بھی ان کے خیال اور فکر کی اسی جہت کو نمایاں کرتی ہے، اس میں سائنسی علم و آگہی سے حاصل ہونے والی بصیرت کے نقوش ملتے ہیں۔
*اظہار اثر* *کرت پور بجنور* اترپردیش میں *١٥ جون ١٩٢٧ء* کو پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور تلاش معاش میں لگ گئے۔ دہلی میں رہ کر ایک لمبے عرصے تک آزادانہ طور پر صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔ *’بانو‘* اور *’چلمن‘* جیسے رسالوں کی ادارت کی۔ *’ہم قلم‘* کے نام سے ایک پندرہ روزہ ادبی رسالہ جاری کیا اور ایک ڈائجسٹ بھی نکالا۔ *اظہار اثر ؔ* کے جاسوسی، سائنسی اور عوامی پسند کے موضوعات پر مشتمل ناولوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔
اظہار اثرؔ کے منتخب کلام .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار اثر |
۔
نکھرے تو جگمگا اٹھے بکھرے تو رنگ ہے
سورج ترے بدن کا بڑا شوخ و شنگ ہے
نکھرے تو جگمگا اٹھے بکھرے تو رنگ ہے
سورج ترے بدن کا بڑا شوخ و شنگ ہے
تاریکیوں کے پار چمکتی ہے کوئی شے
شاید مرے جنونِ سفر کی امنگ ہے
شاید مرے جنونِ سفر کی امنگ ہے
کتنے غموں کا بار اٹھائے ہوئے ہے دل
اک زاویہ سے شیشۂ نازک بھی سنگ ہے
اک زاویہ سے شیشۂ نازک بھی سنگ ہے
صحرا کی گود میں بھی ملیں گے بہت سے پھول
یہ اپنے اپنے طور پہ جینے کا ڈھنگ ہے
یہ اپنے اپنے طور پہ جینے کا ڈھنگ ہے
*شاید جنوں ہی اب تو کرے رہبری اثرؔ*
*ہم اس مقام پر ہیں جہاں عقل دنگ ہے*
*ہم اس مقام پر ہیں جہاں عقل دنگ ہے*
میرا جنوں ہی اصل میں صحرا پرست تھا
ورنہ بہار کا بھی یہاں بندوبست تھا
ورنہ بہار کا بھی یہاں بندوبست تھا
آیا شعورِ زیست تو افشا ہوا یہ راز
تیرے کمالِ فن کی میں پہلی شکست تھا
تیرے کمالِ فن کی میں پہلی شکست تھا
اوروں نے کر لیے تھے اندھیروں سے فیصلے
اک میں ہی سارے شہر میں سورج بدست تھا
اک میں ہی سارے شہر میں سورج بدست تھا
اک چیختے سکوت نے چونکا دیا مجھے
میں ورنہ اپنے حال میں مدت سے مست تھا
میں ورنہ اپنے حال میں مدت سے مست تھا
آئینہ جب دکھایا تو یہ راز بھی کھلا
جتنا بھی جو بلند تھا اتنا ہی پست تھا
جتنا بھی جو بلند تھا اتنا ہی پست تھا
*تخلیق کل کے لمحۂ اول میں اے اثرؔ*
*میں زندگی کی پہلی ہمک پہلی جست تھا*
*میں زندگی کی پہلی ہمک پہلی جست تھا*