Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 21, 2019

موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لٸیے لاٸحہ عمل !!!/

از / مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) ./ صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض تاریخی روایت کے مطابق عہد فاروقی ہی میں مسلمان ہندوستان میں قدم رکھ چکے تھے ، وہ ایک تاجر کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے تھے ؛ لیکن اس وقت مسلمانوں کے اندر دعوتی جذبہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ جہاں جاتے اور جس کام کے لئے جاتے ، دین حق کی امانت بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے اور لوگوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ، مسلمانوں کا یہ گروہ جنوبی ہند کے مالا بار علاقہ میں بحیثیت تاجر وارد ہوا ، اب بھی اس کے بعض شواہد موجود ہیں ، پھر بنو اُمیہ کے عہد میں ہی سمندری قزاقوں کی سرکوبی اور سندھ کے باشندوں کو ظالم حکمراں سے نجات دلانے کے لئے ۷۱۳ء میں محمد ابن قاسمؒ پہنچے ، انھوںنے ظالم حکمرانوں پر قابو پایا اور مقامی باشندوں پر حسن اخلاق کے ایسے نقوش چھوڑے کہ ان کے واپس ہونے کے بعد بھی عرصہ تک لوگوں نے ان کا مجسمہ بناکر پرستش کی ، محمد بن قاسم اگرچہ فوج کے جلو میں آئے تھے ؛ لیکن انھوںنے فولاد کی تلوار سے زیادہ اخلاق کی تلوار سے کام لیا اور اس کی وجہ سے بڑے پیمانہ پر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ؛ چنانچہ سندھ کا علاقہ جو پاکستان میں ہے ، اس کی غالب اکثریت اس وقت سے آج تک حلقہ بگوش اسلام ہے ۔

پھر اس کے بعد ۹۷۷ء میں مغرب کی طرف سے عجمی نژاد نو مسلم قبائل ہندوستان کی طرف بڑھے اور مختلف خاندانوں نے یہاں آکر حکومت کی ، یہ اگرچہ مسلمان تھے ؛ لیکن ایک آدھ فرماں رواؤں کو چھوڑ کر دعوتی جذبہ سے محروم تھے ، انھوںنے اشاعت اسلام کے بجائے خوبصورت اور پُرشکوہ عمارتوں کی تعمیر پر توجہ دی ، اگرچہ اس سے عوام کو فائدہ ہوا ؛ کیوںکہ اس زمانے میں یہ مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک ذریعہ تھا ، اسی طرح انھوںنے ملک کی بھلائی کے بہت سے کام کئے ، جیسے : زراعت کو ترقی دینا ، آب پاشی کا انتظام ، سڑکوں کی تعمیر ، مویشیوں کی پرورش کے شعبہ میں ترقی ، اس زمانے کے معیار کے لحاظ سے صنعتوں کو بڑھاناوغیرہ ؛ لیکن انھوں نے دعوتِ دین کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی ، انھوںنے تمام رعایا کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا ؛ اسی لئے مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں بہت کم بغاوت کے واقعات ملتے ہیں ، تاہم جیساکہ حکمرانوں کا رواج رہا ہے ، ان سے بعض اوقات زیادتیاں بھی ہوئی ہیں اور یہ اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں اورغیرمسلموں کے ساتھ بھی ، تاہم یہ پورا دور امن و امان اور اطمینان کا دور رہا ۔
