Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 1, 2019

ستائیُسواں روزہ۔۔۔۔۔۔۔ستایئُسواں سبق۔۔۔۔۔۔۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔


رمضا ن : دعو ت وتبلیغ کا مو سم ہے۔
صدائے وقت/ ماخوذ/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دعو ت و تبلیغ انبیا ء علیہم ا لسلا م کی ذمہ دا ری رہی ہے، ہر نبی نے تبلیغ اور تعلیم کا فریضہ انجا م دیا ہے؛اللہ نے انبیا ء کو تبلیغ کا حکم دیتے ہو ئے فر ما یا! ’’اعْبُدُوْا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلٰہٍ غَیْرِ‘‘ (ہود: ۸۴) اور انبیاء اپنی قو م سے فر مایا کر تے ’’مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ‘‘ یعنی ہمیںتم سے اس دعوت کا عو ض اور بد لہ نہیں چا ہیے ، اللہ تعا لی نے تبلیغ کے وقت نر می کا پہلو اختیا ر کرنے کی تلقین کی ہے، فر مایا: ’’أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلُہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ‘‘ (النحل: ۱۳۵) نیز دین پر بصیر ت بھی ہو نی شرط ہے:  ’’قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْ إِلٰی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ التَّبَعَنِيْ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ (یوسف: ۱۰۸)آیت کر یمہ میں بصیرت سے مرا د :علم نا فع اورعمل صا لح ہے، دوسرے مقا م پر دعو ت و تبلیغ کو ایک پسندیدہ عمل قر اردیا ہے، ’’وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَنْ دَعَا إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ‘‘ (فصلت: ۳۳) دعو ت و تبلیغ کے پا نچ آدا ب ، پا نچ طر یقے اور پا نچ فائدے ہیں ، ذیل میں تینوں چیزیں بالتر تیب ذکی کی جا رہی ہیں ۔

دعو ت و تبلیغ کے آدا ب خمسہ : Da-wato Tableegh ke Aadaab khamsa
(۱)  اخلا ص :یہ نیک کا م محض اللہ کے لیے کر نا !اس عمل میں صدا قت کا پہلو ہاتھ سے نہ جانا چا ہیے !اسی لیے اللہ فر ما تے ہیں ، ’’وَمَا أُمِرُوْا إِلاَّ لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ‘‘ (البینۃ: ۵) نیزاللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا! ’’مِنْ أَوَّلِ مَا تُسَعَّرُ بِہِمُ النَّارُ ثَلاَثَۃٌ وَمِنْہُمْ عَالِمٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَالِمٌ وَقَدْ قِیْلَ‘‘ (الحدیث ) یعنی جہنم کی آگ کو سب سے پہلے جن تین لوگوں سے دہکا یاجا ئے گا ،ان میں ایک عا لم بھی ہو گا ،جس نے علم اس لیے سیکھا ہو گا کہ اس کو عا لم کہاجا ئے ، سو کہا جا چکا (اب اس کا کو ئی فا ئدہ نہیں )
(۲)عمل : داعی جس چیزکی طرف دعو ت دے اس پر عمل بھی کر ے ، کیو ںکہ قول و عمل میں مخا لفت ، رسو ائی اور عا ر کا با عث ہے ، اللہ نے اس سے منع کیا ہے، ’’أَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَأَنْتُمْ تَتَلُوْنَ الْکِتٰبَ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ‘‘ (البقرہ: ۴۴) ایک عربی شا عر نے قو ل و عمل میں مخا لفت کا پہلو رکھنے والے مبلغین کو نصیحت کی ہے کہ ’’اے !دوسروں کو تعلیم دینے والے !کیا یہ تعلیم تمہارے اپنے لیے نہیں ہے ، تم بیما ر وں اور کمزوروں کے لیے نسخے تجو یزکر تے ہو ، حا لا نکہ خو د بیمار پڑے ہو، لہٰذا تعلیم کا آغاز اب اپنی ذات سے کرو !اس کو گمراہی سے روکو !جب تمہاری ذا ت سے گمرا ہی دو ر ہو جا ئے تو تم حکیم ہو۔
