Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 13, 2019

مروڈ جنجیرہ کا ایک یادگار سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری قسط۔

از۔۔شرف الدین عظیم قاسمی۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے ساڑھے نو سو سال پہلے گیارہویں صدی عیسوی میں حبشہ افریقہ کے کچھ تاجر بغرض تجارت ہندوستان آئے، اوریہاں کی خوشگوار فضاؤں ،روح افزا سبزہ زاروں کے حسن دلربائی اور ان کے جمال دلنشیں کے ایسے اسیر ہوئے کہ اپنا وطن بھول کر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وجود عزم وہمت سے آراستہ تھا،طبیعت میں جہاں بانی کا عنصر تھا جس کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں وہاں کی آبادیوں کو منظم کردیا اور چھوٹی سی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ نظم وضبط اور قوانین کی اہمیت تھی اس لیے کچھ خوبصورت اور کھلی فضا اور کچھ امن و امان اور خوشحالی نے سیکڑوں خاندانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اور بحر عرب کے ساحلوں پر ایک چھوٹی سی مسلم ریاست وجود میں آگئی۔جس کی باگ ڈور حبشی نزاد شخص سلطان صدیق جوہر کے 

ہاتھوں میں آئی۔
اس پیکر عزم و  استقلال نے ریاست کے استحکام کے لیے گیارہویں صدی عیسوی میں ساحل سے تقریباً چھ یا سات سو میٹر کے فاصلے پر واقع سمندر میں ایک زرخیز جزیرے میں قلعے کی بنیاد رکھی ۔اس مختصر سے  جزیرے کا کل رقبہ 22/ایکڑ پر مشتمل ہے،  اور چاروں طرف سے سمندر میں عظیم الجثہ قوی ہیکل دیواروں کے ذریعے اس پورے جزیرے کو اس طرح محفوظ کردیاگیا ہے کہ قلعے کی کوئی عمارت باہر سے نظر نہیں آتی ہے، ان کی فصیلوں پر متعین فوجیوں کو بھی باہر سے دیکھا نہیں جاسکتا اور محافظین ودیگر افراد روشن دانوں سے باہر کی ساری چیزیں دیکھ سکتے تھے،
یہی وجہ تھی کہ اس قلعے کو فتح کرنے کے لئے ہندوستان کے راجاؤں سے لیکر پرتگالیوں اور انگریزوں نے متعدد بار قسمت آزمائی کی،مگر کامیاب نہ ہو سکے،شواجی نے کوکن کے سارے قلعے فتح کئے مگر اس پر اس کا زور نہ چل سکا۔
دیواریں انتہائی مضبوط اور بے شمار منارے کی بنیادوں کی طرح مدور شکل میں ہیں'جس کی وجہ سے اس کا صدر دروازہ نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے جب صرف بیس فٹ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو دروازہ نظر آتا ہے'۔
قلعے کے اندر تین بڑی چھوٹی مسجدیں ہیں جو اب مقفل ہیں'ایک ہزار گھر اس میں آباد تھے،کہاجاتاہے کہ قلعے کے اندر سے شاہ سلطان صدیق نے زیر سمندر سرنگ بنوائی تھی جو ساحل پر موجود پہاڑی پرنکلتی تھی
بعد میں حکومت نے اسے بند کردیا۔اس میں میٹھے پانی کے دو بڑے بڑے تالاب ہیں'جو بہت وسیع اور ساٹھ فٹ تک گہرے ہیں'۔
1947کے بعد یہ قلعہ اور ریاست حکومت ہند کی تحویل میں آگئے لیکن قلعے کی آبادی بدستور قائم تھی 1972میں مکمل آبادی قلعے کے سامنے ساحل پر آگئی جو اب راجہ پوری کے نام سے معروف ہے۔
راجہ پوری کے علاقے میں تھوڑی دیر چہل قدمی کے بعد ہم نواب محل جنجیرہ کے راستے سے کاشد بیج  آئے جو تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر اسی راستے پر واقع ہے۔یہ علاقہ بالکل غیر آباد ہے'،لیکن دن بھر سیاحوں کی کثرت اسے آباد رکھتی ہے'رات میں سناٹا چھا جاتا ہے، شاہراہ کے ایک طرف سبز پوش پہاڑیاں ہیں دوسری طرف سمندر ہے'اندازاً تین کلومیٹر تک ریت پر مشتمل چوپاٹی ہے'لب سڑک ہوٹلوں کے سائبان کے طویل سلسلے۔جس میں میز کرسیوں کے علاوہ بے شمار رسیوں کے جھولے تنے ہوئے ہیں ہم جب وہاں پہنچے تو انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو سمندر کی بے تاب لہروں سے کھیل رہا تھا،یہاں اونٹ اور گھوڑے کی سواری کا بھی نظم ہے'ذاتی طور پر سائیس اور اونٹ کے مالکان اہل شوق کو کرائے پر سوار کراتے ہیں اور سوار لطف اندوز ہوتے ہیں،
ہمارے دیگر رفقاء تو سمندر میں نہانے لگے اور راقم اور عزیز محترم انصار احمد ہوٹلوں میں منصوب جھولوں پر لیٹ سمندر کی خنک ہوا سے لطف اندوز ہونے لگے۔
تھوڑی دیر بعد مولانا اسعدقاسمی کے اصرار پر زندگی میں پہلی دفعہ اس نیت سے کہ اس وفاشعار جانور کی پشت سے بے شمار مجاہدین اسلام کی داستان وابستہ ہے بطور مشابہت سوار ہونا سعادت ہے'۔سوار ہوا لیکن تیز رفتاری سے دوڑانے کی ہمت نہ ہوسکی اندازہ ہوا کہ گھڑ سواری صرف فن ہی نہیں بلکہ مشکل ترین اور بے جگری کا فن ہے' جس میں خوف وہراس اور تزلزل کو پہلے ایک طرف رکھنا پڑتا ہے'۔
غالباً ساڑھے چار بجے ہم اپنے مستقر واپسی کے لیے وہاں سے روانہ ہوئے چونکہ راستہ کافی حد تک مخدوش ہے'، پچاس کلومیٹر کے بعد ہائی وے آتا ہے'، راستے کے نقص اور ٹریفک کے مسدود ہونے کی وجہ سے ہائی وے تک آنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ساڑھےگیارہ بجے گونڈوی اس حال میں پہونچے کہ موسلادھار بارش ہورہی تھی۔عشاء اور مغرب کی نماز ادا کی کھانا کھایا اور بستر پر دراز ہوگئے۔۔