Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 17, 2019

بریلی کے بازار میں ! ! ! قسط پنجم۔


مولانا فضیل احمد ناصری ۔/ صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*ازہری میاں کا مرکزی دارالافتاء وغیرہ*
احسن رضا کا نکاح ابھی باقی تھا اور ہمیں جلد از جلد محفلِ نکاح بھی جانا تھا، اس لیے منظرِ اسلام کی سجدہ گاہ کے بالائی حصے سے اترے اور فوراً واپسی کی راہ لے لی۔ سجدہ گاہ سے دس قدم کے فاصلے پر مجدد صاحب اور ان کی نسل کے مکانات پھر پڑے۔ دائیں طرف ازہری میاں کا مرکزی دارالافتاء والقضاء تھا۔ ایک بڑا سا ہورڈنگ عمارت کی دوسری منزل کے کونے سے لگا ہوا تھا۔ بائیں طرف دیکھا تو عمارت کی دوسری منزل پر *رضا لائبریری* لکھا تھا۔ ان دونوں مقامات کے بنظرِ غائر ملاحظے کا موقع نہ ملا۔ دو قدم اور آگے بڑھا تو بریلوی مذہب کے حجۃ الاسلام، جناب حامد رضا خاں کا محل تھا، جس پر جلی حروف میں ان کے نام و القاب لکھے تھے۔ ہم تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ محلہ سودا گران ہم سے بہت پیچھے چھوٹ چکا تھا۔
*دیوبند اور بریلی کی گلیوں میں فرق*
محلہ سودا گران شہر کے جس حصے میں آباد ہے اسے *پرانا شہر* کہا جاتا ہے۔ یہاں *بڑا بازار* کے نام سے ایک بڑی آبادی ہے، جس میں ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں دستیاب ہیں۔ بازار کا راستہ دیوبند کے اندرونِ شہر کی سڑکوں سے زیادہ کشادہ ہے، مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ دیوبند کی تنگ گلیوں سے بھی آپ بآسانی نکل جائیں گے، مگر یہاں کشادہ سڑکوں پر بھی ٹھوکر کھائے بغیر نہ رہیں گے۔ مقتدا کا اثر مقتدی پر پڑتا ہے۔