مسلمانوں کے بعد انگریز آئے ، انھوں نے تمام ہندوستانیوں پر بڑے مظالم ڈھائے ، مگر مسلمان ان کے ظلم و جور کا زیادہ شکار ہوئے ؛ کیوںکہ وہ ان کو اپنا حریف خیال کرتے تھے ؛ لیکن ہندؤوں اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر بھی ستم ڈھائے گئے ، یہاں تک کہ ہندؤوں اور مسلمانوں نے مل کر اور شیر و شکر ہوکر آزادی کی لڑائی لڑی ، تقریباً ۲۰۰ ؍ سال کی جدوجہد کے بعد انگریز اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ، ہرحکمراں کی خواہش ہوتی ہے کہ رعایا میں اتحاد نہ ہو ؛ کیوںکہ رعایا کا آپسی اختلاف حکمرانوں کے تخت اقتدار کو مستحکم کئے رہتا ہے ؛ چنانچہ انھوںنے مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان منظم طورپر نفرت پیدا کی اور اس مقصد کے لئے مسلم دور کی تاریخ مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، انگریزوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک فرقہ پرست برہمن لابی مل گئی ، جس نے آر ایس ایس کی صورت اختیار کی ، اگر آر ایس ایس کی موجودہ فکر کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے : مسلم دشمنی ؛ کیوںکہ ہندؤوں کو متحد کرنے کے لئے ان کے پاس اس کے سواکوئی اور فارمولہ نہیں ہے ، آر ایس ایس ۱۹۴۷ء میں اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانا چاہتی تھی ؛ لیکن جمہوریت پسند قدآور لیڈروں کی موجودگی کی وجہ سے اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور گاندھی جی کے قتل نے ملک میں اس کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کردی ، مگر انھوںنے کچھ کُھلے اور چُھپے منصوبے بنائے ، مختلف مقاصد کے لئے ادارے قائم کئے ، لٹریچر مرتب کئے ، پابندی سے اپنے تربیتی کیمپ لگاتے رہے ، اس کے لئے انھوں نے بعض عالمی واقعات و تجربات کا مطالعہ بھی کیا ، خاص کر نازیٔ ازم اور اسرائیل کی پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اسرائیل کے نفرت انگیز شدت پسند طرز عمل کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا ، نیز اپنے چہرے کو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول بنانے کے لئے اس کی مدد بھی حاصل کی ۔

آخر وہ ۷۰؍ سال کی کوششوں کے بعد قصر اقتدار کی مختلف سیڑھیوں سے چڑھتے ہوئے آج اس کے بام و در پر قابض ہوچکے ہیں اورچاہتے ہیں کہ اس ملک کی ہر چیز زعفرانی رنگ میں رنگ جائے ، شاید اگر انسانوں کو جسمانی طورپر رنگا جاسکتا تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ، موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ کمیونسٹوں کا قلعہ ٹوٹ چکا ہے اور ہندوستان میں جو سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولر کہا کرتی تھیں ، انھوں نے ہتھیار ڈال دیا ہے ، اب اس وقت فرقہ واریت کے مقابلے میں کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے ، جو کھڑی ہونے کو تیار ہو ، نفرت اور تشدد کا رُخ پوری طرح اقلیتوں کی طرف ہے اور بالخصوص مسلمانوں کی طرف ؛ کیوںکہ بعض اقلیتیں تو ملک کے دستور کے لحاظ سے ہندؤوں کے زمرے میں شامل کردی گئی ہیں ، رہ گئے مسلمان اور عیسائی ، تو عیسائی پوری طرح اکثریتی فرقہ پرستی کے سامنے سر بسجود ہیں اور انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے ’ہندوتوا ‘ کو قبول کرلیا ہے ؛ اس لئے اب مسلمانوں کو بظاہر تنہا ہی اس لڑائی کو لڑنا اور اپنی شناخت کو باقی رکھنا ہے ، اس میں زیادہ سے زیادہ ان کو کچھ انصاف پسند ایسے لیڈروں ، دانشوروں اور صحافیوں کا ساتھ مل سکتا ہے ، جن کا تعلق اکثریتی فرقہ سے ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ، اور مختلف میدانوں میں ان کا کیا منصوبہ ہونا چاہئے ؟ اس پس منظر میں چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں  :
