Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 27, 2019

ہاں!! میں أٸی پی ایس سنجیو بھٹ ہوں!!!


نازش ہما قاسمی /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی! آئی پی ایس سنجیو بھٹ، اعلیٰ پولس افسر، حق گو، باضمیر، اپنے فرض کو خلوص سے ادا کرنے والا، کسی کے کہنے پر فرض سے غفلت نہ برتنے والا، نڈر، بے باک، مخلص، انصاف پسند، گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار، پولس وردی کی پاسداری کرنے والا، پولس بھرتی کے دوران لیے گئے حلف کو پورا کرنے والا، انسان کو انسان کی نظر سے دیکھنے والا، ہندو مذہب کا پیروکار، اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا برہمن، مذہب کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرنے والا، سیاسی لیڈران کی چاپلوسی نہ کرنے والا، ان کے تلوے نہ چاٹنے والا؛ بلکہ انہیں آنکھ دکھانے والا، ان کے جرائم پر انہیں ٹوکنے والا، ان کی بات نہ ماننے کی پاداش میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والا سیکولر و ایماندار برخاست آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ ہوں۔ 
سنجیو بھٹ

میری پیدائش ۲۱؍دسمبر ۱۹۶۳ کو گجرات میں راجیندر بھٹ کے گھرہوئی۔ میری والدہ کا نام شکنتلا بین بھٹ ہے۔ میری اہلیہ کا نام شویتا بھٹ، بیٹے کا نام شانتنو بھٹ اور بیٹی کا نام آکاشی بھٹ ہے۔ میں نے ۱۹۸۵ میں آئی آئی ٹی بامبے سے ایم ٹیک کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۸۸ بیچ کے آئی پی ایس افسروں میں شامل ہوا۔ ۱۹۹۰ میں میں ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولس آف جام نگر ڈسٹرکٹ متعین ہوا، ۱۹۹۶ میں مجھے سپرنٹنڈنٹ آف پولس (ایس پی) بناسکاٹھا بنایاگیا۔ ۱۹۹۹ سے ۲۰۰۲ تک میں گاندھی نگر اسٹیٹ انٹلی جینس بیورو میں بطور کمشنر آف انٹلی جینس مامور کیاگیا۔ فروری اور مارچ ۲۰۰۲ کے دوران گودھرا میں ٹرین جلائی گئی جس کے بعد فرقہ وارانہ فساد بھڑ ک اُٹھا اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی لاشیں گرنا شروع ہوگئیں، ان کی املاک نذرآتش کی گئیں، ان کی عورتوں کو بے عزت کیاگیا، ان کے مردوں کو زندہ جلادیاگیا، پیٹ میں پل رہے بچوں کو نیزوں کی اَنی پر اُچھالا گیا، موت کا تانڈو شروع ہوگیا، جدھر دیکھو ادھر لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں، صرف ایک کمیونٹی کی، صرف ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی۔ ۹؍ستمبر ۲۰۰۲ کو اس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات نے مبینہ طور پر مہسانہ ضلع کے بہچراجی شہر میں اپنی تقریر میں مسلمانوں کی شرح پیدائش پر سوال کیا تھا، اس تقریر پر نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز نے ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی؛ لیکن سکریٹری پی کے مشرا نے بتایاکہ کوئی تقریر ریکارڈ نہیں کی گئی ہے، مشرا کے اس سفید جھوٹ کے بعد اسٹیٹ انٹلی جینس بیورو نے مودی جی کے بھاشن کی ایک کاپی این سی ایم (نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز) کو سونپ دی۔ اس کے بعد مودی جی کا عتاب ہم پر نازل ہوا اور سینئر اہلکاروں کا تبادلہ کردیاگیا، ان سینئر افسروں میں مَیں بھی شامل تھا۔ تبادلے کے بعد مجھے اسٹیٹ ریزور پولس ٹریننگ کالج کا پرنسپل بنایاگیا۔ ۲۰۰۳ میں میری ذمہ داری سابرمتی سینٹرل جیل میں تھی میں وہاں کا جیل سپرنٹنڈنٹ تھا، قیدیوں سے اچھے تعلقات کے بنا پر میرا وہاں سے تبادلہ کردیاگیا۔میرے تبادلے کے بعد تقریباً دو ہزاروں قیدیوں نے بھوک ہڑتال کردی جس میں سے چھ کی موت ہوگئی تھی۔
