Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 1, 2019

عید الفطر،، اہمیت اور آداب۔

تحریر/ *ریان داؤد*
*سیہی پور اعظم گڑھ*/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

عید الفطر اہلِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے۔اس کو عیداس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہر سال واپس لوٹ کر آتی ہے اور بار بار آتی رہتی ہے۔اس کے ایک معنی خوشی اور مسرت کے بھی ہیں اور فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں،ا س دن سے روزہ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تہوار کو عید الفطر کا نام دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’عید الفطر وہ دن ہے جب لوگ رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے ہیں اور عید ا لاضحی وہ دن ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے صرف دو عیدیں ہیں۔بعض لوگوں نے جو دوسری عیدیں ایجاد کر رکھی ہیں وہ بدعت ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں 
*صدقہ فطر ادا کرنا*:
عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھول چوک یا غلطی ہوتی ہیں ،اس کی تلافی کے لیے رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے۔ آپﷺ  صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر کیا 

صدقہ فطر کی مشروعیت نماز سے پہلے تک ہے،بہتر ہے کہ اسے رمضان ہی میں ادا کردیا جائے تا کہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ یہ ہر مسلمان مرد عورت چھوٹے بڑے ،سب پر فرض ہے۔
*چاند رات میں عید الفطر کی تیاری*:
چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالی سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو 
دعوت دیتے ہوں ۔

مگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔اس رات بازاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.. شانوں سے شانے ٹکراتے ہیں،
اس رات آپس میں چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق ہوتا ہے، گرل فرینڈا ور بوائے فرینڈایک دوسرے کے لیے تحفے خریدتے ہیں ، خواہ والدین یا بھائی بہن کے لیے خریدیں یا نہ خریدیں،لڑکیاں بے پردہ گھومتی ہیں،اجنبی مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنی جاتی ہے یا مہندی لگوائی جاتی ہے،یہ بھی زنا کی ایک شکل ہے ۔حدیثِ نبوی ہے :
حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے لیے اس کے حصہ کا زنا مل کر رہے گا،شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے،شہوانی باتوں کا سننا کانوں کا زنا ہے،اس موضوع پر گفتگو کرنا زبان کا زنا ہے، پکڑنا ہاتھ کا زنا ہے،اس کے لیے چل کر جانا پیروں کا زنا ہے،خواہش اور تمنا دل کا زنا ہے اور شرم گاہ یا تو زنا کا عمل کر بیٹھے گی یا ارتکاب سے رک جائے 
گی(بخاری:)