(۱)  پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنے دین اور اپنی شریعت پر ثابت قدمی پیدا کی جائے ، ہمارا یقین ہے کہ اسلام دین حق ہے ، اوریہ اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا ابدی پیغام ہے ، جو سچائی اور انصاف پر مبنی اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن ہے ؛ اس لئے ہمیں دین کے معاملہ میں پوری طرح ثابت قدم رہنا چاہئے ، مسلمان اس سے کہیں بڑے بڑے امتحان سے گزرچکے ہیں ، وقتی طورپر وہ کچھ دشواریوں سے ضرور دوچار ہوئے ؛ لیکن ایمان پر ثابت قدمی اور دین پر جماؤ کی وجہ سے ان کی شناخت اور پہچان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا ؛ بلکہ دین سے ان کا تعلق اوربڑھ گیا ، اور یہ عہد صحابہ سے ہوتا رہا ہے ، غزوۂ اُحد کے موقع پر ابوسفیان نے مشرکین مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو چیلنج دیا کہ وہ آئندہ سال دوبارہ بدر کے میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں ، رسول اللہ ا نے اس چیلنج کو قبول فرمایا ؛ چنانچہ آئندہ سال آپ ستر (۷۰) مسلمانوں کے ساتھ بدر کے میدان میں پہنچے ، ابوسفیان بھی مشرکین مکہ کے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلا اور ’ مر الظہران ‘ نامی مقام تک آیا ، اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رُعب ڈال دیا اور اس نے واپسی کا ارادہ کرلیا ، مگر خیال آیا کہ اگر مسلمان بدر پہنچے اور ہم نہیں پہنچے تو بہت شرم کی بات ہوگی ، اس نے ایک تدبیر کی کہ نُعیم ابن مسعود اَشجعی ( جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ) مکہ جارہے تھے ، ان سے کہا : چوںکہ اس سال بہت قحط ہے ؛ اس لئے ہم واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں ؛ لیکن اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نکلے اور میں نہیں نکلا تو مسلمانوں کی ہمت بڑھ جائے گی ؛ اس لئے تم ان کو سمجھاؤ کہ وہ مقابلے پر نہیں آئیں اور اس کے بدلہ ہم تم کو دس اونٹ دیں گے ، جب نعیم آئے تو دیکھا کہ مسلمان سفر کی تیاری کررہے ہیں ، انھوں نے مسلمانوں سے غزوۂ اُحد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے تمہارے گھر آکر تمہارے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا ، اب اگر تم ان کی طرف جاؤگے تو تم میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا ، بعض مسلمان بھی ان کی اس بات سے متاثر ہوگئے ، آپ ا نے یہ دیکھ کر فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں تو ضرور نکلوں گا ، چاہے تنہا نکلنا پڑے : ’’ والذی نفس محمد بیدہ لأخرجن إلیھم ولو وحدی‘‘ (مفاتیح الغیب : ۸؍۵۷۲) اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی  :
الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل ۔ ( آل عمران : ۱۷۳)
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے ان سے کہا : تمہارے مقابلہ میں لوگ اکٹھا ہوگئے ہیں ، تم ان سے ڈر کر رہو تو اس سے ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے کہا : ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہی بہترین کارساز ہے !
اِس وقت بھی یہی صورتِ حال ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں متحد ہوگئی ہیں اور وہ مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں ، گوکشی ، جے شری رام اور وندے ماترم کہلانے کے عنوان سے جابجا مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں ، نامنصفانہ قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں ، بعض جگہ مسلمانوں کا بائیکاٹ بھی کیا جارہا ہے ، یہ سب مشرکین مکہ کے رویہ کے باز گشت ہے ، اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اورپیش آتے رہیں گے ؛ لیکن اس دین حق کے لئے اللہ کے پیغمبروں نے تکلیفیں اُٹھائیں اور ان کے رفقاء نے جان و مال کی مصیبت کو برداشت کیا ، بائیکاٹ کی صعوبتوں کو سہا ؛ لیکن ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ رہا : ’’ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘ یہی کیفیت آج کے حالات میں بھی مسلمانوں سے مطلوب ہے ، یہ بات علماء ، مذہبی قائدین اور مسلم سماج کی نمائندہ شخصیتوں کو عام مسلمانوں تک پہنچانی ہوگی ، انھیں ان صحابہ کی یاد دلانی ہوگی ، جنھوں نے ناقابل تصور مشقتوں کو برداشت کیا ؛ لیکن ان کے قدم میں کوئی تزلزل نہیں آیا ، آج بھی برما اور چین جیسے ملکوں میں ایمان پر قائم مسلمانوں کی مثالیں موجود ہیں ، اگر ہم مسلمانوں کو یہ نہیں سمجھا پائے کہ ایمان کی دولت ہماری جان اور ہماری زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے تو ان مشکل حالات میں ہم ایمان کی حفاظت اور حق پر ثابت قدمی کے سب سے اہم فریضہ کو ادا نہیں کرپائیں گے ۔

اسی لئے رسول اللہ ا ثابت قدمی کی دُعا فرمایا کرتے تھے : ’’ اللّٰہم إنی أسئلک الثبات فی الأمر والعزیمۃ علی الرشد‘‘ (نسائی ، عن شداد بن اوس : ۳؍۵۴) حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے مجھے دس باتوں کی نصیحت فرمائی ، ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ چاہے تمہیں قتل کردیا جائے اور چاہے تم کو نذر آتش کردیا جائے ؛ لیکن اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا : ’’ لا تشرک باللّٰہ شیئا وان قتلت وحرقت‘‘ ( مسند احمد، عن معاذ بن جبل : ۵؍۲۳۸) آپ انے نصیحت کی اور فرمایا کہ دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو ؛ لیکن اگر اس کی نوبت آہی جائے تو صبر سے کام لو اور یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے : ’’ فإذا لقیتمواہ فاصبروا‘‘ ۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۲۸۱۸)
افسوس کہ گذشتہ چند ہی دنوں میں بہت سے مسلمان کہلانے والوں کی زبان بدل گئی اور وہ ظالم کو ظالم کہنے سے بھی کترانے لگے ؛ حالاںکہ یہ بہت بڑا جہاد ہے ، حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا : سب سے بڑا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے : ’’ إن من اعظم الجھاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر‘‘ (ترمذی ، حدیث نمبر : ۲۱۷۴) مومن کی شان یہ ہے کہ آزمائشوں کی وجہ سے نہ اس کا ضمیر بدلے اور نہ اس کی زبان تبدیل ہو ؛ بلکہ وہ ہر حال میں باطل کی مزاحمت جاری رکھے ، اور انصاف اور سچائی کے خلاف کوئی بات قبول نہیں کرے ۔
(۲)  کسی قوم کے لئے نقصان اُٹھانا بڑی شکست نہیں ہے ؛ بلکہ سب سے بڑی شکست یہ ہے کہ اس کا حوصلہ ٹوٹ جائے ، اندر کی شکست ہی انسان کو باہر کی شکست سے دوچار کرتی ہے ، جب عالم اسلام پر تاتاریوں کی یلغار ہوئی تو مسلمان اسی صورت حال سے دوچا رتھے ، ایک تاتاری عورت پچاس پچاس مسلمان مردوں کو لائن میں کھڑا کرکے جاتی اور انھیں ہدایت دیتی کہ وہ یہیں کھڑے رہیں ، وہ اپنے گھر سے خنجر لے کر آئے گی اور انھیں قتل کرے گی ، مسلمان فرمانبردار غلام کی طرح کھڑے رہتے ، یہاں تک کہ ایک عورت پچاس مردوں کو ذبح کردیتی ، اسی سے ملتی جلتی صورتِ حال ان دنوں پیش آرہی ہے ، ہجوی قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں ؛ لیکن مسلمانوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی ، دو روز پہلے خبر آئی کہ دو شریر