ہاں میں وہی سنجیو بھٹ ہوں جو گجرات فساد کے دوران وزیراعلیٰ گجرات کی میٹنگ میں ان کے گھر پر شریک تھا جہاں پولس افسروں کو یہ کہاجارہا تھا کہ ہندوؤں کو اپنا غصہ اتارنے دو۔ ہاں میں وہی سنجیو بھٹ ہوں جس نے ۲۰۰۲ میں وزیراعلیٰ مودی کے کردار پر پر سوال کھڑا کیا تھا اور کہا تھا کہ تحقیق کے لیے جو ایس آئی ٹی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس پر مجھے بھروسا نہیں ہے، ہاں میں وہی سنجیو بھٹ ہوں جس نے ۲۰۱۱ میں عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے موجودہ وزیر اعظم کو کٹہرے میں کھڑا کیا تھا اور ان پر الزامات عائد کیے تھے۔ میرے اس حلف نامے کے بعد مجھے راڈار پر لے لیاگیا اور میں ارباب اقتدار کے عتاب کا شکار ہوا۔ مجھے ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے اور سرکاری گاڑیوں کے غلط استعمال کے الزام میں سن ۲۰۱۱ کو معطل کردیاگیا۔ اور پھر ۳۰ ستمبر ۲۰۱۱ کا دن آیا میرے ماتحت کام کرنے والے کانسٹبل نے میرے خلاف کیس درج کیا اور دوسروں کو گرفتار کرنے والا آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ خود گرفتار ہوگیا۔ حالات اس کےبعد سنگین ہوتے گئے، مجھ پر یکے بعد دیگرے الزامات عائد کیے جاتے رہے، میرے گھر کی بار بار تلاشی لی جاتی رہی، مجھ پر میری اہلیہ کے علاوہ کسی دوسری خاتون سے تعلق کا الزام لگایاگیا اور اس پر مجھ سے صفائی طلب کی گئی پھر ۱۹ اگست ۲۰۱۵ کا دن آیا اس دن مجھے اپنے عہدے سے برطرف کردیاگیا۔ اس درمیان میرے اہل خانہ کو موت کے گھاٹ اتارنےکی کوشش کی گئی، ان پر حملہ کیاگیا، ٹرک سے میرے اہل خانہ کی کار کو ٹکر مار کر ختم کرنے کی سعی کی گئی؛ لیکن "جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے" معجزاتی طور پر میرے اہل خانہ زندہ وسلامت رہے، مجھے اس حملے کے ذریعے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن میں ڈرانہیں جھکا نہیں، سرنگوں نہیں ہوا، انتہائی بے باکی سے ان کے مظالم کو سوشل میڈیا کے توسط سے ظاہر کرتا رہا، ان کی خامیوں کو عوام کے سامنے لاتا رہا یہ سب چل ہی رہا تھا کہ مجھے ۱۹۹۸ کے ایک معاملے میں ۵؍ستمبر ۲۰۱۸ کو پھر گرفتار کرلیاگیا، میری اہلیہ نے میرے فیس بک پیج پر اس گرفتاری کے خلاف آواز اُٹھائی اور اسے بدلے کی کارروائی قرار دیا اور برملا کہا کہ میرے شوہر کو اس کی ایمانداری سے ڈیوٹی انجام دینے کی سزا دی جارہی ہے۔ میری ضمانت کی عرضیاں رد ہوئیں اور میں گرفتار ہی رہا یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا جب مجھےجام نگر عدالت نے حراستی موت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنادی۔ اب میں یہاں سوال کرتا ہوں اگر میں واقعی مجرم ہوں تو مجھے سزا ملنی چاہیے؛ لیکن صرف مجھے ہی انہیں ان لوگوں کو بھی ملنی چاہیے جو گجرات فسادات کے ذمہ دار ہیں، جن کی آواز پر ہزاروں پولس والوں نے معصوموں کا خون کیا، بلوائیوں کو چھوٹ دی، انہیں بھی عمر قید کی سزا دی جائے، خواجہ یونس کو غائب کرنے والوں کو بھی سزا دی جائے، فیض عثمانی جن کی پولس حراست میں موت ہوئی ان کے قاتلوں کو بھی عمر قید کی سزا ہو۔ بہار کے غفران اور تسلیم بھی پولس حراست میں مارے گئے ہیں ان کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے اس طرح ہزاروں مثالیں موجود ہیں پولس حراست میں ملزمین کی موت کے سبھی خاطیوں کو سزادی جائے، صرف مجھے ہی کیوں زَد پر لیاگیا۔ عدالت اپنا منصفانہ کردار ادا کرے، سیاسی دباؤ میں آکر کام نہ کرے، مظلوم کو انصاف پہنچائے اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائے، یہی عدلیہ کا کام ہے اگر عدالت سیاسی دباؤ میں کام کرتی رہے گی تو ہندوستان کے تانے بانے کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