Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 18, 2019

عظیم رہنما محمد مرسی سپرد خاک۔۔۔۔۔۔اہلیہ کو أخری دیدار کا موقع نہیں دیا گیا۔


اخوان المسلمون نے صدر کی موت کو ’قتل ‘ قرار دیتے ہوئے پوری دنیا میں مصر ی سفارت خانوں کے باہر مظاہرہ کرنے کی اپیل کی، وفات کے بعد مصر میں ریڈ الارم جاری، ترک صدر اردگان نے موت کی ذمہ داری مصری غاصبوں پر عائد کی، پوری دنیا میں مقبول قائد کی وفات کے بعد غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا سلسلہ جاری ، اہلیہ مرسی نے کہا ’میں میت کےلیے ظالموں کی منت کرکے اپنے شوہر کو شرمندہ نہیں کروں گی‘
_______________________
قاہرہ۔ ۱۸؍جون/صداۓوقت/ذراٸع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز مصر میں عدالتی کارروائی کے دوران وفات پاجانے والے مصر کے سابق صدر اور اخوان المسلمون کے عظیم سیاسی رہنما حافظ ڈاکٹر محمد مرسی کی تدفین قاہرہ کے مشرقی علاقے مدینۃ النصر میں مقامی وقت کے مطابق شب کے ڈھائی بجے کر دی گئی ۔  تدفین کے وقت سابق صدر کا صرف خاندان موجود تھا۔عوام الناس کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔یہاں تک کہ شہید صدر کی اہلیہ کو بھی آخری دیدار کا موقع نہیں دیاگیا۔اہلیہ مرسی نے کہا کہ ’میں میت کےلیے ظالموں کی منت کرکے اپنے شوہر کو شرمندہ نہیں کروں گی‘۔ صدر مرسی کے وکیل عبدالمنعم عبدالمقصود نے بتایا کہ آخری رسومات میں سابق صدر کے صرف اہل خانہ شریک ہوئے۔ محمد مرسی کے صاحبزادے احمد مرسی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ مصر کی حکومت نے انہیں اپنے والد کی میت آبائی صوبے شرقیہ لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہیں قاہرہ میں ہی اخوان المسلمین کے دیگر سینئر قائدین کے پہلو میں دفن کردیا گیا ہے۔بیٹے احمد مرسی نے الزام لگایا کہ مصر کی حکومت نے لوگوں کو سابق صدر کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت سے بھی روکا اور صرف خاندان کے چند افراد کو ان کی آخری رسومات 
میں شرکت کی اجازت دی۔

محمد مرسی کے اہلِ خانہ نے بھی ان کی موت کو قتل قرار دیا ہے۔ سابق صدر کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ 2013ء سے مسلسل قید میں تھے جس کے دوران انہیں کئی سال تک قیدِ تنہائی میں بھی رکھا گیا اور انہیں ڈاکٹروں تک رسائی نہیں دی گئی۔رپورٹ کے مطابق صدر مرسی کے جنازہ میں صحافیوں سمیت کسی کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم مصر کے آمرجنرل سیسی نے ورثاء پر یہ احسان ضرور کیا کہ گرفتار صاحبزادے اسامہ کو جنازے و تدفین میں شرکت کی اجازت دیدی۔ بعد ازاں مشرقی قاہرہ کے اس قبرستان میں سخت ترین سیکورٹی میں جسد خاکی کی تدفین عمل میں آئی، جہاں اخوان المسلمون کے تین سابقہ مرشد مدفون ہیں۔ واضح رہے کہ صدر مرسی کے سابق مرشد مہدی عاکف کے پہلو میں دفنائے گئے، شیخ مہدی کا جنازہ بھی 2017 میں جیل سے اٹھا تھا۔ اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا کا جنازہ بھی گھر کی خواتین نے اٹھایا تھا۔ والد کے علاوہ کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جبکہ نماز ان کے والد احمد عبد الرحمٰن البنا نے اکیلے پڑھی تھی۔ پھر مہدی عاکف کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔اطلاع کے مطابق اخوان المسلمون نے محمد مرسی کی موت کو ’مکمل طور پر قتل‘ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں موجود مصر کے سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کرنے کی اپیل کی ہے۔وہیں ہیومن رائٹس واچ کی مشرقِ وسطیٰ کی ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن نے محمد مرسی کی موت کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ محمد مرسی کو قید کے دوران صرف 3 بار اپنے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت دی گئی جبکہ انہیں ان کے وکیل اور ڈاکٹر سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے محمد مرسی کی موت کا الزام مصر کے ’غاصبوں‘ پر عائد کیا ہے جبکہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد ال ثانی نے ان کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔علامہ یوسف القرضاوی، مولانا سلمان حسینی ندوی سمیت دیگر علمائے کرام نے بھی شہید مرسی کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ عظیم رہنما کی وفات پر امت مسلمہ میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے ہندوستان سے لے کر فلسطین تک، ترکی سے لے کر قطر تک ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندوستان میں مختلف تنظیموں کی جانب سے کی گئی اپیل پرملک کے بڑے بڑے شہروں اور اداروں میں نماز جنازہ ادا کی گئی وہیں ایران، قطر، فلسطین، پاکستان، دوحہ ترکی کے استنبول، انقرہ شہروں میں نماز غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔ معزول صدر کے انتقال کی خبر جیسے ہی فلسطین کے غزہ پٹی میں پہنچی سوگ کا ماحول قائم ہوگیا، گھروں کی بتیاں بجھا دی گئیں۔ گھروں سے سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں، فلسطینی یتیم ہوگئے جیسے الفاظ روتی بلکتی خواتین اسلام کے منہ سے واضح طورپر سنائی دے رہےتھے۔  واضح رہے کہ محمد مرسی 1951ء میں مصر کے ضلع شرقیہ کے گاؤں ال ادوا میں پیدا ہوئے، انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ جبکہ امریکا سے پی ایچ ڈی کی۔مصری فوج نے 3 جولائی 2013ء کو مصر کی پہلی جمہوری حکومت کا اقتدار صرف ایک سال بعد اس کا تختہ الٹ کر ختم کر دیا تھا اور محمد مرسی کو ان کے سرکردہ وزراء اور اخوان المسلمون کے رہنماؤں سمیت گرفتار کر کے قید کر دیا تھا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کر لیے تھے۔مرسی کو معزول کرنے کے فیصلے کے خلاف اخوان المسلمون اور اس کی اتحادی جماعتوں نے سخت احتجاج کیا تھا اور انہوں نے قاہرہ میں 2 مقامات پر تقریباً ڈیڑھ ماہ تک دھرنے دیے تھے۔ان دھرنوں کے خلاف مصری فورسز نے 14 اگست 2013ء کو سخت کریک ڈاؤن کیا تھا اور اخوان اور دوسری جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں کو شہید کر دیا تھا۔وزارتِ خارجہ نے منصوبوں پر وسیع  پیمانے کی نظرِ ثانی ، ملک بھر میں سیکورٹی کے اقدامات میں سختی لانی شروع کر دی ہے۔مصری دفتر ِ خارجہ نے معزول سابق صدر محمد مرسی کی وفات کے بعد ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے۔دفتر نے تمام تر ملازمین کی چھٹیوں کو ختم کرتے ہوئے  سرکاری اداروں ، گرجا گھروں اور ہوٹلوں کی سیکورٹی  میں اضافہ کیا ہے۔وزارت نے علاوہ ازیں سڑکوں  پر سیکورٹی فورسسز میں اضافہ کیا ہے  اور دہشت گرد عناصر کے خلاف تدابیری آپریشنز کا موقع دینے والے "سی" منصوبے   پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