غنڈوں نے چار مزدوروں کو یہ کہہ کر بیلٹ سے مارنا شروع کردیا کہ تم گائے کا گوشت کھارہے ہو ؛ حالاںکہ یہ ترکاری کھارہے تھے ، یہ لوگ پٹتے رہے اور اپنا کوئی دفاع نہیں کیا ، یہ بہت ہی افسوس ناک صورتِ حال ہے ، اسلام نے ضرور امن و آشتی قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ، ظلم سے منع کیا ہے ؛ لیکن اس نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کی جائے اور ظالم کے پنجے کو تھام لیا جائے ، جان تو یوں بھی جانی ہے ؛ لیکن ایسے مواقع پر ظالم کو یہ احساس دلانا چاہئے کہ اس کے اوپر مظلوموں کے ہاتھ اُٹھ سکتے ہیں ؛ ورنہ شریر اور غنڈہ عناصر کی جرأت بڑھتی جائے گی ؛ چنانچہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنے دین ، اپنی جان ، اپنا مال ، اپنی عزت و آبرو اور اپنی آل و اولاد کو بچانے میں مارا جائے ، وہ شہید ہے : ’’من قتل دون مالہ فھو شھید ، ومن قتل دون دینہ فھو شھید ، ومن قتل دون دمہ فھو شہید ، ومن قتل دون اھلہ فھو شھید‘‘ ( ترمذی ، عن سعید بن زید ، ۱۴۲۱ ، نیز دیکھئے : مجمع الزوائد ، عن بن عباس ، حدیث نمبر : ۱۰۴۶۸) یہ نہ صرف شریعت کی تعلیم ہے ؛ بلکہ ہمارے ملک کا قانون بھی ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے ، اس پس منظر میں ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ’’ اپنی حفاظت آپ ‘‘ کا پیغام دیا جائے اور وہ اپنے آپ کو اپنے تحفظ کے لئے تیار رکھیں ۔
رسول اللہ ا نے فرمایا طاقتور مومن بہتر اور اللہ کو محبوب ہے کمزور مومن کے مقابلے میں : ’’المومن القوی خیر وأحب إلی اﷲ من المومن الضعیف‘‘ (مسلم ، عن ابی ہریرۃ ، حدیث نمبر : ۲۶۶۴) آر ایس ایس ایک زمانہ سے اپنے کارکنوں کو اپنی حفاظت آپ کرنے کی بلکہ فساد مچانے کی تربیت دے رہی ہے ؛ حالاںکہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ؛ البتہ موجودہ حالات میں مسلمان ، دوسری اقلیتیں اور دلت ضرور اس خطرہ سے دوچار ہیں ، مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت انگیز تقریریں کی جارہی ہیں اور ان پر ہجوی حملے کئے جارہے ہیں ، اس لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُر امن طریقہ پر مسلم تنظیموں اور اداروں کو نوجوانوں کی جسمانی تربیت کرنی چاہئے ، اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں سمجھانا چاہئے کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال سماوی آفات کے موقع پر لوگوں کو بچانے اور ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے کریں ۔
(۳)  تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ ہر سطح پر برادرانِ وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا جائے ، اس کے لئے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ اور پڑھانے والے اساتذہ ، غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین ، تاجرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے حضرات کے تربیتی پروگرام رکھے جائیں ، خاص طورپر مذہبی اور نیم مذہبی تنظیمیں اس کام کو اپنے ذمہ لے لیں ، ان پروگراموں میں مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں انسانی اُخوت کا تصور کس قدر وسیع ہے ؛ تمام اخلاقی تعلیمات میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو ایک ہی درجہ پر رکھا گیا ہے ، بڑوںکی توقیر ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، غریبوں کی مدد ، بیماروں کی مزاج پرسی ، گاہکوں کے ساتھ ایمان داری ، عورتوں کا احترام ، بوڑھوں کا لحاظ ، مسافروں کی مدد ، معاملات میں دیانت داری و ایمان داری ، مظلوموں کی داد رسی ، مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی و غم خواری ، غرض کہ انسانی سلوک کے معاملہ میں مذہب کی بنیاد پر اسلام نے کوئی تفریق نہیں رکھی ہے ، خود مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے ، بعض دفعہ ایک آٹو والے کی ایمانداری ایک پورے خاندان پر مسلمانوں کے تئیں گہرے خوشگوار نقوش چھوڑ جاتی ہے ، نفرت کا جواب محبت ہی ہے نہ کہ نفرت !
