Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 20, 2019

بریلی کے بازار میں!!!ہشتم (8 ویں ).قسط۔



مولانا فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*مدرسہ عربیہ کاشف العلوم بریلی کی زیارت*
شکستہ دل اور افسردہ دماغ کے ساتھ مرحوم مدرسہ مصباح العلوم کی قبر سے واپس ہوا تو مولانا شکیل احمد صاحب کے ساتھ میں اگلے پڑاؤ پر چل پڑا۔ دو تین کلو میٹر ہی بائک دوڑی ہوگی کہ مولانا نے کہا: اتر جائیے۔ میں نے پوچھا: یہ کون سا مقام ہے؟ کہنے لگے: یہ مدرسہ عربیہ کاشف العلوم ہے۔ یہ دیکھیے اس کی مسجد ہے اور مدرسہ مغرب سے جنوب کی طرف تھوڑا مڑ کر 50 قدم اندر ہے۔ اب ہم مدرسے کے *باب الداخلہ* پر تھے۔ یہاں بڑی تختی پر مدرسے کا نام اور نئی تعمیر کی تاریخ درج تھی ۔ رہبر صاحب نے بتایا کہ یہ دیوبندی ادارہ ہے اور زبردست خدمات انجام دے رہا ہے۔ سہ پہر کے 5 بج رہے تھے، میں نے پوچھا کہ اس کے مہتمم صاحب سے ملاقات ممکن ہے؟ کہنے لگے: ابھی تعطیل چل رہی ہے، ملاقات کا امکان نہیں۔ ہم اندر داخل ہوئے تو کمرہ ٹھنڈا تھا اور کولر چل رہا تھا۔ یہیں ایک نوجوان 
فاضل تشریف فرما تھے۔ 

