Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 2, 2019

میٹھی ندی اور میٹھا تالاب۔۔

از / حمزہ فضل اصلاحی۔
۔_______صداۓوقت_______
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
میں آفس سے کرلا جا رہا تھا ، راستے میں تھا۔ میرے ساتھ اور بھی لوگ تھے۔ اسی دوران فون ریسیو کیا۔ پہلا سوال یہی پوچھا گیا:’’ کہاں ہو؟ ‘‘ جواب دیا :’’ بس آگیا ہوں ، میٹھی ندی کے قریب پہنچا ہوں...‘‘ اتنا کہہ کر میں خاموش ہوگیا اور اپنی منزل کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے بعد گجراتی مڈڈے سے وابستہ میرے ایک نوجوان ساتھی نے سوالات کی بارش کر دی۔ اس نے زور زور سے ہنستےہوئے کہا: ’’کیا کہہ رے ہو بھائی ... اس نالے کو ندی کہہ رہے ہو؟ یہ کسی حساب سے ندی نہیں لگ رہی ہے ..ہاہاہا ..۔‘‘
اس کے تبصرے پر سب ہنسنے لگے۔اس کا اعتراض بھی درست تھا۔ میرے بولنے سےپہلے ہی ایک ساتھی نے جواب دیا : ’’بھائی تم ٹھیک کہہ رہے ہو ، پہلے یہ ندی ہی تھی ، اب نالے سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ 


ممبئی میٹھی ندی کی تصاویر

دورسے بدبو آرہی ہے ، ہر سال بی ایم سی اس کو گہرا کرواتی ہے ، اس پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے مگر یہ میٹھی ندی.. ندی بننے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ، میٹھی تو بہت دور کی بات ہے، سال بھر پانی ٹھہرا رہتا ہے۔ بہت زیادہ بارش ہوتی ہے تو تھوڑا بہت حرکت  ہوتی ہے۔‘‘
  میں نے چپ ہونے کا انتظار کئے بغیر ایک شگوفہ چھوڑ دیا :’’ ہاں یار ! اب یہ دیکھنے میں بھی میٹھی نہیں لگ رہی ہے، و یسے یہ کسی بھی طرح میٹھی نہیں ہوگی؟..‘‘ اتنے میں کہنے والے نے کہہ دیا :’’میٹھی نہیں ہوگی تو تیکھی بھی نہیں ہوگی ، پتہ نہیں کیسی ہوگی ؟....کون چکھے گا اسے؟ چکھنے والا بچے گا بھی نہیں۔‘‘
میٹھی ندی اور تیکھی ندی میں میری منزل آگئی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو الوداع کہا اور گھر کی راہ لی۔ یہ تو شہر کی ندی کاقصہ ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ گاؤں کے پانی کے ذخائر محفوظ ہوں گے۔ اُن کی مٹھاس باقی ہوگی۔ رمضان ہی میں ایک جگہ دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں گاؤں کا قصہ چھڑا ، پانی کی قلت پر طرح طرح کے تبصرے ہوئے ، ’’اب پانی کیلئے جنگ ہوگی‘‘ جیسامشہور جملہ بھی اچھلا۔ ایک بزر گ کہنے لگے: ’’ 

گاوُں کے تالابوں کی تصویر

گاؤں میں بھی پانی نہیں ہے ،  لوگ پر یشان ہیں۔ پانی کیلئے ادھر ادھر بھٹکتے ہیں۔ پانی کہاں سے آئے گا ؟ اب گاؤں کے تالاب یا پوکھروں کو پاٹ دیا گیا ہے ، ان پر قبضہ کرلیا گیا ہے یا اُن کی شکل اتنی بدل گئی ہے کہ اسے کسی صورت میں تالاب نہیں کہا جاسکتا۔ ‘‘ وہ بتانے لگے :’’ میرے گاؤں کا مشہور پوکھرا بیرم ہے۔ کسی زمانے میں اس میں صاف اور میٹھا پانی ہوتا تھا۔ ہم جیسے لوگ اس میں نہاتے تھے۔ اس میں میٹھے پانی کی مچھلیاں ہوتی تھیں۔ سال میں ایک دن پورے گاؤں کے لوگ ایک ساتھ مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔ جس دن شکار کرنا ہوتا تھا ، پورے گاؤں میں ایک آدمی گھوم گھوم کر کہتا تھا: آج اتنے بجے بیرم میں مچھلی ماری جائے گی۔ یہ سن کر سب بیرم کے قریب جمع ہوجاتے ، پھر مچھلی مارنے کا وقت ہوتا تو سب ایک ساتھ پانی میں چھلانگ لگاتے اور اپنا اپنا جال لے کر پانی میں اتر جاتے اور مچھلی کا شکار کرتے... اس طرح سب مچھلی کا شکارکرتے، بہت اچھا لگتا تھا، تہوار جیسا لگتا تھا… سب سے زیادہ مچھلی مارنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ بچے بھی اپنا چھوٹا برتن لے کرکنارے کنارے سے چھوٹی مچھلیاں پکڑتے۔ ‘‘ یہ سب بتاتے وقت ان کی آنکھوں میں چمک تھی ، جیسے ہی وہ حال کا ذکر کرنے لگے ،ان کےچہرے پر مایوسی جھلکنے لگی۔ وہ کہنے لگے : ’’ اب اسی بیرم میں گھروں کاگندہ پانی جمع ہوتا ہے ، اب اس کی حالت اتنی خراب ہے ، کیا بتاؤں ؟ اب اس میں میٹھے پانی کی مچھلی بھی زندہ نہیں رہ سکے گی۔ اس کے آس پاس بدبو رہتی ہے۔کوئی مہمان آتا ہے تو بیرم کے پاس لے جانے میں شرم آتی ہے۔‘‘گویا گاؤں کامیٹھا تالاب بھی میٹھا نہ رہا۔
___________________
-حمزہ فضل اصلا حی