Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 20, 2019

نہیں جانتا میں کون ہوں۔!!!؟


ا از/یم ودودساجد/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی دہلی کے مکھرجی نگر میں دو تین روز قبل ایک بڑا واقعہ ہوا ۔ ایک ای رکشہ چلانے والے سکھ ڈرائیورکا رکشہ پولس کی ایک گشتی گاڑی سے ہلکا سا ٹکرا گیا ۔ اس پر ایک پولس والے نے رکشہ والے کو برا بھلا کہا۔۔  رکشہ والے نے اپنی بغل میں لٹکی ہوئی تلوار نکال کر پولس والے پر لہرانی شروع کردی ۔
پولس والا یہ دیکھ کر گھبراگیا اور دوڑ کر قریب ہی میں واقع پولس اسٹیشن گیا اور بتایا کہ ایک رکشہ ڈرائیور ہذیانی انداز میں اس پر تلوار سے حملہ کرنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا آرہا ہے ۔ وہاں موجود انسپکٹر نے آٹھ دس پولس والوں کو اس کے ساتھ کردیا ۔ ان پولس والوں نے باہر آکر دیکھا تو واقعی رکشہ والا اب بھی تلوار لہرا رہا تھا ۔
اب یہاں سے بہت توجہ سے ملاحظہ کیجئے گا:
اس عرصہ میں یہ سکھ ڈرائیور پہلے سے بھی زیادہ خلجان‘ہیجان اور ہذیان میں مبتلا ہوگیا تھا ۔ اس نے اتنے سارے پولس والوں کو دیکھا تو اسے متعلقہ پولس والے پر اور غصہ آگیا ۔۔۔ اسے آٹھ دس پولس والے مل کر قابو کرنے کی تگ ودو کر رہے تھے۔۔۔ اتنے میں سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک انسپکٹر نے پیچھے سے جاکر اسے دبوچ لیا لیکن اس نے تلوار سے پولس والے پر وار کر ہی دیا اورتقریباً اس کا سر پھاڑ دیا ۔ معلوم ہوا ہے کہ اس پولس والے کے سر میں 20 سے زیادہ ٹانکے آئے ہیں ۔ اسے ابھی خطرہ سے باہر نہیں کہا جاسکتا ۔ ڈاکٹر کی تفصیلی رپورٹ آنی ابھی باقی ہے کہ زخم بہت گہرا اور مہلک تو نہیں ۔۔۔
پولس والوں نے اپنے سینئرساتھی کا یہ حال دیکھا تو انہیں بھی غصہ آگیا ۔ انہوں نے اس کی تلوار چھیننی چاہی ۔ بڑی مشکل سے اسے دبوچ کر گرادیا گیا۔ یہ دیکھ کر اس کا ’نابالغ‘لڑکا اپنے باپ کی مددکو آیا اور پولس والوں سے الجھ گیا ۔ پولس والوں نے اب دونوں کو قابو میں کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا ۔ اس کی ویڈیو اس وقت پورے ملک میں گشت کر رہی ہے ۔ اسے یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔


اس واقعہ کے چند لمحات کے اندر اندر مکھرجی نگر کے رہنے والے سینکڑوں سکھ تھانے پر پہنچ گئے اور اتنا ہنگامہ کیا کہ پورا تھانہ بھیگی بلی بنا ادھر ادھر چھپتا رہا ۔۔۔ وہاں انہوں نے خوب توڑ پھوڑ مچائی ۔۔۔اسی وقت دہلی کے پولس کمشنر‘دہلی کے لیفٹننٹ گورنراور دہلی کے وزیر اعلی بھی حرکت میں آگئے ۔ یہی نہیں وزیر داخلہ امت شاہ تک نے دہلی کے پولس کمشنر سے رپورٹ طلب کرلی ۔ وزارت داخلہ کے سینئر افسروں نے پولس کمشنر کو ہدایت دے ڈالی کہ خاطی پولس افسروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے ۔ لہذا پولس کمشنر نے آٹھ پولس والوں کو معطل کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرادی ۔۔۔۔