رہبر صاحب نے بتایا کہ یہ فضیل احمد ناصری ہیں اور آپ کے ادارے کی زیارت کے لیے آئے ہیں، مولانا ایک دم چہک گئے اور مصافحہ کے ساتھ معانقہ بھی کیا۔ کہنے لگے: آپ کا نام بہت سنا تھا اور آپ کی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں، میں آپ کے مداحین میں سے ہوں۔ اپنے تئیں حسنِ ظن کے یہ جملے سن کر میں شرمسار ہو گیا۔ مدرسے کے احوال پوچھے۔ یہ مولانا اسجد قاسمی بریلوی تھے، ادارے کے مدرس اور مفتی۔ 2016 میں دارالعلوم سے فراغت پائی۔ معلوم ہوا کہ یہ مہتمم زادے بھی ہیں۔ بڑے خلیق و نرم خو۔ لب و لہجہ میں شیرینی اور تواضع۔ بریلی کی گرمی بڑی شدید تھی۔ دھوپ کی تمازت اور فضا میں پھیلی حبس نے مجھے پسینہ پسینہ کر دیا تھا، غالب کا یہ شعر تھوڑی سی ترمیم سے رہ رہ کر یاد آ رہا تھا:
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزشِ ارضِ بریلی اور ہے
ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ دیارِ بریلی جہنم کی سرحد پر واقع ہے۔ انہوں نے ٹھنڈا میٹھا پانی پلایا، میں نے سیر ہو کر پیا۔ طبیعت خوش ہو گئی۔ کہنے لگے: چلیے اپنے والد صاحب سے ملاتا ہوں۔ اب ہم دوسرے منزلے پر گئے اور ایک کمرے میں داخل ہو گئے۔ ایک بزرگ کو دیکھا کہ پورے تیقظ کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے اور خوب ضیافت فرمائی۔ یہ تھے حضرت مولانا محمد میاں قاسمی۔ جو اس ادارے کے بانی بھی ہیں اور مہتمم بھی۔ بریلی کے ہی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل۔ 1973 میں ان کی فراغت ہے۔ مدرسہ چلہ امروہہ میں برسوں شیخ الحدیث رہے۔ فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظرشاہ کشمیریؒ کا خط ان کے پاس آج بھی ہے، شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ کی تقرری دارالعلوم میں ہو گئی ہے، خط بھیج دوں گا، آپ آ جائیں۔ قسمت کی خوبی دیکھیے، ادھر خط پہونچا اور ادھر دارالعلوم کا مشہورِ عالَم قضیۂ نامرضیہ پیش آگیا۔ شاہی مکتوب اپنا اثر نہ دکھا سکا، کیوں کہ شاہ صاحبؒ خود ہی گردشِ دوراں کا شکار ہو چکے تھے۔ مولانا موصوف کہنے لگے کہ شاہ صاحب مجھے بہت مانتے تھے، میں نے ان سے جلالین اور ابنِ ماجہ پڑھی ہے۔ جامعہ کاشف العلوم میں وہ بھی تشریف لا چکے ہیں۔
میں نے مدرسے کے احوال دریافت کیے تو انہوں نے بڑی تفصیل سے ان پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے دارالعلوم میں طالب علمی کے دور میں ایک خواب دیکھا تھا، جس سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ خواب یہ تھا کہ میں مواجہہ شریف پر حاضر ہوں اور حضورﷺ اپنے روضے میں بے چینی سے کروٹیں بدل رہے ہیں۔ اس خواب کا تذکرہ میں نے اپنے ایک استاذ سے کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر دی کہ پیغمبرﷺ بریلی میں پھیلی ہوئی بدعات و خرافات اور شرک و ترکِ سنت سے سخت پریشان ہیں اور تمہیں اشارہ کر رہے ہیں کہ بریلی جا کر شرک و بدعات کے خلاف محاذ سنبھال لو! عجیب بات یہ کہ مولانا محمد میاں صاحب نے جب پہلا حج کیا تو مواجہہ شریف پر ان کی حاضری ویسی ہی تھی، جیسی خواب میں ہوئی تھی۔
مولانا نے حکیم صدیق مرحوم کا ذکرِ خیر بھی چھیڑ دیا۔ یہ اصلاً امروہہ کے تھے اور شہرِ بریلی کے با اثر افراد میں۔ حکیمِ حاذق ہونے کے ساتھ علم دوست اور علما نواز بھی۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ جب بھی بریلی آتے تو ان کے یہاں قیام کرتے۔ دیوبند کی سرکردہ علمی شخصیات کے بیش تر یہی میزبان ہوتے۔ مولانا محمد میاں صاحب کہتے ہیں کہ: ایک دن حکیم صاحبؒ نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے بریلویت کو یہاں زیرِ زمین کر دیا تھا، لیکن اپنوں کی بے اعتنائی نے اسے پھر مضبوط کر دیا۔ مدرسہ اشاعت العلوم بریلی اگر اس سلسلے میں چستی دکھاتا تو آج بریلی بدعات کا گڑھ نہ رہتا۔ اس کی کچھ تفصیل آگے آئے گی۔
مدرسہ کاشف العلوم کو دیکھا تو طبیعت خوش ہو گئی، ایسا لگا جیسے میں اپنے گھر میں آیا ہوں۔ اس کی ترقیاں دیکھ کر دل سے دعا نکلی۔ بریلی میں دیوبند کا سب سے بڑا قلعہ اس وقت یہی ہے۔ 1980 میں اس کی بنیاد پڑی۔ اس کی تین بلڈنگیں ہیں اور کل 80 کمرے۔ 24 اسٹاف پر مشتمل اس کا عملہ ہے۔ 400 طلبہ یہاں تعلیم پا رہے ہیں۔ لائبریری بھی دیکھی، الحمدللہ ضروری موضوعات پر کافی کتابیں مہیا ہیں۔ مشکوۃ شریف تک کی یہاں تعلیم ہوتی ہے۔ مشکوۃ مدرسے کے مہتمم حضرت مولانا محمد میاں صاحب پڑھاتے ہیں۔
سچ کہیے تو اس ادارے کا وجود سراپا کرامت ہے۔ جس رقبے میں یہ ادارہ آباد ہے، خالص سکھوں کا علاقہ تھا، شان دار مکانات یہاں تعمیر تھے۔ مولانا نے بڑی حکمت سے مدرسے کے لیے محنتیں کیں اور سکھوں کے مکانات خریدتے چلے گئے۔ اب یہاں صرف ایک بڑا گرودوارہ ہے، کوشش ہے کہ اسے بھی خرید کر داخلِ ادارہ کر دیا جائے۔
یہ مدرسہ بلاشبہہ اشاعتِ سنت کا فریضہ بطرزِ احسن نبھا رہا ہے۔ اپنی روشن خدمات کے پیشِ نظر اکابرِ دیوبند کی آنکھ کا تارا ہے۔ مہتممِ دارالعلوم اور شیخ الحدیثِ دارالعلوم سمیت علمائے دیوبند یہاں آتے رہتے ہیں۔ محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئیؒ یہاں برابر تشریف لاتے۔ ادارہ سرکاری الحاق سے پاک ہے، بریلی میں بریلویت کو کوئی زندہ درگور کر سکتا ہے تو یہی مدرسہ کاشف العلوم ہے۔ پوری امت پر لازم ہے کہ اس کی ترقیات میں دل کھول کر حصہ لے۔
گھڑی کی سوئی اب ساڑھے پانچ بجا رہی تھی، وقت کم تھا، مولانا سے اجازت لی اور خوش گوار یادوں کے ساتھ اگلے پڑاﺅ کے لیے روانہ ہو گیا ۔
[جاری]