دیوبند *اعتدال* کا علم بردار ہے اور بریلی *افراط و تفریط* کا۔ دیوبند کا اعتدالی مزاج علما تو علما، غیر اہلِ علم عوام، حتیٰ کہ حروف نا آشناؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔ رکشہ چلانے والا انتہائی برق رفتاری سے رکشہ چلائے گا اور آپ کی بغل سے گزر جائے گا، مگر کوئی گزند آپ کو چھو کر نہیں گزرے گی۔ لیکن بریلی ایک علحدہ سرزمین ہے۔ افراط و تفریط کا سرچشمہ سے یہیں سے پھوٹتا ہے، اسی کا اثر ہے کہ یہاں کے بیش تر افراد بھی اس صورتِ حال سے دو چار ہیں۔ درگاہِ رضویہ سے واپسی کرتے ہوئے میں بڑا بازار میں چھ سات منٹ پیدل چلا۔ صبح کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ اکثر دکانیں کھلی بھی نہیں تھیں۔ بھیڑ بھاڑ ابھی شروع بھی نہ ہوئی تھی، لیکن اتنی ہی دیر میں مجھے دو بار بائکوں نے ٹھوکر ماری۔ مجھے غصہ تو آیا، لیکن *الناس علیٰ دین ملوکھم* کے تصور نے کچھ بولنے نہیں دیا۔ مجھے رہ رہ کر فارسی کا یہ شعر یاد آتا رہا:
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند
*اردو ندارد*
بانئ بریلویت اردو زبان پر بڑا عبور رکھتے تھے۔ ان کی تحریرات بیش تر اردو میں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اردو میں ادیبوں سا رنگ اور انشا پردازوں سا زور نہیں پایا جاتا۔ جاذبیت و دل کشی کا کوئی عنصر موجود نہیں۔ ان میں تسلسل کا بڑا فقدان بھی ہے، تاہم اردو پر ان کی قدرت مسلمات میں سے ہے۔ نظم و نثر دونوں پر یکساں مہارت۔ حدائقِ بخشش ان کی شعری صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں میں ہے۔ پہلی دو جلدیں بانئ بریلویت کی حیات میں ہی شائع ہوئیں، جب کہ تیسری جلد بعد از وفات ان کے خلیفہ محبوب علی خان نے چھاپی۔ یہی وہ جلد ہے، جس میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر ایسے خراب اور گندے اشعار ہیں کہ دیوبندیوں کے اعتراضات نے اسے مارکیٹ سے آناً فاناً غائب کروا دیا ۔ آج تک رضاخانی ٹولے پر ان کے جوابات قرض ہیں۔
میرا تصور یہ تھا کہ بانئ بریلویت جب اردو پر اس درجہ مالکانہ دستگاه رکھتے تھے تو بریلی میں اردو کا بڑا عروج ہوگا، مگر وائے ناکامی!!  میں بریلی کی سڑکوں پر کافی گھوما، درگاہِ رضویہ کے علاوہ اردو سڑکوں پر کہیں نظر نہیں آئی۔ جب کہ دیوبند کے مسلم محلوں میں اردو کے علاوہ دوسری زبان بمشکل ہی ملے گی۔
*احسن رضا کے نکاح کی کار روائی*
اب ہم محفلِ نکاح میں تھے۔ آدمی وہی آٹھ دس۔ محلے کے امام صاحب نکاح کا رجسٹر لے کر آئے۔ عمر کوئی 46 کی ہوگی۔ سر پر برکاتی ٹوپی ، جس کا بالائی حصہ اتنا ہی خالی، جتنا اندرونی حصہ۔ کنویں کی منڈیروں کی طرح گول اور اونچائی دو تین منزلے کی۔ ڈھائی بجے کاغذی کار روائی ہوئی۔ مہر میں بڑی رقم کے ساتھ 786 روپے التزاماً شامل۔ گواہوں میں ایک نام میرا بھی رکھا گیا۔ میں نے اشارے سے منع بھی کیا، مگر مانا نہیں گیا۔ اندراج میں موجود تمام ناموں کے دستخط ہوئے تو میرا بھی دستخط ہوا۔ میرا دستخط دیکھ کر قاضیِ نکاح مرعوب ہو گئے اور اس کے بعد میرا احترام کرنے لگے۔ ان کا خط ہمارے یہاں کے درجۂ حفظ کے طلبہ کے برابر تھا۔ بد خطی سے میری طبیعت پر بوجھ پڑ جاتا ہے اور میں اس سے بری طرح متنفر رہتا ہوں۔
لڑکی سے ایجاب لیا گیا تو بطورِ گواہ میری موجودگی بھی تھی۔ قاضی صاحب نے اولاً لڑکی کو شہادتین پڑھایا، پھر ایجاب لیا اور اس کا اختتام *اقرار باللسان و تصدیق بالقلب* پہ کیا۔ وہاں سے آئے تو اب لڑکے سے بھی کلمۂ شہادت پڑھوایا گیا، اس کے ساتھ دوسرے کلمات بھی۔ پھر قبولیت کے کلمات ادا کرائے گئے۔ اخیر میں وہی *اقرار باللسان و تصدیق بالقلب* ۔ اور سب کے بعد خطبہ۔ تکمیلِ خطبہ کے بعد دعا ہوئی۔ قاضی صاحب نے دعا کے لیے مجھ سے درخواست کی، جو ان کی شرافت کہیے یا میرے دستخط کا رعب۔ میں نے منع کر دیا۔ نکاح کا سارا عمل مکمل ہونے کو تو ہو گیا، مگر میں حیران تھا کہ *سنیوں* کے نکاح میں غیر سنی طریقہ کیوں گوارا کیا گیا!! پھر جب *میں نے قبول کیا* لڑکی اور لڑکے نے کہہ دیا تو *اقرار باللسان و تصدیق بالقلب* کی تلقین کا کیا مطلب!! ان سب پر ستم یہ کہ نکاح کے گواہوں میں ایک نام میرا بھی شامل ہے، اب اللہ ہی جانتا ہے کہ احسن رضا صاحب کا نکاح ہوا بھی یا نہیں؟ بس دعا یہ ہے کہ ان کے پیشواؤں کو پتہ نہ چلے، ورنہ انعقادِ نکاح کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
[جاری]