Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 29, 2019

تبریز تیرے خون سے انقلاب أٸے گا۔!!!!


_________صداۓوقت______
.....................................................
ابھی تو گھر سے ہم چند قدم ہی نکلے ہیں۔ابھی کافی پڑاؤ سے گزرنا ہے۔ابھی کئی منزلیں طے کرنی ہیں۔بس ضرورت ہے ظلم و بربریت، تشدد و تعدی کے خلاف اٹھا یہ قافلہ کہیں بھٹکنے نہ پائے۔کہیں سستانے کے چکر میں حرارت بھرے جذبوں کے بازؤں میں برف نہ پڑجائے۔حوصلے پست نہ ہونے پائیں۔انقلاب اور انصاف طلبی کی اس آگ کو ہمیں مزید بھڑکانا ہے۔انتہا پسندی کے خلاف دلوں میں اٹھ رہی نفرت کی لو کو بیداری کا تیل پلا کر مزید تیز رکھنا ہے۔
ابھی کام ختم نہیں ہوا دوستو! 
تبریز انصاری

ابھی تو طبل جنگ  بجا ہے۔ابھی تو تبریزوں، پہلو خانوں، اخلاقوں، قاسموں،جنیدوں کی آہ و بکا درد و غم نے "الرحیل الرحیل" کا نقارہ بجایا ہے۔ابھی تو سالمیت و تحفظ کی خاطر اٹھنے والی اس صدائے جرس کو مسلسل آگے لے جانا ہے جو ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل طے کرے گی۔
معلوم ہے یہ صرف ان ہی گنے چنے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوا۔اس کی فہرست طویل ہے۔ اتنے بڑے ملک میں ہر روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی عالم، مولوی، داڑھی ٹوپی والے کو ان ہندو انتہا پسند تنظیموں کے غنڈوں سے ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔ہر دن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو ایسے نازیبا کمینٹ سننے پڑتے ہیں۔آئے دن کوئی نہ کوئی اس سنگھی تشدد کا نشانہ ضرور بنتا ہے۔
یہ جو آپ اخلاق، پہلو، تبریز کو دیکھ رہے ہیں یہ وہ ہیں جن کی حالت کافی سیریس بنادی گئی تھی پھر اس پر مستزاد یہ کہ سنگھی بھیڑیوں نے اس ظلم و جبر کا ویڈیو بنا کر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پہ اپلوڈ کر کے اپنی بہادری کا اشتہار بھی لگایا تھا۔ورنہ ہزاروں معاملے ایسے ہیں جہاں کیمرے کی نظر نہیں پہنچ سکی یا پھر جان بوجھ کر کیمرے کو خاموش رکھا گیا۔یا وہاں کسی نے ضروری نہیں سمجھا۔

