Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 25, 2019

ایک مقالہ۔۔۔۔۔۔۔کار أمد تحریر۔۔۔۔۔۔۔ضرور پڑھیں۔

. از/ سید سعادت اللہ حسینی
صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مقالہ ایک ایسے دورمیں لکھا جارہا ہے جب کہ پوری دنیااکثریتی انتہاپسند نسل پرست تحریکات کے دوبارہ ظہور کامشاہدہ کررہی ہے۔تشدد،نسل پرستی اور اکثریت پرستی اس عہد کا ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔اس پس منظر میں حاشیے پر رکھے گئے طبقات کی آوازوں کو سامنے لانااور انہیں اصل دھارے کے علمی مباحث کا حصہ بنانابے حد اہمیت کا حامل ہے۔ چوں کہ تاریخ کابڑے پیمانے پر غلط استعمال ماضی میں بھی کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جارہا ہے ،اور یہ نسل پرستی اور انتہا پسندی پر مبنی تحریک کا ایک طاقتور ہتھیار بن چکی ہے، تاریخ اور تاریخی معلومات کے مناسب اور غیر متعصب فہم کو نشو و نما دینا بہت ضروری ہے۔حاشیے پر رکھے گئے طبقات کی تاریخ کا مطالعہ انہیں با اختیار بنانے کا اہم وسیلہ ہے۔اس طرح کا مطالعہ متعلقہ طبقات کے مثبت کردار اور خدمات کو نمایاں کرتا ہے۔ساتھ ہی یہ ان طبقات کے خلاف موجود فرقہ وارانہ ، ذات پات اور نسل سے متعلق تعصبات کا بھی خاتمہ کرسکتا ہے۔


ہم تاریخ کیا مطالعہ کیوں کرتے ہیں؟تاریخ موجودہ صورت حال کو سمجھنے ،اور مستقبل کے تئیں مناسب لائحہ عمل اختیار کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔تاریخ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے اور موجودہ حالات کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔تاریخ دنیا اور امور دنیاکوسمجھنے میںہمیں پس منظر فراہم کرتی ہے۔ فقدان یادداشت (amnesia)ایک ذہنی بیماری ہے جو دماغ کے خلیوںکے نقصان کے سبب لاحق ہوتی ہے،اور مریض اپنی یادداشت کھو دیتا ہے۔یہ انتہائی درد ناک اور اذیت ناک بیماری ہوتی ہے کیوں کہ یہ مریض سے اس کا ماضی چھین لیتی ہے۔مریض اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔وہ اپنے تجربات بھول جاتا ہے۔زندگی بھر کا حاصل کردہ علم اور مہارت سب ختم ہوجاتی ہے۔تاریخ سے اس قسم کی لاتعلقی بذات خود ایک معذوری بن جاتی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے تاریخ سے عدم واقفیت یا غلط واقفیت اجتماعی فقدان یاد داشت (collective amnesia)کی ایک وسیع شکل ہے۔تاریخ ہمیں اپنے ماضی سے، پوری انسانیت کے مشترکہ علم و حکمت اور تجربات سے جوڑتی ہے۔لہذا اگر کوئی سماج تاریخ کو نظر انداز کردے یا تاریخ سے غلط واقفیت رکھے تو یہ پورے سماج کی اجتماعی معذوری کی علامت ہوگی۔


اسلام میں قرآن نے مطالعہ تاریخ کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔نص قرآنی کا ایک معتد بہ حصہ تاریخی معلومات پر مشتمل ہے۔ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے اور آدم، نوح ،ابراہیم، موسی،عیسی اور یوسف علیہم السلام وغیرہ نبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن ماضی کے صالح انسانوں اور فاسد انسانوں ، نیک کرداروں اور بدکرداروں کی مثالیں فراہم کرتا ہے۔تاریخ کے بیان کے بعد قرآن تاریخی واقعات، عذاب،عمل اور ردعمل اور رویوں پرتبصرے کرتا ہے۔ ان سے سبق کشید کرتا ہے اور پھر اس کی روشنی میں قاری کو مناسب لائحہ عمل عطا کرتا ہے۔


اٹھارہویں صدی کے معروف اسکالرشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرآن کے مشمولات کی درجہ بندی کی ہے۔اس میں ایک اہم قسم جسے وہ بیان کرتے ہیں اس کا نام ہے ’’ ایَّامُ اللَّہ‘‘ یعنی اللہ کے دن جس سے ان کی مراد تاریخی واقعات اور تاریخی معلومات ہیں۔جو کہ قرآن کی اچھی خاصی آیات پر محیط ہیں۔استقرائی منطق کا اطلاق کرتے ہوئے قرآن تاریخی تذکروں سے تمام انسانوں کے لیے اور ہر زمانے کے لیے عالمگیر دروس و اصول اخذ کرتا ہے۔قوموں کا عروج وزوال انہیں اصولوں کی بنیاد پر ہوتا ہے ،جنہیں قرآن ’’سُنَّۃُ اللَّہ‘‘ یعنی قانون الہی کا نام دیتا ہے۔’’ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً ‘‘ ( تم سنت الہی میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ سنت الہی کو ٹلتے ہی پاؤ گے، سورہ فاطر،آیت 43)
الغرض ،مطالعہ تاریخ کا مقصد ان آفاقی و عالمگیر اصولوں کو سمجھنا ہونا چاہیے۔ابن خلدونؒ اور پروفیسر ٹوائن بی جیسے علمائے تاریخ نے تاریخ کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کیا ہے اور تاریخ کے مطالعہ سے انسانی تہذیب کے لئے عالمگیر اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔


تاریخ نویسوں نے عام طور پر مادی پہلوؤں پر مبنی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔انہوں نے معیشت، فوج ، سیاسی قوت،آبادیات،جغرافیائی سیاسیات،جغرافیائی حکمت عملی وغیرہ کوتاریخی محرکات کے کلیدی عوامل کے طور پر قبول کیا ہے۔اس کے برعکس قرآن اخلاقی و تعبدی عوامل کو اہمیت دیتاہے۔’’وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتِِ مِّنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ وَلَکِنْ کَذَّبُوا فَأَخَذْنَاہُم بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ‘‘ (اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے،،لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کرتوتوں کی پاداش میں ان کو پکڑلیا، سورہ الاعراف،آیت 96)
اللہ تعالی ،جو سب سے زیادہ علم و حکمت رکھتا ہے، نے انسانوں کو باخبر ک