Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 29, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔تیرہویں قسط۔

*بریلی کے بازار میں*
قسط (13)
✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*الفرقان کا اجرا کیوں ہوا؟*
رسالہ الفرقان نے اجرا کے ساتھ ہی ملک و بیرونِ ملک میں اپنی شناخت بنا لی اور مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے لگا۔ اس کے مضامین اور اداریے علمی اور استدلالی ہونے کی بنا پر شوق و ذوق سے پڑھے جانے لگے۔ بقول مولانا نعمانیؒ:
*الفرقان کی افادیت بحمداللہ اس کے روزِ اول ہی سے ایسی نمایاں ہوئی کہ اکابرِ وقت کی نگاہوں میں وہ قابلِ قدر قرار پا گیا۔ اپنی بے سروسامانی کے ساتھ ساتھ الفرقان کو جاری رکھنے کی جو جد و جہد اس عاجز کی طرف سے ہو رہی تھی اس کو چھ سات مہینے سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ ان اکابر نے اس میں اپنی تائید کا وزن شامل کرنے کے لیے ایک پرزور اپیل قوم سے ان الفاظ میں جاری فرمائی۔۔۔* [تحدیثِ نعمت، ص 68]

*مناظرۂ لاہور*
بہر حال رسالہ جاری ہوا اور ہر طرح کے بحران کے باوجود چلتا رہا، مگر اس کا اجرا کیوں کر ہوا؟، اس کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے؟ اس کی بھی ایک طویل داستان ہے اور یہ مزے دار داستان پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مولانا نعمانیؒ کا تعارف ایک مناظر کی حیثیت سے اپنوں کے ساتھ بیگانوں میں بھی ہو چکا تھا۔ نینی تال کی چھوٹی سی بستی درو میں ایک مناظرہ بدعت نوازوں سے ہوا، پھر سنبھل میں بھی ان گندم نما جو فروشوں سے مناظرہ ہوا۔ ان دونوں مناظروں میں ٹناٹن سنیوں کا وہ حشر ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ ان دونوں کی پوری تفصیلی روداد *صاعقۂ آسمانی بر فرقۂ رضاخانی* کے نام سے چھپ چکی ہے۔
ان شکستوں نے نیم مشرکوں کو ایسا دھویا کہ جھینپ مٹانے کے لیے اب لاہور میں مناظرے کی تجویز رکھ دی، جسے علمائے دیوبند نے منظور کر لیا۔ اس مناظرے کی خاص بات یہ تھی کہ بریلوی دیوبندی مناظرے کی تاریخ میں پہلی بار ججوں کی تقرری کی بات آئی جو منظور بھی ہو گئی۔
*مناظرے کے تین جج*
مناظرے کے یہ تین جج: معروف شاعر ڈاکٹر اقبال، مولانا اصغر علی روحی اور شیخ صادق حسن قرار پائے۔ مولانا روحی بڑے بااثر اور ذی وجاہت شخصیت تھے۔ یہ اسلامیہ کالج لاہور میں پروفیسر رہے ہیں۔ شیخ صادق حسن صاحب بھی خطۂ پنجاب کے مؤثر رجال میں تھے۔ یہ امرتسر میں بیرسٹر ایٹ لا رہے ہیں۔ ججوں کی تقرری کے پیچھے یہ فارمولا تھا کہ جج صاحبان مناظرے کے بعد جس فریق کی شکست کا اعلان کریں گے، وہ فاتح فریق کا ہم مسلک و ہم مشرب ہو جائے گا اور اس طرح دیوبندی بریلی جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم۔ علمائے اہلِ حق اس مناظرے کے لیے نہ صرف تیار رہے، بلکہ مصر بھی۔ انہیں اپنی فتح کا یقین چڑھتے سورج سے بھی زیادہ تھا، اس لیے وہ چاہ رہے تھے کہ یہ مناظرہ ہر قیمت پر ہو جائے، تاکہ بریلویوں کی کافر سازی کی یہ مہم کسی طرح بند ہو۔