یہی کوئی ایک سال قبل کی بات ہے کہ میں بھاگل پور کے ایک مذہبی پروگرام سے واپسی کر رہا تھا۔"دانہ پور بھاگل پور انٹر سٹی" کی تین پیسنجر والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔آگے ایک اسٹیشن پر کچھ ہندو لڑکے چڑھے اور مجھے سرکنے کو کہا میں نے کہا بھائی تین آدمی کی سیٹ پر تین تو آل ریڈی ہم لوگ بیٹھے ہیں۔اتنے میں وہ تو تراک پہ آگیا۔ میں بھی کھڑا ہوگیا۔بات کافی آگے بڑھ گئی ایک لڑکا کہنے لگا "سیٹ چاہئے تو پاکستان جاؤ" اس پر ہورہی "تو تو میں میں" تشدد کا روپ دھارنے لگی۔آگے میں نے بوگی کا جائزہ لینے کے بعد خاموش ہوجانے میں ہی بھلائی سمجھی۔کیونکہ پوری بوگی میں ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو ان ہندو انتہا پسندوں کو روکتا۔اگر اس دن  میں غصہ و غضب کا سن کر، حکمت سے کام نہ لیا ہوتا تو پٹنہ آنے والی اس ٹرین میں حافظ جنید کی طرح میری بھی لنچنگ طے تھی۔
میں نے اسی سوشل میڈیا پر یہ بات کئی بار کہی ہے کہ ہم اور آپ کے ساتھ سفر میں کس طرح کے خطرات لاحق ہیں کیا اندیشے درپیش ہیں؟کس سچوئیشن کا سامنا ہے؟یہ وہ لیڈرس و رہنمایان بالکل نہیں سمجھ پائیں گے جو ریلوے کے AC-1 TIER یا فلائٹ کے ہائی پروفائل  VIP CLASS میں سفر کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ بھی کہ اس ہائیلی سیریس سچوئیشن کو محسوس کرنے کے لئے ملی درد سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا لازم ہے۔ آج ہم صرف تقریروں میں حدیث کے اس مفہوم کو خوب کوڈ کرتے ہیں کہ ایک مومن کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو دوسرے مومن کو اس کا درد ہونا چاہئے۔مگر سوچئے،ہمارا عملی پراسیس اس سے کتنا خالی ہے؟ مجھے لگتا ہے ہماری عظمت و رفعت، شان و سطوت کے لئے یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھی جس نے ہم سے ہماری دستار خسروانہ چھین لی۔جس نے ہم سے وہ رعب و دبدبہ چھین لیا جو کبھی قیصر و کسری کے ماتھے پر شکن ڈال دیتا تھا۔یہی وہ مرحلہ تھا جہاں تاریخ کی نگاہوں نے سقوط بغداد و غرناطہ دیکھا۔یہی اسلامی شان و شوکت کا نقطۂ تحول تھا جہاں اندلس کی "الحمراء" کے ماتھے سے طارق بن زیاد کے سبز پرچم کو اتار پھینکا گیا۔یہی وہ نازک صورت حال تھا جس میں فاروق اعظم اور اور صلاح الدین ایوبی کی عزم جوان سالاری و دلیری سے حاصل کی گئی مسجد اقصی بیت المقدس بھی ہم چھن گئی۔
کیونکہ رسول کی ربانی تھیوری کے ذریعے اخوت، مساوات، کو آپریشن اور باہمی تعاون کے نظریہ کے ساتھ "ساری امت ایک جسم" کا جو موثر و بے مثال کلچر پروان چڑھایا گیا تھا اس سے سلاطین عالم کی سطوت شاہی اور دیگر قوموں کی بسالت و شجاعت دھری کی دھری رہ جاتی تھی۔مہاجرین کو کوئی اس لئے چھیڑ نہیں سکتا تھا کہ انصار پیچھے کھڑے تھے۔مشرق کے مسلمان اس لئے محفوظ رہتا تھا کہ مغرب میں اس کی طاقت بن کر دوسرے کھڑے تھے۔
قدرت کا بھی اصول ہے جب تک خاک کاشغر سے نیل کے ساحلوں تک اسلامی اخوت کا کلچر آسمان کے کنارے کنارے شفق کی طرح نمودار نہیں ہوتا تب تک اس قوم کی عظمت رفتہ کی بحالی ممکن نہیں۔
آپ جائیے اسلام کی آخری ربع صدی میں! وہ زمانہ کیسا رہا ہوگا جب حجاج بن یوسف نے فقط ایک عورت کی پکار پر ہند کے راجا داہر کو سبق سکھانے کے لیے نا صرف ایک بٹالین یا کوئی چھوٹی نفری روانہ کیا بلکہ پے درپے دو فوج کی ناکامی کے بعد ایک اور بڑی فوج کو اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی سرکردگی و سالاری میں تیسری دفعہ ہند روانہ کیا تھا۔اور اج ہماری کتنی بہنیں اغیار کے عداوت و رنجش کی مار جھیل رہی ہیں اور ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتا۔
ملت کا یہ درد ہم سے سرفروشی اور بے باکی کا مطالبہ اس لئے  کرتا ہے کہ آج تبریز کی بیوی کے ہاتھوں سے اس کی شادی کی مہندی بھی نہیں گئی ہے۔ایک ایسی لڑکی کے درد کا احاطہ لفظوں میں ممکن نہیں۔اس پر رنج و غم کا کتنا بڑا پہاڑ ٹوٹا ہوگا اس کے تعبیری کلمات فقط اسی کے پاس ہوں گے۔ایسے درد کے نالے ،آہیں،سسکیاں کسی لکھاڑی کے قرطاس و قلم سے ماورا ہیں۔۔ایسے میں ہمارا اسلامی خون اگر جوش نہیں مارتا،ہماری غیرت کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، ہمارے انداز اور روز مرہ کے معمولات اب بھی نارمل سے لگتے ہیں تو اس سے ایمان کا ضعف کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
اج ہی فیسبک پر کچھ احباب کہ رہے تھے کہ آر ایس ایس کے اس گیم کا جواب دینے کے لئے ہمیں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ہمیں میں ڈاکٹرز، انجینئر، بیرسٹرز، لاویرس پیدا کرنے ہوں گے۔اخر اس کا مطلب کیا ہے؟ تو کیا تبریز کو بھول جائیں؟ اخلاق کے خون کو کسائی کی دکان پر کٹنے والے بکرے کا خون سمجھ لیں؟ پھر اس کے لئے تو لمبا وقت درکار ہے۔آر ایس ایس آج جہاں پہ ہے یہاں تک پہنچنے کے لئے اس کو ایک یا دو  دہائی کا نہیں بلکہ جد و جہد سے بھری ایک صدی کا طویل عرصہ لگا ہے۔اگر ہم اسی امید پر بیٹھ گئے تو برما دیکھنے کے لئے ٹی وی یا مبائل کے یوٹیوب، فیسبک اوپن کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بس آنکھ کھلی رکھئے ہر گلی چوراہے اور نکڑ پہ یہ نظارے دیکھنے کو مل جائیں گے۔
اور یہ بھی نوٹ کر لیں کب تک بھائی چارہ  بھائی چارہ کی مالا جپتے رہئے گا؟ ہندوتو کی بڑھتی متشددانہ نفرت و جان لیوا عداوت کے درمیان کب تک سیکولرازم کی لاش کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے گھومتے رہئے گا؟ کبھی کبھی جب تدبیر و چارہ جوئی رخصت ہوجاتی ہے۔ ڈر اور خوف دل میں بزدلی بھر دیتا ہے  تب انسان امن امن شانتی شانتی کا سلوگن وائرل کرتا ہے یہی حال ہے آج ہماری قوم کا۔ویسے امن و شانتی، بقا و سلامتی پنساری کی دکان پر بکنے والی کوئی کتھا زردہ نہیں جو کسی بھی پان کھانے والے کو بہ آسانی مل جائے گا یہ تو صرف اس قوم کا مقدر ہے جس کے غازیوں کی تلواریں حق و باطل،امن و تشدد اور صلح و جنگ کے درمیان تفریق کی خاطر سدا بے نیام رہتی ہیں۔
چلتے چلتے پھر یاد دلا دوں کہ آج انصاف اور نا انصافی کے درمیان لکیر کھینچنے کے لئے جو بیداری دکھائی گئی ہے اسے تب تک جاری رکھنا نہایت ضروری ہے جب تک مجرمین کیفر کردار تک نہ پہنچا دیئے جائیں۔ورنہ پھر تیار رہئے کسی اور تبریز کی لاش اٹھانے کے لئے!!!
مشـــــتاق نــــــوری