(۳)نر م کلا می :تبلیغ کے وقت نر م کلا می کا لحا ظ بھی انتہا ئی ضروری ہے: ’’فَقُوْلاَ لَہُ قَوْلاً لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذکَّرُ أَوْ یَخْشٰی‘‘ (طٰہ: ۴۴) دوسر ی جگہ فرما یا! ’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتُ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ‘‘ (آل عمران: ۱۵۹) اسی لیے اللہ کے رسو لؐنے سختی کر نے سے روکتے ہوئے آسا نی کا حکم دیا ہے، فر ما یا! ’’یَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا، وَبَشِّرُوْا وَلاَ تُنَفِّرُوْا ‘‘۔
(۴)بتدریج دعو ت دینا : دعو ت میں تد ریج کا خیا ل رکھنا ضروری ہے، جو چیز زیادہ اہم ہوسب سے پہلے صر ف اسی کاحکم دے ، پھر جو اس کے بعد اہمیت کی حا مل ہو اس کا حکم دے ، اللہ کے رسو ل ؐکا یہی طر یقہ کا ر تھا ، چنا ں چہ حضرت معا ذؓکو یمن روا نہ کرتے وقت آپؐنے فر ما یا تھا! ’’إِنَّکَ تَأْتِی قَوْلاً أَہْلَ کِتَابٍ فَلْیَکُنْ أَوَّلُ مَا تَدْعُوْہُمْ إِلَیْہِ شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَأَنِّي رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَإِنْ ہُمْ أَجَابُوْکَ لِذٰلِکَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ إِفْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ‘‘ (الحدیث) یعنی اہل یمن کے لیے اللہ کے رسو ل ؐنے حضرت معا ذ ؓکو یہ حکم دیا تھا کہ سب سے پہلے انہیں کلمہ کی تلقین کرو !جب یہ تسلیم کر لیں تب جا کر انہیں پنج وقتہ نمازوں کی فر ضیت سے آگا ہ کرو!(اس تدریج اور آہستہ آہستہ تبلیغ کا فا ئد ہ یہ ہو تا ہے کہ لو گو ں پر کوئی چیز بھا ر ی نہیں پڑ تی اور وہ رفتہ رفتہ تما م احکا م کے عا دی ہو جاتے ہیں )۔
(۵)لو گوں کے احو ال کے رعا یت کر نا : یعنی تبلیغ کے وقت ہر قو م کے احوال دیکھ کر ان سے منا سب گفتگو کر نا ، ان کا معاشرہ جس چیز کی ضرورت محسو س کر تا ہو، تبلیغ میں ان کا پا س و لحا ظ رکھنا ، یہی وجہ ہے کہ شہر والوں سے خطا ب کی نو عیت علیحدہ ہوتی ہے، بستی اور گا ئو ں کے لو گوں سے خطا ب کی نو عیت علیحدہ ہو تی ہے، دیہا ت کے لو گو ں سے خطا ب کی نو عیت علیحدہ ہو تی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ پڑھے لکھے ، اَن پڑھ ، جھگڑالو اور با ت ما ننے والے ہر ایک سے گفتگوکا طریقہ الگ ہو تا ہے، اسی لیے اس صو رت حا ل کی پاسدا ری کر نے والو ںکی اللہ نے تعریف کی ہے: ’’وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَیْرًا کَثِیْرًا ‘‘۔ (البقرہ: ۲۶۹)
دعو ت و تبلیغ کے پا نچ طر یقے:Da-wato tableegh ke paanch tareeke
(۱)انفرا دی دعو ت: بسا او قا ت ایسا ہو تا ہے، کہ کسی خا ص مسئلہ کے پیش نظر ، لوگوں کے مجمع سے ہٹ کر علیحدہ طور پر تنہا ئی میں کسی شخص کو دعو ت و تبلیغ کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۲) عمو می دعو ت : کو ئی خطا ب یاوعظ کر نا ہوتو ایسی صو رت میں عو ام النا س بھی شا مل ہو تے ہیں ، بستی ، قبیلہ اور شہر سے ہر طرح کے لوگو ں کی تبلیغ کی جا تی ہے۔
