Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 20, 2019

اس تصویر کو کون بھول سکتا ہے۔؟

اس تصویر کو کون بھول سکتا ہے؟
تحریر /از اسامہ طیب/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تصویر کو نام دیا گیا تھا The Vulture And The Little Girl
اسے ایک دوسرے نام The struggling Girl کے نام سے بھی جانا گیا.
اس تصویر سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ ایک گدھ ایک بھوکی اور قریب المرگ بچی کے مرنے کا انتظار کررہا ہے تاکہ اسے نوچ کر کھاسکے. یہ تصویر ایک ساؤتھ افریقی فوٹو جرنلسٹ Kevin Carter نے 1993 میں سوڈان میں قحط کے دوران کھینچی تھی. یہ تصویر دنیا میں اتنی مشہور ہوگئی کہ انہیں اس تصویر کی وجہ سے  Pulitzer Prize سے نوازا گیا. لیکن کارٹر زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکا اور اپنے اس اعزاز کا لطف زیادہ دنوں تک نہیں اٹھا سکا، کیونکہ ڈپریشن کا شکار ہوکر اس نے خود کشی کرلی.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیوں ہوا؟
دراصل جب وہ اس ایوارڈ کے پانے کا جشن منارہا تھا تو ساری دنیا کے میڈیا چینلز پر اس کا ذکر ہورہا تھا اور اس کی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی تھی. تبھی وہ واقعہ ہوا جس کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر کارٹر نے خودکشی کرلی. ہوا یوں کہ ایک انٹرویو کے دوران کسی نے کارٹر سے پوچھ لیا کہ آپ نے تصویر تو بہت زبردست لی لیکن یہ بتائیں کہ اس بچی کا کیا ہوا؟
کارٹر یہ سوال سن کر مبہوت رہ گیا، پھر اس نے سنبھل کر جواب دیا کہ یہ دیکھنے کے لئے وہ رک نہیں سکا کیونکہ اسے فلائٹ پکڑنی تھی. یہ جواب سن کر سوال پوچھنے والے نے کہا کہ اس دن وہاں دو گدھ تھے، جن میں سے ایک کے ہاتھ میں کیمرا تھا.
اس واقعہ نے کارٹر پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ ڈپریشن میں چلا گیا اور آخر کار خوکشی کرلی.
کسی بھی کام میں سب سے پہلے انسانیت کو مقدم رکھنا چاہیے. کارٹر آج زندہ ہوتے اگر وہ بھوک کی شکار اس بچی کو یونائٹڈ نیشن کے فیڈنگ سنٹر تک پہنچا دیتے جہاں وہ بچی پہنچنے کی کوشش کررہی تھی.
آج اس حادثہ کے 26 سال کے بعد یہ کیمرے والے گدھ مظفر پور کے اسپتالوں میں منڈلا رہے ہیں، تصویر کھینچ رہے ہیں، اپنے گندے جوتوں اور کیمروں کے ساتھ ہنگامہ کرتے ہوئے اور شور مچاتے ہوئے اسپتال کے آئی سی یو میں دندناتے پھر رہے ہیں. بچوں کی جان بچانے کی جد و جہد میں لگے ڈاکٹروں پر غصہ نکال رہے ہیں اور انہیں نصیحتیں کررہے ہیں. ان گدھ صفات میڈیا کے افراد کو بچوں سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہ صرف چینل کی T. R. P بڑھانے کے لئے خبروں کو توڑ مروڑ کر اور مرچ مصالحہ لگا کر عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں. کیون کارٹر میں تھوڑی شرم و حیا بچی تھی، اس کا ضمیر زندہ تھا، اور اس کے اندر انسانیت کی کچھ رمق باقی تھی تو اسے اپنی اس غیر انسانی حرکت کا احساس ہوگیا، یہ الگ بات ہے کہ اس نے اس غلطی کے مداوا کی کوشش کرنے کے بجائے خوکشی کرنے کا غلط اقدام کیا. لیکن ہمارے ملک کی میڈیا انسانیت سے بالکل عاری ہوچکی ہے. انجنا اوم کیشپ اور اس جیسے طاقت کے پجاری صحافیوں نے عوام کے مسائل کو اٹھانا یکسر بند کردیا ہے. اس وقت جب کہ سوالات سرکار سے ہونے چاہیے تو انجنا اوم کیشپ سوالات ڈاکٹروں سے کررہی ہیں. اگر واقعی ان میں بچوں کا سچا درد ہوتا تو یہ بہار کے وزیر صحت منگل پانڈے سے سوال کرتیں، اگر یہ صاحبہ واقعی بچوں کی اموات سے دردمند ہوتیں تو مرکزی وزیر صحت جگت پرکاش سے سوالات پوچھتیں.
مگر میڈیا کے ان کارندوں نے ایمان و ضمیر تو بیچا ہی تھا اب لگتا ہے انسانی صفات سے بھی عاری ہوچکے ہیں.
اسامہ طیب
19/جون/ 2019