*بریلوی ملاؤں کی پینترے بازی*
بریلوی ملاؤں نے عوام میں اپنا بھرم رکھنے کو مناظرہ تو رکھ لیا، مگر اندر سے کوشش یہی رہی کہ کسی طرح ہونے نہ پائے، کیوں کہ انہیں اپنی قابلیت کا خوب ادراک تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مناظرہ ہو گیا تو ججوں کا فیصلہ ہمارے خلاف ہی آئے گا ۔ اہل السنۃ والجماعۃ کے خلاف دعاوی تو ہزاروں ہیں، مگر دلیل ندارد ۔ اور جو دلیلیں ہیں ان کی حیثيت تارِ عنکبوت سے زیادہ سے کمزور۔ ان کے پاس راہِ فرار بھی نہ تھی تو بھاگتے کیسے؟ نتیجتاً پینترے بازی شروع کر دی اور ایسی ایسی شرطیں لگائیں کہ دیوبندی انہیں تسلیم نہ کر سکیں اور ناظرے کی بلا ٹل جائے۔
*شرائطِ مناظرہ*
خان صاحب کے گرگوں کا اعلان تھا کہ ان کے مناظر خان زادہ حامد رضا خاں ہوں گے یا ان کے وکیل۔ اب یہ فریقِ مخالف پر منحصر تھا کہ اپنا مناظر وہ کسے مقرر کرتا ہے، لیکن بریلویوں نے یہ شرط لگا دی کہ یہ مناظرہ ہم اسی وقت کریں گے جب آپ کے مناظر مولانا اشرف علی تھانویؒ ہوں یا ان کا وکیل ہو۔ اس بے تکی شرط کی وجہ انہیں معلوم تھی کہ حضرت تھانویؒ مناظروں سے دل چسپی نہیں رکھتے۔ وہ نہ تو خود تشریف لائیں گے، نہ وکیل بنائیں گے، نہ یہ مناظرہ ہوگا۔ گویا: نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔
*حضرت تھانویؒ کا وکالت نامہ*
لیکن ان قبوریوں کو کیا معلوم کہ یہ دیوبندی مناظرہ تو بہر حال کر کے رہیں گے، چاہے انہیں موجِ خوں سے بھی کیوں نہ گزرنا پڑے، لہذا دیوبندیوں نے یہ شرط مان لی۔ حضرت تھانویؒ کے سامنے صورتِ حال پیش کی گئی، وقت کی نزاکت کے پیشِ نظر ایک تمہید پر مشتمل انہوں نے وکالت نامہ تحریر فرما دیا۔ یہ قصہ 5 رمضان 1352 کا ہے۔ اس تحریر کا یہ حصہ آپ بھی پڑھ لیجیے:
*اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ رسالہ حفظ الایمان مؤلفہ احقر پر اعتراض کرنے والوں سے متعلق میرا عمل ہمیشہ سے اپنے مذاق کے موافق رہا ہے کہ نفسِ مسئلہ کی تبلیغ اور مترددین کی تشفی کے لیے خود رسالہ حفظ الایمان، بسط البنان، تغییر العنوان لکھ چکا اور معاندین کو کہیں خطاب نہیں کیا، مگر بعض احباب بعض مواقع میں دوسرے مذاق پر عمل کرنے کو نافع سمجھتے ہیں اور ان بعض مواقع پر بعض حالات کے اقتضا سے اس نافعیت میں اس کی حاجت ہے کہ اس تفہیم کے لیے میں کسی کو اپنا وکیل بنا دوں، اس لیے سرِ دست میں اپنی طرف سے اس تفہیم کے لیے ان بزرگوں کو اپنا وکیل بناتا ہوں: حضرت مولانا حسین احمد صاحب فیض آبادی [مدنی]، جناب مولانا محمد منظور سنبھلی [نعمانی]، مولانا ابوالوفا صاحب شاہ جہاں پوری، مولانا محمد اسماعیل صاحب سنبھلی*
[جاری]