Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 22, 2019

حزب مخالف کی مانگ پر طلاق ثلاٹہ بل پر ووٹنگ کے بعد بل لوک سبھا میں پیش۔

اپوزیشن کی شدید مخالفت اور مزاحمت کے باوجود ایک بار پھر
ٹرپل طلاق مخالف بل لوک سبھا  میں پیش ۔
بل کے حق میں ۱۸۶اور مخالفت میں ۷۴ ووٹ پڑے
غیر مسلم کو صرف ایک سال او رمسلم کو تین سال کی سزا :
اسدالدین اویسی کا اعتراض
بل آئین کے خلاف ہے: ششی تھرور
بل سیاسی فائدے کےلیے لایا گیا ہے: ظفریاب جیلانی ۔
مسلم خواتین کا کوئی بھلا نہیں ہوگا: سلمان خورشید ۔
طلاق ثلاثہ ختم کرنا ضروری:
وسیم رضوی ۔
تین طلاق کا مسئلہ سماجی اصلاح کا مسئلہ ہے نہ کہ قانون سازی کا:
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔
نئی دہلی۔ ۲۱؍جون۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی وزیرقانون روی شنکرپرساد نے لوک سبھا میں ہنگامہ آرائی اور نعرہ بازی کے دوران تین طلاق بل کو ایک بار پھر پیش کردیاہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون بنتے ہیں اور پارلیمنٹ کو عدالت نہیں بنایاجاناچاہیے۔ اپوزیشن کے ہنگامے کے درمیان لوک سبھا میں تین طلاق بل پر ووٹنگ کرائی گئی جس میں اس بل کے حق میں 186 ووٹ پڑے جب کہ خلاف میں 74 ووٹ پڑے۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد کے ذریعہ آج لوک سبھا میں تین طلاق پر بل پیش کرنے کی کوشش کی گئی جس پر کانگریس کے لوک سبھا رکن ششی تھرور اور ایم آئی ایم رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے سخت اعتراض کیا۔اپوزیشن کے اعتراض اور ہنگامے کے درمیان تین طلاق بل کو صوتی ووٹوں سے پیش کرائے جانے کی کوشش کی گئی لیکن کانگریس و دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے اس پر بھی اعتراض ظاہر کیا۔ بعد ازاں فیصلہ لیا گیا کہ پیپر ووٹ کے ذریعہ تین طلاق بل پر اراکین لوک سبھا کی رائے حاصل کی جائے گی۔ چونکہ ابھی اراکین پارلیمنٹ کو سیٹیں الاٹ نہیں ہوئی ہیں اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ کرانا ممکن نہیں ہو سکا اور پرچی تقسیم کرکے ووٹنگ ہوئی۔ ووٹنگ کے بعد جب اس کو شمار کیا گیا تو بل کے حق میں 186 ووٹ پڑے جب کہ خلاف میں 74 ووٹ پڑے۔ حیدرآباد سے لوک سبھا کے ممبرپارلیمنٹ اور مجلس اتحادالمسلمین کے قومی صدر اسدالدین اویسی نے طلاق ثلاثہ بل پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو کیس میں ڈالاجائے تو اسے ایک سال کی سزا اور مسلمان کو تین سال کی سزا کیا یہ آرٹیکل ۱۴ اور ۱۵ کی خلاف ورزی نہیں ہے اس بل سے صرف مسلم مردوں کو سزا ملے گی، آپ مسلم خواتین کے حق میں نہیں ہیں بلکہ آپ ان پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے صاف ہے کہ اگر کوئی شخص ایک وقت میں تین طلاق دیتا ہے تو شادی نہیں ٹوٹے گی، ایسے میں بل میں جو درج ہے اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ شوہر جیل چلاجائے گا اور اسے تین سال جیل میں رہنا ہوگا ایسے میں مسلم خواتین کو گزارہ بھتہ کون دے گا؟ کیا سرکار دے گی؟ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو مسلم خواتین سے اتنی محبت ہے کیرل کی ہندو خواتین سے محبت کیو ںنہیں کیوں آپ سبری مالا کے فیصلے کے 
خلاف ہیں یہ غلط ہورہا ہے۔ 