یہ کام اس وقت انجام پاتے ہیں، جب رمضان کوگذرے ہوئے ایک دن بھی نہیں ہوتااور ان کو عید کے نام پر کیا جاتا ہے جب کہ عید، رمضان المبارک کے ایک مہینے کی روحانی وجسمانی مشق اور ٹرینگ کے بعد خود کی دینی ساخت وپرداخت کی پیمائش کا بہترین آلہ اورذریعہ ہیے کہ ہم اس دن کے بعد سے کس روش کو اپنائں گے اور خوشی کے موقع پر   کون سا رویہ اختیار کریں گے؟وہ جو شیطان کو پسند ہے یا وہ جس کی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تعلیم دی ہے اوراس میں ہم اپنے نفس کی پیروی کریں گے یا احکامِ شریعت کی اتباع کریں گے؟
اس وقت والدین ،خاص کر ماں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی عید کی تیاری میں کن چیزوں کا خیال رکھ رہی ہیں،ان کے لباس اور زیب و زینت کے سامان میں اسراف و تبذیر اور نمائش سے کام لے رہی ہیں،جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جس کو شیطانی عمل کہا گیا ہے یا حکمت اور تدبر سے ان کے دلوں کو خوش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۔وکان الشیطان لربہ کفورا (بنی اسرائیل:27)
فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے
اس لیے اگر اللہ تعالی نے آپ کو مال سے نوازا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے،بہت قیمتی کپڑے اور دوسری چیزیں اپنے بچوں پر نہ لادیں کہ ان کو دیکھ کر خود پر رونا آئے،اسی لیے کہا گیا ہے کہ غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں یا پھلوں کے چھلکے نہ پھیکے جائیں کہ اس کے بچے بھی دیکھ کر مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
*عید الفطر کی دعوتیں*:
صاحبِ مال کو عیدکے موقع پر غریبوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے تا کہ وہ اور ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں۔انھیں اس دن اپنے گھروں میں بلانا چاہیے اور خو دبھی ان کے یہاں جانا چاہیے، تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔وہ یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوۃ دینا چھوڑ دیا ہے، جس کو اللہ تعالی نے غریبوں کے لیے مقرر کیا ہے۔اس سنہرے اصول کو سکھ قوم نے اپنا لیا ،اسی وجہ سے ان میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے ۔
عموماً ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنا اسٹیٹس دیکھ کر دوست احباب کو بلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کر دیتے ہیں۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔نبیِ کریم ﷺ نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بارہا تاکید کی ہے۔  آپﷺ نے فرمایا؛بیواؤں اور مسکینوں کی خبرگیری کرنے والا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔اپنے دلوں میں اللہ تعالی سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔اللہ تعالی نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیاء کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں 
اس لیے عید کے دن اللہ تعالی سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گذر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں ۔اللہ تعالی اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا(ان شاء اللہ )
اسی ضمن میں ایک اہم اور خاص بات یہ ہیکہ عید الفطر جیسے اس مبارک اور مسعود دن کو ہم نے مغربی تہذیب کی جھنکاروں اور بے حیائ وعریانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہیے ادھر گذشتہ چند سالوں سے مسلم معاشرے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سینما ہال اور تھیٹر کا رخ کرتی ہیے اسوجہ سے کہ فلمی دنیا کے تاجروں کی طرف سے نام نہاد مسلم اداکاروں کی فلموں کو ریلیز کرنے کی تاریخ اسی دن کو متعین کیا جاتا ہیے اس کا تذکرہ بڑی شان سے اور فخریہ انداز میں مختلف اشتہارات کے ذریعہ کیا جاتا ہیے اور مسلم قوم کی ایک اچھی خاصی رقم جو کہ غرباء ومساکین اور اپنے اہل وعیال کے درمیان خرچ ہونی چاہیے وہ فحاشی وبرائ کو بڑھاوا دینے میں صرف ہوجاتی ہیے.یہ مسلم قوم کی پستی کی انتہاء ہیے ہم سب کو اس سے بالکلیہ طور پر پرہیز کرنا چاہیۓ اور تباہی کے بڑھتے ہوۓ اس طوفان کا حتی الامکان سد باب کرنا ہوگا قولاً وعملاً تاکہ ایسا نہ محسوس ہو کہ رمضان کے جاتے ہی شیطان آزاد ہو کر اپنا کام انجام دینے لگے ہیں۔
۔
*عید کی سنتیں*:
(1)غسل کرنا(2)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(3)خوشبو لگانا(4)کھجور کھانا،نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی
(5)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے
(6) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
   *ﻋﯿﺪ ﺍﻟﻔﻄﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ*
ﻋﯿﺪ الفطر ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﮫ ﺯﺍﺋﺪ ﺗﮑﺒﯿﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮞ؛ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﯿﺪ ﺍﻟﻔﻄﺮ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﺯﺍﺋﺪ ﭼﮫ ﺗﮑﺒﯿﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ) ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ( ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﮑﻤّﻞ ﺛﻨﺎﺀ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺛﻨﺎﺀ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ، ﺗﯿﻦ ﺗﮑﺒﯿﺮ ) ﺍﺳﯽ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﮐﻮ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺯﺍﺋﺪ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ( ﮐﮩﮯ۔ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺗﮑﺒﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﮫ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ۔ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺗﮑﺒﯿﺮ ) ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ( ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻮﺭﮦ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﮐﻌﺖ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﮐﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﮦ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ، ﭘﮭﺮ ﺗﯿﻦ ﺯﺍﺋﺪ ﺗﮑﺒﯿﺮﯾﮟ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺗﮑﺒﯿﺮ ) ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ( ﻣﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺭﮐﻮﻉ ﻣﯿﮟ ﭼﻼﺟﺎﺋﮯ۔ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﺣﺼّﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﯿﺪ ﺍﻻﺿﺤﯽ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻄﺒﮧ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ؛ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻣﺎﻡ ﺩﻭ ﺧﻄﺒﮯ ﭘﮍﮬﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﮐﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻥ ﺧﻄﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ
*شوال کے چھ روزے رکھنا*:
اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں۔حضرت ابوایوبؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا!جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو اس کو عمر بھر روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا(مسلم:1165)
الغرض...عید الفطر ہو یا عید الأضحی یہ مسلمانوں کے دو عظیم الشان تہوار ہیں جس میں بندہ کی  اللہ کی طرف انعام واکرام کے ذریعہ مہمان نوازی ہوا کرتی ہیے لہذا ایک دینی ماحول اور اسلامی رنگ وڈھنک کے ساتھ اس خوشی کو اپنوں اور غیروں ہر ایک کے ساتھ منائیں یہی شرعی حدود کاتقاضہ ہیے اوراسلاف کا معمول بھی....وفقنا اللہ وایاکم اجمعین...آمین