Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 18, 2019

مشترکہ فیملی نظام میں ماں کا کردار۔


*عزیز اعظمی اصلاحی* 
    اسرولی سرائےمیر / صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترقی یافتہ ممالک کی طرح شادی کے بعد بیٹا اپنی نئی نویلی بیگم کے ساتھ والدین کا احترام کرتے ہوئے ، رشتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ، آپسی  تعلقات اور بھائی چارے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اپنی ازدواجی زندگی کی شروعات اپنے نئے گھر سے کرے اور ایک خوبصورت اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارے یہ تصور ہندوستان جیسے ملک میں ہر خاندان کے لئے ممکن نہیں جہاں غربت بھات بھات کرتے ہوئے دم توڑ جاتی ہو ، زندگی کو بچانے کے لئے روٹی کا ایک ٹکڑا میسر نہ ہو اور ووٹ کی خاطرکروڑوں کی شراب  بانٹ دی جاتی ہو ، جہاں بچوں کے لئے آکسیجن ، مریضوں اور مُردوں  کے لئے ایمبولینس نہ ہو پر جانوروں کے لئے بہترین شیلٹر اور بہترین ایمبولینس کی سہولیات مہیہ ہو ، ایسے دیش میں مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
جہاں غربت اور بے روزگاری کے سبب ایک ہی چھت کے نیچے کئی کئی خاندان اپنی زنگی گزار دیتے ہیں۔ اور جہاں کئی فیملیاں ایک ساتھ رہتی ہوں اس میں دشواری نہ ہو شکایتیں نہ ہوں یہ بھی ممکن نہیں ۔

مشترکہ فیملی نظام کی اہمیت اورافادیت کے درمیان ایک بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر گھر کا ایک فرد صاحب معاش ہے تو گھر کے دیگر افراد صاحب فراش ، وہ اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ، بچوں کے مستقبل سے بے پرواہ ، تعلیم و تربیت سے لا علم ماڑی دار کرتا پہن کر کسی سیاسی شخصیت کے پیچھے گھومنے میں اپنی عزت اور شان سمجھتے ہیں ، تھوڑے دن انکی چال میں شان اور لہجے میں آن تو رہتی ہے لیکن ایک دن وہ آتا ہے کہ نہ آن  باقی رہتی ہے نہ شان، اسی روایت اور بیماری کے شکارخانوادوں میں سے ایک خانوادہ میرا بھی تھا.

دادا ملیشیا رہتے تھے گھر میں خوشحالی تھی ، ہر چیز کی فراوانی تھی اس لئے ابا اور چچا نے کبھی کمانے کے بارے میں سوچا نہیں ، اماں ہمیشہ ابا سے کہتی کہ آپ بھی کچھ زمہ داری سنبھالئے ، کچھ کریئے ، ایک آدمی کمائے اور پورا گھر بیٹھ کر کھائے نہ یہ عقلمندی ہے ، نہ یہ مرد کے لئے شایان شان ہے ، اور نہ ہی کسی مشترکہ نظام کو مستحکم اور قائم رکھنے کے لئے مناسب ، بیوی اپنے شوہر اور بیٹے اپنے باپ کی کمائی پر ناز کرتے ہیں دادا اور تایا کی کمائی پر نہیں لیکن دادا کے ہر مہینے آنے والے ڈالر نے ابا کو اس قدر آرام پرست اور سست بنا دیا تھا کہ نہ تو ان پر اماں کی باتوں کا کوئی اثر تھا اور نہ ہی مستقبل کی کوئی فکر ، اماں کی انھیں باتوں پراکثر وہ اماں سے ناراض رہتے کہ تم مجھے کیوں ہر بار کچھ کرنے کی صلاح دیتی ہو تمھیں کس چیز کی کمی ہے اماں کہتیں کہ کسی چیز کی کمی تو نہیں لیکن وقت اور حالات ہمیشہ ایک جیسےنہیں رہتے کل بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا وہ کیا کریں گے، نہ تو اس گھر میں تعلیم کا کوئی ماحول ہے نہ کوئی رجحان دن بھر غیر ضروری باتیں ، سیاسی محفلیں ، بڑی بڑی باتیں جو اس گھر اور بچوں کے لئے ناسور ہیں لیکن آپ سمجھتے کہاں ہیں، لیکن اب  آپ اپنے بچوں کے بارے میں سوچئے انکی تعلیم اور انکے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہئے ،  ورنہ  یہ بڑی بڑی باتیں ، سیاسی محفلیں اس دن کافور ہو جائیں گی جس دن ابا ملیشیا چھوڑ دینگے اب انکی عمر اور صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کی وہ مزید کچھ دن ملیشیا میں رہ کر گھر کے جوان مردوں پر امیری کا تاج پہنائیں ، کب سمجھیں گے آپ ! جب وقت ہاتھ سے نکل جائے گا تب.