افسروں نے جب دیکھا کہ زخمی پولس افسرکے اہل خانہ اور دوسرے اہل کارصدمہ میں ہیں تو زخمی افسر کی شکایت پر سکھ حملہ آور کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرلی گئی ۔ اس ایف آئی آر میں ایک اطلاع کے مطابق صرف دفعہ 307 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیاہے ۔ 307 ارادہ قتل سے بحث کرتی ہے ۔ انگریزی کے تمام بڑے اخبارات نے اس واقعہ پربڑی بڑی خبریں شائع کیں ۔ انڈین ایکسپریس جیسے سنجیدہ ترین اخبار تک نے آدھا صفحہ اس کے لئے وقف کردیا ۔ دوسرے روز بھی خوب کوریج ہوئی ۔ تیسرے روز بھی کوریج ہوئی ۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ ہر سیاسی پارٹی میں موجود سکھ ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ تھانے پر پہنچ گئے ۔۔۔ انہوں نے تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا۔۔۔
عام آدمی پارٹی‘بی جے پی‘کانگریس اور دوسری تمام پارٹیوں کے سکھ سیاستداں بھی حملہ آور سکھ کی حمایت میں میدان میں آگئے ۔۔ وزیر اعلی اروند کجریوال تو سکھ حملہ آور کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔ رہی سہی کسر 19جون کودہلی ہائی کورٹ کی دورکنی بنچ نے پوری کردی ۔ ججوں نے کھلی عدالت میں واقعہ کی ویڈیو بھی دیکھی ۔ پولس کو بہت سخت سست کہا اور رپورٹ طلب کی۔۔۔
مجھے حیرت اس امر پر ہے کہ دہلی کے پولیس کمشنر سے لے کر لیفٹننٹ گورنر تک' وزیر اعلی سے لے کر وزیر داخلہ تک اور اخبارات سے لے کر عدالت تک کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اس ملزم سکھ ڈرائیور نے پولس والوں پر وہ تلوار کیوں لہرائی جو اسے مذہبی آزادی کے تحت قانون نے محض لٹکانے کی اجازت دی ہے۔۔۔ اور کیوں اس نے اس تلوار سے پولس والے کے سر پر وار کیا؟ اس کے خلاف دفعہ 327 تک نہیں لگائی گئی جو ہتھیار لہرانے سے بحث کرتی ہے۔۔۔ ایسی کوئی صورت حال ویڈیو میں نظر نہیں آتی کہ جس کے تحت تلوار لہرانا اور چلانا ضروری ہوگیا تھا۔۔۔ کسی چینل میں بھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ یہ سوال اٹھاتا۔۔۔ یعنی اگر یہ بد دماغ سکھ ڈرائیور ایک ساتھ ان آٹھ دس پولیس والوں کے سر بھی پھاڑ دیتا تب بھی اس کا کچھ نہ بگڑتا۔۔۔ وزیر اعلیٰ نے بھی پولس والوں کی ہی غلطی نکالی اور وزیر داخلہ نے بھی۔۔۔ پولیس کمشنر نے بھی انہیں ہی قصوروار قرار دیا اور عدالت نے بھی۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیوں۔۔۔۔۔؟ ایک بہت بڑا 'کیوں' منہ پھاڑے کھڑا ہے مگر کوئی یہ سوال تک نہیں کر رہا ہے۔۔۔ 
میرے پاس اس کیوں کا جواب ہے۔۔۔ایسا اس لئے ہوا کہ یہاں سے لے کر وہاں تک' ہرسیاسی پارٹی کے سکھ لیڈروں سے لے کر سکھ اداروں کے عہدیداروں تک۔۔۔ سب لنگوٹ کس کر پولس کے خلاف اور اس ملزم سکھ کے حق میں میدان میں کود پڑے ۔۔۔۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ سکھ اکالی ہے یا غیر اکالی' لونگووال ہے یا سونووال' داڑھی والا ہے یا مونا'نیلی پگڑی والا ہے یا لال پگڑی والا' دلت سکھ ہے یا ڈیرے والا' لمبی داڑھی والا ہے یا چھوٹی داڑھی والا۔۔۔۔ انہوں نے بس یہ دیکھا کہ وہ سکھ ہے۔۔۔ انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کے مذہبی شعائر میں سے ایک' دستار کی بے حرمتی ہوئی ہے۔۔۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس نے تلوار لہرائی ۔۔۔انہوں نے بس یہ دیکھا کہ ایک سکھ کو پولیس نے گھیرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
