Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 11, 2019

ابا کی پہلی عید۔۔۔۔۔۔۔ایک سبق أموز تحریر۔۔۔۔۔۔۔ضرور پڑھیں۔


از۔۔ *عزیز اعظمی اصلاحی*
     اسرولی سرائمیر ۔۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَبّا رہتے تو سعودی عرب تھے لیکن انکا دل ہمیشہ گھر ہی لگا رہتا ، دن میں کئی بار فون کرتے ، کئی بار میسج کرتے ، کبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ فون رکھتے ہی دوبارہ پھرکرتے ان کی اس بے اطمینانی اور بے چینی سے لگتا کہ ضرورتوں نے انکے قدم کو باندھ رکھا ہے ، مجبوریوں  نے انھیں قید کر رکھا ہے ورنہ وہ دیار غیر میں ایک پل نہیں رہنا چاہتے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ماں  باپ ، بیوی بچوں سے دور پردیس میں شب تنہائی کون کاٹنا چاہتا ہے وہ تو اپنوں کے بیچ رہ کر زندگی جینا چاہتا ہے ، بچوں میں رہ کر اُنکا بچپنا دیکھنا چاہتا ہے ، سعودی عرب کے خُبز اور کَبشے کے بجائے ماں کے ہاتھوں کی روٹی اور بیگم کے ہاتھوں کی چائے پینا چاہتا ہے ، گاؤں کی کھلی فضاؤں اور سبزہ زاروں میں رہ کرلطف اندوز ہونا چاہتا ہے جو سعودی عرب کے تپتے صحراؤں اور اُڑتے غبار میں کہاں لیکن افسوس کی ایک بار جو ریال و درہم سے گھر کی تقدیر بدلنے کا خواب لئے گھر چھوڑ دے پھر اس کے مقدر میں  یہ رعنائیاں کہاں  …. خواہشوں کو کچل کر ضرورتوں کی تکمیل کرنا ، حسرتوں کو مار کر خوشیوں کو زندہ رکھنا ، صحت و خوراک کو نظر انداز کرکے ذمہ داریوں کو مقدم رکھنا ہی اس کا ہدف بن جاتا ہے ، جسکی تکمیل کی خاطر وہ ہر کڑوا گھونٹ پی کر فون اور ویڈیو کال پر بچوں کے سہارے 
وقت گزار دیتا ہے ۔


سعودی عرب کے طویل سفر نے اَبّا کو ریال تو دیا ، خوشحال تو بنایا ، ہدف کی تکمیل تو کی لیکن صحت چھین لی اب وہ دل کے مریض تھے ، شوگر و بلڈ پریشر نے قدرتی نعمتوں اور ذائقوں سے محروم کردیا تھا ، کھانے پینے کی بیشتر چیزوں پر طبی پابندی تھی ، دوا اور پرہیز میں انکی زندگی تھی انکے صحت کے حوالے سے ہمیشہ ایک خوف سا لگارہتا ، فون پر انکی اِس بات سے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں نہ اماں مطمئن رہتی اور نہ ہی ہم سب ، اماں نے کئی بر کہا کہ جاوید اب اپنے پیروں پر کھڑا ہے ، روزی روٹی سے جڑا ہے اب آپ گھر چلے آئیں ، پابندی سے دوا کھائیں ، کچھ  دن آرام کریں صحت ہے تو سب کچھ ہے وہ بھی وہی چاہتے تھے جو امّاں چاہتی تھیں لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی جانے سے ڈرتے تھے کہ میرے آنے کے بعد گھر کا کیا ہوگا ،  زینب کی شادی کا کیا ہوگا ، جاوید نے ابھی نوکری شروع کی ہے ابھی اس لائق نہیں کہ گھر سنبھال سکے جیسے اتنے سال اس صحرا میں گزار دیا کچھ دن اور سہی زینب کی شادی کردوں جاوید کو تھوڑا اورسہارا دے دوں پھر گھر آیا تو واپس نہیں آونگا یہ سعودی عرب 
کا آخری سفر ہوگا ۔