اویسی نے نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس بل سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مسلم خواتین کو نقصان ہوگا یہ بل پہلے تو آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ قانون سماج کے خلاف ہے آپ کو اکثریت حاصل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ آئین کے خلاف قانون بنائیں گے ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہمارا حق ہے کہ سرکار کوئی بل لاتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے تو ہم اس کی مخالفت کرسکتے ہیں۔ اویسی سے قبل کانگریسی لیڈر ششی تھرور نے پارلیمنٹ میں کہا کہ اس بل کو پیش کیے جانے کی مخالفت کرتا ہوں، انہوں نے کہاکہ میں طلاق ثلاثہ کی حمایت نہیں کرتا لیکن اس بل کی مخالفت کرتا ہوں، انہوں نے کہاکہ یہ بل آئین کے خلاف ہے اس میں سول اور کریمنل قانون کو ملادیاگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی نظر میں طلاق دے کر بیوی کو چھوڑ دینا گناہ ہے تو یہ صرف مسلم کمیونٹی تک ہی محدود کیوں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کیوں نہ اس قانون کو ملک کے سبھی کمیونٹیوں کےلیے لاگو کیاجاناچاہئے۔ کانگریس کی جانب سے کہاگیا ہے کہ اس بل کے ذریعے سے مسلم خواتین کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ صرف مسلم مردوں کو سزا دی جارہی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ یہ بل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے حکومت کو مسلم عورتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، سیاسی فائدے کےلیے اس بل کو پاس کرایاگیا ہے۔ کانگریسی لیڈر سلمان خورشید نے بھی بل کے تعلق سے کہاکہ  حکومت سیاسی فائدے کےلیے اسے لائی ہے مسلم خواتین کا اس سے کوئی بھلا نہیں ہونے والا۔ وہیں شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے کہا کہ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ ملک کے عام مسلمانوں کی آواز نہیں ہے یہ ہمیشہ حکومت کے فیصلوں کے خلاف رہتی ہے خواہ وہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہی کیو ںنہ ہو، 

انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کا کسی مذہب یا قرآن سے کوئی واسطہ نہیں ہے  اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ رضوی نے کہا کہ بل میں صرف تین سال کی سزا ہے کم از کم طلاق دینے والو ںکو دس سال کی سزا دینی چاہئے ۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ محترم صدر جمہوریہ نے پارلیامنٹ کے صدارتی خطبہ میں تین طلاق کا مسئلہ چھیڑ دیا، صدر ملک کا اعلیٰ ترین دستوری عہدہ ہے، وہ صرف برسراقتدار پارٹی کا نمائندہ نہیں ہوتا؛ بلکہ پوری عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے دستور میں تمام طبقات کے لئے مذہبی آزادی کا جو اصول مقرر کیا گیا ہے، اس پر قائم رہے اور حکومت کو بھی اس پر قائم رہنے کا مشورہ دے، یہ بات بھی بے حد افسوس ناک ہے کہ موجودہ حکومت تین طلاق کے مسئلہ میں غیر جمہوری طریقہ پر اپنے مجوّزہ قانون کو نافذ کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور راجیہ سبھا میں ناکام ہونے کے بعد آرڈیننس کا سہارا بھی لے رہی ہے، نیز موجودہ بجٹ اجلاس میں پھر اس بِل کو پیش کر دیا گیا ہے، بورڈ کا موقف ہے کہ یہ قانونی مسئلہ نہیں ہے، سماجی مسئلہ ہے، حکومت جو طاقت سیاسی مقاصد کے لئے قانون سازی اور اس کی تشہیر کے لئے استعمال کر رہی ہے، اگر وہی صلاحیت سماج سدھار کے لئے استعمال کرتی اور اس کے لئے مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی مدد حاصل کرتی تو اس سے زیادہ فائدہ ہوتا، حکومت کو چاہئے کہ اس بِل کو سیلکٹ کمیٹی کے حوالہ کر دے؛ تاکہ اس مسئلہ کا تعلق جس طبقہ سے ہے وہ بھی اپنی بات کمیٹی کے سامنے رکھ سکے، اور جمہوری طریقہ سے باہمی رضامندی سے اس مسئلہ کا حل نکل سکے، بورڈ اپوزیشن پارٹیوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بحالت موجودہ اس کو راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہونے دے، ساتھ ساتھ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے کام کی طرف خصوصی توجہ دیں اور کسی مناسب سبب کے بغیر طلاق یا تین طلاق واقع کرنے کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان کو روکنے کی اور سماج میں انصاف قائم کرنے کی بھر پور کوشش کریں؛ کیوں کہ بلا سبب طلاق دینا یا ایک ساتھ تین طلاق دینا عورتوں کے ساتھ ظلم ہے۔  واضح رہے کہ حکومت نے ستمبر2018 اورفروری 2019 میں دو بارطلاق ثلاثہ آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوک سبھا میں اس متنازعہ بل کے منظورہونے کے بعد وہ راجیہ سبھا میں زیرالتوا تھا۔ واضح رہے کہ مسلم خواتین (شادی پرحقوق تحفظ ) بل 2019 کے تحت تین طلاق کے تحت طلاق غیرقانونی اورنامنظورہے اورشوہرکو اس کے لئے تین سال تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔سترہویں لوک سبھا کے پہلے سیشن میں جمعہ کو پارلیمنٹ میں تین طلاق قانون پیش کیا گیا ۔ بی جے پی کے لئے لوک سبھا میں اس بل کو پاس کرانا کافی آسان ہے ، لیکن راجیہ سبھا میں پاس کرانا اس کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ بل کو لوک سبھا میں پیش کرنے سے پہلے وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایوان سے اپیل کی کہ 70 سال سے چلی آرہی اس روایت کے خلاف قانون بنایا جائے اور سبھی پارٹیاں اس میں مدد کریں۔مرکزی کابینہ کے ذریعہ کچھ ترمیمات کے ساتھ اس کو پہلے سے ہی پاس کیا جاچکا ہے ۔ 29 دسمبر 2017 کو لوک سبھا میں یہ قانون پاس ہوگیا تھا ، جس میں فوری تین طلاق دینے کو جرائم کے زمرہ میں ڈالا گیا تھا ۔ ترمیم شدہ بل سے وابستہ پانچ اہم باتیں: (۱) تین طلاق بل کو اگر منظوری مل جاتی ہے تو یہ قانون غیر ضمانتی برقرار رہے گا ، لیکن ملزم ضمانت مانگنے کیلئے سماعت سے پہلے بھی مجسٹریٹ سے درخواست کرسکتا ہے ۔(۲) یہ بندوبست اس لئے جوڑا گیا ہے تاکہ مجسٹریٹ بیوی کی باتیں سننے کے بعد ضمانت دے سکیں ۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ مجوزہ قانون میں تین طلاق کا جرم غیر ضمانتی بنے رہے گا ۔(۳)مجسٹریٹ طے کریں گے کہ ضمانت صرف اس وقت دی جائے ، جب شوہر قانون کے مطابق بیوی کو معاوضہ دینے پر راضی ہو ۔(۴) پولیس صرف اس وقت کیس درج کرسکتی ہے جب متاثرہ بیوی ، اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا شادی کے بعد اس کے رشتہ دار بنے کسی شخص کی جانب سے پولیس سے فریاد کی جائے ۔(۵) قانون کے مطابق معاوضہ کی رقم مجسٹریٹ کے ذریعہ طے کی جائے گی ۔