یہ ملزم سکھ کوئی بہت گیانی یا عزت دار شہری بھی نہیں ہے۔۔۔ انڈین ایکسپریس نے آج یہ اطلاع دی ہے کہ اس 49 سالہ سکھ پر پہلے بھی 307 کے کئی مقدمات قائم ہوچکے ہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ ایک گرودوارہ کے سیوادار اور مینجر پر تلوار لہرانے کے الزام میں وہ 2013 اور 2015 میں بھی جیل جاچکا ہے۔۔۔ ایسے شخص کی حمایت کا یہ حال۔۔۔۔ دیکھا آپ نے؟
اب آئیے۔۔۔۔۔
یہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔۔
اِسی رمضان میں سحری کے بعد نئی دہلی کے گاندھی نگر علاقے میں آٹھ دس پولیس والے ایک مسلم گھرانہ میں غیر قانونی طورپر دروازہ توڑ کر آدھمکے۔۔۔ گھر کے مردوں پر لاٹھی ڈنڈوں کی بارش کی اور ہاتھ پاؤں توڑ ڈالے۔۔۔ روزہ دار عورتوں اور بچوں تک کو زد و کوب کیا۔۔۔ لوگ پوچھتے رہے کہ ان کا قصور کیا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ آس پاس کے ہندو مکینوں نے بھی ان کی شرافت کی گواہی دی لیکن پولیس والوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔معلوم ہوا کہ وہ سٹے بازوں کی تلاش میں آئے تھے لیکن جب سٹے باز ہاتھ نہ لگے تو اس شریف مسلم گھرانہ پر حملہ کردیا۔۔۔۔ انڈین ایکسپریس اور یوٹیوب کے بعض مسلم چینلوں نے اس واقعہ کو شائع اور نشر کیا۔۔۔ لیکن نہ وزیر اعلی کجریوال حرکت میں آئے اور نہ وزیر داخلہ امت شاہ۔۔۔۔ پولس کمشنر نے خاطی پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔۔۔۔ عدالت کے کسی جج نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔۔۔۔
کجریوال سے لے کر امت شاہ تک اور پولیس کمشنر سے لے کر ججوں تک۔۔۔سب کو معلوم تھا کہ مظلوم مسلم گھرانہ پر پولیس کے ظلم وستم کے خلاف نہ کوئی مسلم ایم ایل اے آئے گا نہ ایم پی۔۔۔۔ نہ کوئی امام آئے گا اور نہ کوئی عالم۔۔۔۔ نہ کوئی دیوبندی آئے گا اور نہ بریلوی ۔۔۔۔ اس لئے اس مسلم گھرانہ کا حال کسی نے پوچھا اور نہ ظالم پولیس والوں سے کوئی باز پرس ہوئی۔۔۔۔
کس جمعیت اور جماعت کا نام لوں۔۔۔۔ کس قائد اور پیشوا کو پکاروں۔۔۔۔ میں گھِر گیا تو ہاتھ بھی نہ اٹھاسکوں گا۔۔۔ لاٹھی اور تلوار تو بہت دور۔۔۔ بس چُپ چاپ پِٹ جاؤں گا۔۔۔۔ جانتا ہوں کہ ظالم پولیس والوں کے ہاتھ بھی پکڑنے کی کوشش کی تو دہشت گردی کی ساری دفعات عاید ہوجائیں گی۔۔۔ گھر کا گھر پھنس جائے گا۔۔۔۔ کوئی مدد کو نہیں آئے گا۔۔۔۔ وہ تلوار لہراکر اور پولس والے کا سر پھاڑکر بھی مظلوم۔۔۔۔۔ میں سر جھکاکر لاٹھیاں کھاکر بھی قصور وار۔۔۔۔ قصور کس کا ہے۔۔۔۔؟ بس قصور بھی میرا ہی ہے۔۔۔ کیوں کہ میں کہیں دیوبندی ہوں ۔۔۔۔ کہیں بریلوی ہوں ۔۔۔۔ کہیں سنی اور شیعہ ہوں ۔۔۔۔ میرے قائدین ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے بس یہی حساب لگاتے ہیں کہ میں اِن میں سے کون ہوں ' کیا ہوں۔۔۔۔۔ بارِ الہا تو ہی بتادے میں کون ہوں ' کیا ہوں۔۔۔۔۔