تعلقات بہتر ہوتے ہیں میل جول سے ، اب صورتِ حال یہ ہے کہ اکثر شہروں میں ہندو اور مسلم آبادیاں الگ الگ ہوگئی ہیں ، جان ومال ، غزت و آبرو اور دین و ثقافت کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے یہ بات بہتر بھی محسوس ہوتی ہے ؛ لیکن ایک ہی سماج میں رہنے والوں کے درمیان تعلق رہنا بھی ضروری ہے ؛ اس لئے اب میل جول کی صورت یہی ہے کہ مختلف تقریبات کے عنوان سے غیر مسلم بھائیوں کو مدعو کیا جائے ، جیسے : شادی بیاہ ، رمضان المبارک ، یوم آزادی ، یوم جمہوریہ ، میلاد النبی وغیرہ ، اور اس میں اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کی جائے ، اسی طرح بہتر تعلقات کا ایک ذریعہ حسن سلوک ہے ، ہاسپٹلوں میں پہنچ کر بیماروں اور تیمارداروں کے لئے کھانا ، پھل اور دواؤں کی فراہمی ، گرما کے موسم میں مسافروں اور راہ گیروں کے لئے ٹھنڈے پانی کا انتظام ، ٹھنڈک میں غرباء کے درمیان کمبلوں کی تقسیم ، گاؤں میں بورویل کا انتظام ، جس سے تمام فرقوں کے لوگ فائدہ اُٹھاسکیں ، مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں غیر مسلم بچوں کو داخلہ دینا ، تمام طبقات کے لئے فری کلینک کھولنا ، غرض کہ حسن سلوک کی مختلف صورتیں ہیں ، جن کے ذریعہ آپ برادران وطن کا دل جیت سکتے ہیں ، ایسے ہی کاموں میں غریب بچوں کے لئے بک بینک قائم کرنا بھی شامل ہے ، خدمت خلق کے کام کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے ’’ مؤلفۃ القلوب ‘‘ کے عنوان سے اس کے لئے مستقل ایک مدد مقرر کی ہے ، اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ زکوٰۃ کا یہ مصرف باقی ہے یا نہیں ؟ لیکن اگر عطیہ واعانت کی مد سے یہ کام کیا جائے تو اس کے بہتر اور مطلوب ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی ۔
انسان جن لوگوں کے درمیان رہتا ہو ، اگر ان سے تعلقات بہتر نہ ہوں اور ہر وقت خوف و دہشت اور نفرت و عداوت کی فضا ہو ، تو کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ نفرت پیدا کرنے کے لئے جتنی طاقت لگاتے ہیں ، مسلمان اس زہر کے علاج کے لئے اس سے زیادہ محنت کریں ، اس کے لئے خود مسلمانوں کو باشعور بنایا جائے ، اور اس مقصد کے لئے مسلم وغیر مسلم مشترک پروگرام رکھے جائیں ۔
(۴)  چوتھی اہم بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے خلاف پروپیگنڈے اپنے شباب پر ہیں ، اور ان کے لئے دو شعبوں کو ہتھیار بنایا جارہا ہے ، ایک : میڈیا ، دوسرے : تعلیم ، تعلیم کے ذریعہ فرقہ پرستی کا زہر پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچتا ہے اور میڈیا کے ذریعہ ہر عام و خاص تک نفرت کا پیغام پہنچایا جارہا ہے ، جو لوگ سچائی سے واقف نہیں ہیں ، وہ جھوٹ کو سچ سمجھنے پر مجبور ہیں ، یہ پروپیگنڈے عام طورپر تین طرح کے ہیں ، ایک تو اسلام کے بارے میں ، جیسے : اسلام کا تصورِ جہاد ، یہاں تک کہ اب تو کلمۂ طیبہ پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے ، دوسرے : ہندوستان کی مسلم تاریخ ، تیسرے : ملک کے مسلمانوں کا رویہ ، پہلے قسم کے اعتراضات تو صد فیصد غلط ہوتے ہیں ، اور انھیں معمولی غور و فکر کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے ، دوسرے اور تیسرے قسم کے اعتراضات میں کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے ؛ لیکن زیادہ تر غلط فہمی ہی ہوتی ہے ۔
ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور جانتے بوجھتے غلط پروپیگنڈوں کا اثر دور کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ، اول : یہ کہ ہندو شدت پسند تنظیموں کی طرف سے جو خلاف واقعہ پیش کی جارہی ہیں تعلیمی اور تحقیقی ادارے ان کی مدلل اور سنجیدہ تردید کی طرف متوجہ ہوں اور ان کے سوالات کا تحقیقی جواب اس طرح دیں کہ قرآن و حدیث کا مواد بھی اُن کے سامنے رہے اور جو معترضین ہیں اُن کی مذہبی کتابیں اور تاریخ بھی سامنے ہوں ، وہ اپنے گھر سے بھی واقف ہوں اور فریق مخالف کے گھر میں بھی جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، افسوس کی بات ہے کہ آج کل ہمارے مدارس اور جماعتی مراکز میں مسلکی جھگڑوں پر تو خوب توجہ دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ طلبہ کو تقریر و تحریر کے تربیتی پروگراموں میں دوسرے مسلک کے خلاف اشتعال انگیز اور تمسخر پر مبنی تقریر و تحریر کے لئے تیار کیا جاتا ہے ؛ لیکن باہر سے اسلام پر جو یلغار ہورہی ہے ، اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ؛ حالاںکہ سلف صالحین نے ہمیشہ اس میدان کو اپنی علمی کاوشوں کا خاص موضوع بنایا ہے ، دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، ندوہ کے بانی حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ ، مدرسہ صولتیہ کے مؤسس حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ، جامعہ نظامیہ کے بانی حضرت مولانا انواراللہ فاروقیؒ ، جماعت اہل حدیث کے اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم اور قائد حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، دارالمصنفین اعظم گڑھ کے بانیان علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ ، ان سب ہی حضرات نے اپنے عہد کی ضرورت کے مطابق اسلام پر باہر سے ہونے والی یلغار کو اپنی علمی اور فکری جدوجہد کا اولین ہدف یا خصوصی ہدف بنایا ہے ، آج بھی ضرورت ہے کہ علماء اور دینی علوم سے واقف مسلمانوں اصحاب دانش اس پر توجہ دیں ۔
اس کے تدارک کے لئے ضروری کام یہ ہے کہ اسلام مخالف مواد کے جوابات کو سیمیناروں ، سمپوزیموں ، جلسوں ، کانفرنسوں ، مسلم اورغیرمسلم مشترکہ پروگراموں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ پھیلائے جائیں ، جیسے لوگ نماز روزہ کے بنیادی مسائل سے واقف ہوتے ہیں ، اسی طرح کوشش کی جائے کہ ہر پڑھا لکھا مسلمان ان سے واقف ہوجائے ؛ تاکہ وہ خود احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو اور دوسروں کی غلط فہمی دُور کرنے کے لائق ہوسکے ، یہ بہت دشوار بھی نہیں ہے ؛ کیوںکہ ایسے مسائل بحیثیت مجموعی پندرہ بیس ہیں ، اگر مساجد کے بیانات ، سیرت کے جلسوں ، دینی مدارس کے پروگراموں ، مسلم تنظیموں کے اجتماعات میں ان مسائل پر گفتگو کی جائے تو ضروری باتیں اکثر مسلمانوں تک پہنچ جائیں گی