لیکن ابا اپنی محفلوں میں مست یہ سب کچھ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر تھے وہ سمجھتے تھے جس طرح آج وقت ہماری مٹھی میں ہے کل بھی اسی طرح ہوگا ، کاش ابا بھی اماں کی طرح پڑھے لکھے ہوتے تو تعلیم کو سمجھتے ، موسی و فرعون ، ہارون وقارون کا مطالعہ کیا ہوتا تو انجام سے واقف ہوتے ، حالات کو سمجھتے مغرور نہ ہوتے.

بالآخراسی طرح وقت گزرتا گیا ، عمر ڈھلتی گئ اور ایک دن وہ  آیا کہ دادا نے ملیشیا چھوڑ دیا ، اور کچھ ہی دن بعد وقت بدلنے لگا ، حالات کمزور ہونے لگے ، سیاسی محفلیں ختم ہونے لگیں ، دربان کی طرح دن رات بیٹھنے والوں نے چوکھٹ چھوڑ دی ، گھریلو نا اتفاقیاں شروع ہو گئیں ، اور کچھ ہی دن بعد مشترکہ خاندانی نظام کی مستحکم بنیاد ہل گئی ، ایک با حیثیت گھرانے کا ٹوٹ جانا ،  بھائیوں کا الگ ہو جانا ، ایک ہی چھت کے نیچے کئ چولھ  { کچن } کا بن جانا معاشرے میں اپنے آپکو باعزت اور باحیثیت سمجھنے والے خاندان کے لئے یہ وقت کسی عذاب سے کم نہ تھا ۔

مشترکہ خاندانی نظام کی ساری افادیت کے بیچ ایک  بہت بڑی کمی یہ بھی ہے کہ آپسی اتفاق اور خوش اسلوبی سے الگ ہونے کے بجائے جب تک بھائیوں میں نا اتفاقی اور عورتوں میں لڑائی نہ ہو ہم ایک دوسرے سے الگ  نہیں ہوتے اور یہی وہ جاہلانہ اور فرسودہ روایت ہے جو برسوں سے قائم خاندانی طاقت ، محبت اور خوشحالی کا گلہ گھونٹ دیتی ہے پھر جس کو بحال ہو نے میں ایک عرصہ بیت جاتا ہے.

ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا جس کا اماں کو ڈر تھا ، گھر ، جائداد سب تقسیم ہوگئے ، ایک دوسرے سے بات چیت بند ہو گئی ، آپسی نا اتفاقیاں ، اور تلخیاں بڑھتی چلی گئیں ، مالی و سماجی اعتبار سے  کمزور ہوتےگئے ، عزت و مرتبہ چھپانے کی خاطر اماں کے  گہنے ، چوڑی، کنگن سب بک گئے ، پائی پائی کے محتاج ہو گئے جھوٹی شان اور خاندانی وقار کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ تو نہیں پھیلاتے لیکن ہماری خستہ حالی و غربت لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی  ، کل تک گاؤں کے چند با حیثیت لوگوں میں شمار ہونے والا ہمارا گھرانہ آج گاؤں کے چند مفلوک الحال  لوگوں میں شمار ہونے لگا.

اماں ایک حساس اور غیرت مند دل رکھتی تھیں یہ پریشانی ، یہ ذلت و رسوائی اماں کے لئے ناقابل قبول تھی اور وہ  اپنی عزت اور غیرت بچانےکی خاطر ابا کو زبردستی تیار کیا اور بامبے چلی آئیں.