(۳) درس و تد ریس : یہ بھی تبلیغ کا ایک طر یقہ ہے کہ مجلس درس میں طلبہ کو دعوت و تبلیغ کی جا ئے بلکہ درس و تد ریس بجا ئے خو دایک قسم کی تبلیغ ہے، او رمختلف فنو ن کے حامل علما ء اسلا م کی ذمہ دا ری ہے۔
(۴)خط و کتا بت : کبھی کبھا ر خط و کتا بت ، پیغا م رسا نی ا ور ہدایا تحا ئف کے ذریعہ بھی تبلیغ کا فر یضہ انجا م دیا جا تا ہے۔
(۵) جدید ذرائع کا استعما ل : اعلا ء کلمۃ اللہ کے لیے جدید ذرا ئع ابلا غ کو اپنا کر بھی تبلیغ کا فر یضہ انجا م دیا جا سکتا ہے، دعوت وتبلیغ کے پا نچ فائدے :Da-wato tableegh ke paanch fayede
(۱) انبیا ء کی وراثت : دعو ت و تبلیغ کے نتیجہ میں انسا ن انبیا ء کرا م علیہم السلا م کا وارث بن جا تا ہے، کیو ں کہ تبلیغ انبیا ء کرام کا فر یضہ رہی ہے، یہ تا ریخ کے سب سے بڑے مبلغ شما ر ہو تے ہیں ، بلکہ دعو ت و تبلیغ کی دنیا میںانبیاء علیہم السلا م ایک بلند اور روشن منارے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
(۲)دعا ئے مغفر ت : دعو ت و تبلیغ کا فر یضہ انجا م دینے ، لو گو ں کو خیرو صلا ح کی با تیں بتا نے کی وجہ سے پوری مخلو ق مبلغ اور دا عی کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے، حتی کہ ایک صحیح حدیث کے مطا بق سمند رکی مچھلیا ں بھی دعا کر تی ہیں۔
(۳) اجرو ثو اب : دعو ت و تبلیغ کی ایک بر کت یہ بھی ہے کہ اس فر یضہ کی انجا م دہی کے نتیجے میں جو اجرو ثواب عوا م الناس ، (جن کی تبلیغ کی جا ئے )کو ملتا ہے، وہی اجرو ثو اب اللہ تعا لی مبلغ کو بھی دیتا ہے، حدیث میں ہے اللہ کے رسو ل ؐارشا د فر ماتے ہیں : ’’مَنْ دَعَا سُنَّۃٍ حَسَنَۃٍ کَانَ لَہُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ دُوْنَ أَنْ یُّنْقَصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْأً‘‘یعنی اگر کوئی شخص کسی شخص کو کسی نیک کا م کی طرف بلا تا ہے، تو بلا نے والے اور جس کو بلا یاگیا دو نو ں کو اجر ملے گا ؛بلکہ دو نو ں کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔
(۴)فر یضۂ دعو ت و تبلیغ: کی انجا م دہی کے نتیجے میں مبلغ مدعو کے دائرہ سے نکل کر داعی کی منز ل حا صل کر لیتا ہے، اس کا فائدہ یہ ہو تا ہے ، کہ اب یہ مو ٔثر بنتا ہے ، متأثر نہیں ، یعنی کہ دوسرے غلط اور با طل مبلغین کے جا ل میں نہیں پھنستا۔
(۵) امامت : اس تبلیغ کے نتیجے میں لو گ مبلغ کو اپنا مقتدا اور رہبر ما ن لیتے ہیں، اللہ نے انہیں صلحا ء کے متعلق فر مایا! کہ وہ یہ دعا کر تے ہیں: ’’وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا‘‘۔ (الفرقان: ۷۴)
رمضان کے اس مہینہ میں دعا ۃ و مبلغین کے جذبہ ٔدعوت و تبلیغ کو تو خو ب اپنا اثر دکھا نا چا ہیے ، ان کی زبان و قلم اسی کام کے لیے وقف ہو نی چا ہیے ، منبر سے ایک مبلغ کی با ت سننے کے لیے بطور خا ص اس مہینہ میں لو گ بیتا ب ہو تے ہیں ، انہیں با تیںاچھی بھی لگتی ہیں ، ہمیں اس پہلو پر بھی تو جہ دینے کی ضر ورت ہے۔
خدایا !ہمیں دین کی سمجھ عطا فر ما! علم او رعمل صا لح کی تو فیق مر حمت فرما! ۔۔۔۔۔ آمین