Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 19, 2019

شاعروں پر ایک مضمون، پٹھان نامہ سے ایک اقتباس

صداٸے وقت/ ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعروں کے بارے میں قران کہتا ہے کہ ” شعراءکا اتباع وہ لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں۔ کیا تم نے دیکھا کہ وہ بے مقصد ادھر اُدھر گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں وہ نہیں کرتے”۔ اس کی مزید تفصیل دیکھنا ہو تو علامہ ابن جوزی کی مشہور و معروف کتاب ” تلبیس ابلیس ” ملاحظہ فرمائیں :” شاعروں پر ابلیس نے تلبیس ڈالی کہ اپنے جی میں مغرور ہوگئے اور سمجھا کہ خدا نے انہیں ایسی دانائی عطا کی ہے جس سے دیگر لوگ محروم ہیں۔ لہذا تم دیکھتے ہو کہ شاعر لوگ کیوں کر جنگل میں سرگرداں پھرتے ہیں۔جھوٹ بولتے، بہتان لگاتے، ہجو کرتے، آبروریزی کرتے اور اپنے اوپر فحش و بدکاری کا اقرار کرتے ہیں۔ ان کے حالات میں سے کمتر یہ ہے کہ شاعر کسی آدمی کی مدح کرتا ہے تو اس آدمی کو یہ خوف ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو یہ ناخوش ہوکر میری ہجو کرے تو چار و ناچار اس کو دے کر راضی کرتا ہے۔ بکثرت شعراء کو دیکھو کہ اپنے آپ کو ادیب سمجھتے اور ریشم کا لباس پہن کر حد سے زیادہ جھوٹ بولتے اور نقل کرتے ہیں کہ ہم لوگ جلسہ شراب میں ساقی گل اندام کے ہاتھوں سے مےنوشی کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے جناب میں خالی عبادت آرائی کچھ کام نہیں کرسکتی۔ شاعروں کی عمومََا یہی خصوصیات ہے کہ بھیک مانگتے ہیں، گردش چرخ اور تقدیر کی مذمت کرتے ہیں اور کفر کے کلمات بکتے ہیں۔”قرآن میں جن تین باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ شعراء کا اتباع گمراہی میںڈال دیتا ہے، دوسرا یہ کہ وہ بے مقصد ہیں اور تیسرا یہ کہ وہ بے عمل ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ یہ سورۃ اس وقت نازل ہوئی تھی جب دشمنوں نے آنحضرت صلیِ اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہنا شروع کیا تھا اور شاعروں کا نمونہ اس وقت کے معاشرے کے سامنے عہد جاہلیت کے شعراء تھے۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ قرآن اس کی وضاحت اور شاعری اور قرآن کی آیات میں امتیاز پیدا کرتا۔ اس زمانے معاشرتی حالات ابتر تھے۔ شعراء راہنما بن گئے تھے۔ 

زندگی کی ساری اقدار میں مرکزی اہمیت حاصل کرلی تھی۔ انتہائی زوال پزیر معاشرے میں ان کی اہمیت و حیثیت ہر شخص سے زیادہ تھی۔ جس کی ہجو کرتے وہ معاشرے کی نظر سے گرجاتا۔ مدح کرتے تو زلیل معزز ہوجاتا۔ اعتدال سے متجاوز ہونے کا یہ عمل اس بات کی علامت تھا کہ معاشرہ صحت مند نہیں رہا ہے اور نظام خیال میں چیزوں کو مربوط رکھنے کی قوت باقی نہیں رہی اور وہ ایک جگہ ٹھہر کرانسانی خواہشات اور تقاضوں کو آسودہ کرنے کی اہلیت گُم کرچکا۔ اسی جامد، زوال پزیرمعاشرے کی کوکھ سے ایک نیا نظام حیات رونما ہوا جس نے اس بکھرے ہوئے معاشرے کو یک جہتی کے نئے رشتے میں منسلک کرکےان میں زندہ رہنے اور زندگی بسر کرنے کا ایک نیاشعور پیدا کیا۔ ایسے میں ظاہر ہے اسلام ان اقدار کو کیسے فروغ دے سکتا تھا جن کی وہ نفی کررہا تھا۔ عہد جاہلیت کے اس زوال پزیر نظام کے بُت کو ) جس میں شعراء نے راہنما کا درجہ حاصل کرلیا تھا اور جہاں شاعری زندگی کی سب سے اہم سرگرمی بن گئی تھی ( اسی سطح پر اسلام توڑ سکتا تھا۔ ضروری تھا کہ وہ شاعری اور نظام خیال میں امتیاز روا رکھتا۔ یہی عمل اسلام نے اس دور میں انجام دیا۔ ویسے بھی تخلیق خواہ وہ کسی بھی درجے اور نوعیت کی ہو، انسان کے اندر عمل کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ جب تک جسم کو کم سے کم حرکت نہ دی جائے گی، اس وقت تک فکری اور تخلیقی عمل پورے طور پر بروئے کار نہیں آسکتا۔ یہ تخلیقی طلسم کا فطری اثر ہے کہ فن انسان کو بے عمل بنا دیتا ہے۔ پھر رہنمائی کا دعوٰی ادیب و شاعر نے کبھی کیا ہے اور نہ یہ ان کا منصب ہے۔ لیکن بیمار معاشرے میں یہی لوگ راہنما بن جاتے ہیں۔