اماں کے بڑے بھائی شفیق مامو ایک سپاری اسٹور میں کام کرتے تھے اماں نے انکی مدد سے ایک کھولی کرائے پر لے لی ، تعلیم کبھی رائیگاں نہیں جاتی اماں گاؤں کے ہی نسواں اسکول سے فارغہ تھیں جب آس پاس کے لوگوں سے مانوس ہوئیں تو صبح  شام  ٹیوشن پڑھانے لگیں ابو چھوٹی موٹی نوکری کرنے لگے جس سے گھر کا کرایہ ، اسکول کی فیس اور دیگر اخراجات کسی طرح پورے ہوتے عید ، بقرعید پر کبھی نئے کپڑے بنتے کبھی نہیں ابا کا آرام پرست مزاج ، سست طبیعت کبھی کام پر جاتے کبھی نہیں ابا کے اس رویئے سے تنگ آکر اماں نے ایک سلائی سینٹر میں نوکری بھی کرلیں ، صبح شام بچوں کو ٹیوشن پڑھانا ، نوکری کرنا ، کھانا بنانا ، ہمیں وقت پر اسکول بھیجنا اماں کی اس محنت اور جفاکشی کو دیکھ کر دل بہت روتا میں اماں سے کہتا کہ مجھے اسکول سے نکال کر کہیں کام پر لگادیں تو مجھے سمجھاتی کہ بیٹا اگر تم مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو تو تمہیں پڑھنا ہوگا ، اگر تم مجھے باعزت دیکھنا چاہتے ہو تو تمھیں تعلیم میں آگے نکلنا ہوگا تمہاری چھوٹی سی کمائی سے نہ ہمارے حالات بدلینگے نہ اس غربت سے نجات ۔

لیکن تمہاری تعلیم سے ہمارا کھویا ہوا وقار بھی حاصل ہوگا اور غربت سے نجات بھی ، بیٹا تم صرف پڑھو اور یہ سوچ کر پڑھو کہ مجھے اپنی خاندان  اپنے ماں باپ کو اسی مقام پر لا کھڑا کرنا ہے جو مقام و مرتبہ کسی زمانے میں تھا ، اپنے بھائی ، بہن کو تعلیم یافتہ بنا کر یہ ثابت کرنا ہے کہ عزت و وقار کا پیمانہ تعلیم ہے دولت نہیں ، خوشحالی کا راز خود اعتمادی میں ہے انحصاری پر نہیں ، میرے بیٹے اگر تم نے  میرے اس خواب کو سچ کردیا تو میں سمجھونگی کہ میں کامیاب ہو گئی ، میرا گاؤں چھوڑنا با مقصد ہو گیا اماں کی ان جذباتی باتوں نے مجھے اتنا پراعتماد اور اتنا پرعزم بنایا کہ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ اگر اماں کا مقصد مجھے پڑھانا ہے تو میرا مقصد بھی پڑھنا اور اماں کے خواب کو پورا کرنا ہے.

اماں نے مجھے پڑھانے کے لئے دن رات ایک کردیا ، صبح ، شام ٹیوشن پڑھانا، دن بھر سلائی سینڑ میں کام کرنا ، پھر گھر آکر کھانا بنانا ، کھلانا ،  بیمار ابا کی دیکھ بھال کرنا ایسا لگتا کہ اماں انسان نہیں کوئی مشین ہیں ، ہماری خاطر انھوں نے اپنی زندگی کو قربان کردیا ، اپنا سکھ ، چین تباہ کر لیا اوراپنے آپکو تباہ کرکے ہمیں سنوار دیا.

باخدا میری ماں کسی باپ سے کم نہ تھی ، تعلیم کے تئین انکا جذبہ ، انکی ایثار و قربانی کہ آج میں ڈاکٹر ہوں ، بہن لکچرر ہے ، جاوید چھوٹا بھائی پولیس آفیسر ہے ، کاش اماں کچھ دن اور زندہ ہوتیں تو اپنے خوابوں کی خوبصورت تعبیر دیکھ کر بے انتہا خوش ہوتیں ، ہماری کامیابی پرفخر کرتیں، اپنا کھویا ہوا وقار پاکر کِھل اٹھتیں پر افسوس کہ آج وہ ہمارے بیچ نہیں رہیں لیکن میرا یہ وعدہ ہے کہ تعلیم کے لئے انکی قربانی اور جذبے کو زندہ رکھنے کے لئے گاؤں میں انکے نام سے ایک اسکول بنواکر انکو خراج تحسین ضرور پیش کرونگا ، تاکہ آنے والی نسل ماں کے مرتبے اورتعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تعلیم یافتہ اور پروقار زندگی گزار سکے ، اور یہ سمجھ سکے کہ کامیابی ، عزت ، رتبہ و مرتبہ سیاست سے نہیں بالکہ کی تعلیم سے حاصل کیا جاتا ہے ۔