بالاخر ایک دن وہی ہوا جس کا خوف تھا ، فجر کی نماز کے بعد امّاں ابھی مُصلے پر ہی تھیں ، زینب کچن میں تھی اور بیگم بچوں کو اسکول کے لئے تیار کر رہی تھیں ، بامبے جانے کے لئے میں اپنا بکھرا ہوا سامان اور کپڑا بیگ میں رکھنے کے لئے سَمِینٹ رہا تھا کہ اچانک امّاں کے موبائل پر گھنٹی بجی عموما اتنے سویرے کسی کا فون تو نہیں آتا امّاں گھبرائی ہوئی کمرے میں گئیں موبائل اٹھاتے ہی انکے منھ سے ایک چیخ نکلی اور بے ہوش ہو گئیں دوڑتا ہوا کمرے میں گیا موبائل اٹھایا تو ابا کے دوست محمود انکل کا فون کہ بیٹا مجھے معاف کرنا کہ تمہارے والد کے لئے میں کچھ نہ کر سکا میں انکے ساتھ کمرے میں ہی تھا کہ اچانک گر پڑے اور ہاسپیٹل پہونچتے پہونچتے اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا ، فون رکھ کر وہیں بیٹھ گیا ، زینب پاگل سی ہو گئی گھر میں صف ماتم بچھ گیا ، ابّا کی ناگہانی موت کی خبر نے ہمارے اوپر غم کا پہاڑ توڑ دیا ، خوشیاں ماتم میں بدل گئیں ، خواہشیں آنسو بن گئیں ، آرزوئیں یتیم ہوگئیں ، بھائی بہن کے مسکراتے چہرے سوکھ  گئے بڑی سے بڑی پریشانی میں پرسکون نظر آنے والی اماں اس حادثے میں ٹوٹ کر بکھر گئیں ، جس کے دم پر گھر کی خوشیاں رقص کرتی ، بیٹیاں چہکتی ، بہنیں ناز کرتیں تھیں ، جس کے آنے کے انتظار میں صبج و شام ہوتی تھی وہ ہم سے ایسا بچھڑا کی ایک قطرہ پانی پلانا تو دورآخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا اللہ انکی مغفرت فرمائے انکی روح کو سکون بخشے ۔۔ قدرت کا یہی نظام ہے بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ بھی ہے اور قرآن کا یہی پیغام بھی  ۔۔ کہ
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ  سورة طه (55)
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں لوٹائیں گے اور پھر دوبارہ اِسی سے نکال کھڑا کریں گے 
۔
ساری سچائی ، ساری حقیقتوں کو جاننے کے بعد بھی اپنے پیاروں سے بچھڑ جانے کا دکھ تو ہوتا ہے ، اس کے ساتھ بِیتا ہوا وقت خوبصورت پَل یاد تو آتا ہے ، اسکی جفاکشی اس کی قربانیاں اس  کے کارنامے اسکی کمی کا احساس تو دلاتے ہیں ، لیکن وقت بہت بڑا مرہم ہے وہ بڑے سے بڑا زخم بھی بھر دیتا ہے ، وہ وقت مشکل تو تھا ، زخم گہرا تو تھا لیکن دھیرے دھیرے بَھر گیا ، اماں کی عِدت پوری ہوئی تو ان کی اُداسی انکی تنہائی کو کم کرنے کے لئے باجی نے انھیں کچھ  دن کے لئے اپنے پاس علی گڑھ بلا لیا کہ کچھ دن یہاں رہیں گی توطبیعت بَہَل جائے گی علی گڑھ کی فرحت بخش عِلمی فضاء مَن کو ہلکا کر دیگی ، اب اماں پہلے سے بہتر تھیں قدرت کے فیصلے اور انسانی حقیقت کو تسلیم کر چکی تھیں    … 
رمضان شروع ہوچکا تھا آج پانچواں روزہ تھا عید سے پہلے اماں سمیت ہم سب کو گھر واپس جانا تھا ، شرعی اعتبار سے کسی کے انتقال کے بعد تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز تو نہیں لیکن ابا کے انتقال کے بعد یہ پہلی عید تھی سماج کے بنائے گئے اس رسم کو ادا کرنا تھا ورنہ معاشرہ باپ کے تئیں ہماری محبت کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ، اماں گھر جانے کے لئے پریشان تھیں اس لئے باجی انھیں دسویں رمضان کو لیکر گاؤں چلی گئیں ، کمپنی سے ایک ہفتے کی چھٹی لیکر دو دن پہلے میں بھی گاؤں پہونچ گیا ، عید سے ایک دن پہلے سسرال سے آئی بہن ، بیٹی اور قریبی رشتے داروں سے گھر بھر گیا ، عید کا دن امت مسلمہ  کے لئے عمومی خوشی کا دن ہے جو ایک دوسرے سے ہمدردی ، غم خواری ، اخوت و محبت کا پیغام دیتی ہے، مساوات  اور اجتماعیت کا درس دیتی ہے، حسنِ سلوک اور رواداری کو فروغ دیتی ہے آج کے دن ویسے بھی پورا گاؤں ایک دوسرے سے گلے مل کر ایک دوسرے کے گھر جاکر بھائی چارے اور آپسی تعلقات کا اظہار کرتا ہے لیکن ابا کے وفات کی پہلی عید کی مناسبت  سے رسم کی اِتّباع کرتے ہوئے رواج کو برقرار رکھتے ہوئے  اپنائیت اور تعزیت کے لئے ایک بار پھر پورا گاؤں خاص طور پر ملنے آیا محلے ، پڑوس ، رشتے ناطوں کے بیچ عید پر خوشی کے اظہار کے بجائے مغموم ہونا پڑا ، جو زخم بھر چکا ہوتا ہے اس کو تازہ کرکے پھر سے مرہم لگانا پڑا  سُوگ کے نام پرپر گھر پر سِونئی اور شیر خورمہ تو نہیں بنا لیکن آنے والے مہمانوں ، رشتے داروں کی مہمان نوازی ، اورخاطر داری میں کوئی کمی نہیں ہوئی ، عید کے موقعے پر سلوائے گئے نئے کپڑے عید والے دن تو نہیں لیکن چوتھے دن چچا زاد بہن کی شادی پر شوق سے پہنے گئے ۔
ابا کے علاوہ اس بار گاؤں میں بہت سارے لوگ کا انتقال ہوا تھا اللہ انکی روح کو سکون بخشے ، رسمی طور پر مجھے بھی تعزیت کے لئے انکے دروازے پر کھڑا ہونا تھا ، شام تک جب مہمانوں کے آنے کا سلسلہ کچھ کم ہوا تو میں بھی وقت نکال کر جلدی جلدی انکے گھر پہونچ کر رسم عید و تعزیت  ایک ساتھ  ادا کی ، کچھ رشتے داروں میں بھی فوتگی ہوئی تھی دوسرے اور تیسرے دن اماں کو لیکر انکے یہاں بھی جانا تھا چوتھے دن چچا کی بیٹی کی شادی تھی اس دن کہیں جانے کا سوال ہی نہی تھا گویا دو دن  اماں کو لیکر ان رشتے داروں کے یہاں تعزیت کی ، چوتھے دن خوب دھوم دھام سے بہن کی شادی میں شرکت کی اور اگلے دن گَئودان ایکسپریس پکڑا اور بامبے واپس چلا گیا اور روز مرہ کی زندگی میں مشغول ہوگیا ۔