Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 2, 2019

ہجومی تشدد کے نئے دور کا آغاز۔


معصوم مرادآبادی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے لاؤلشکر کے ساتھ دوسری میعاد کے لئے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ساتھ وہ تمام اندیشے حقیقت بن کر سامنے آنے لگے ہیں، جن سے ان کا پچھلا دور حکومت عبارت تھا۔ حالانکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں نومنتخب ممبران کو خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہاہے، وہ پہلی نظر میں بہت حوصلہ افزا معلوم ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے الفاظ کی گونج بہت دور تک سنائی دی۔ لیکن اس بیان کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ مسلمان ایک بار پھر خوف ودہشت میں مبتلا ہوگئے۔ وزیراعظم نریندرمودی کی شاندارکامیابی کے بعد ملک کے کئی حصوں میں جو ظالمانہ واقعات پیش آئے ہیں ، انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں پچھلے پانچ سال کی خوفناک یادیں تازہ کردی ہیں۔ تازہ واقعات میں مدھیہ پردیش سے لے کر ہریانہ اور بہار تک مسلمانوں کو ان کی شناخت پوچھ کر نشانہ بنایاگیا ہے اور انہیں یہ احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ وہ اس ملک میں ایک ایسے شہری کے طورپر زندہ ہیں جنہیں ہندوستان میں رہنے کا خراج ادا کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ ہریانہ میں عید کے موقع پر مسلمانوں کے باورچی خانوں کی یہ جاننے کے لئے تلاشی لینے کا منصوبہ ایک سرکاری ادارے نے تیار کیا ہے کہ ان کے یہاں بریانی کس گوشت کی بن رہی ہے۔
وزیراعظم نریندرمودی نے بی جے پی اور این ڈی اے پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب ہونے کے بعد اپنے ممبران کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہمیں سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کرنے کے ساتھ سب کا وشواس (اعتماد) بھی حاصل کرنا ہے۔ ‘‘ وزیراعظم نے یہ بھی کہاکہ جن لوگوں نے ووٹ دیا ہے، وہ بھی ہمارے ہیں اور جنہوں نے ووٹ نہیں دیا وہ بھی ہمارے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے اقلیتوں کے تعلق سے یہ اعتراف بھی کیاکہ ’’کئی دہائیوں تک اقلیتی فرقے کے دل میں بی جے پی کے تعلق سے خوف کا ماحول پیدا کرکے مخالف پارٹیوں نے ان کا استعمال ووٹ بینک کے طور پر کیا ہے۔ اب ان پانچ برسوں میں ہمارا ہدف کام کی بنیاد پر اور رابطوں کی بنیاد پر ہر ایک کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور ان کا دل جیتنا ہے۔‘‘ وزیراعظم نے مزید کہاکہ ’’کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے اقلیتی فرقے کی تعلیم اور بنیادی سوالوں پر کبھی توجہ نہیں دی، صرف ڈر کا ماحول بنا کر ان کا ووٹ لینے کا کام کیا۔ اس لئے آنے والے پانچ برسوں میں ہمارا بنیادی کام ان کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ ‘‘
’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘وزیراعظم کے پہلے دور حکومت کا دلکش نعرہ تھا اور اب اس میں’ سب کا وشواس‘ حاصل کرنے کی بات نئی جوڑی گئی ہے، جو یقینا ملک کے کمزور اور مظلوم طبقوں میں امید کی ایک کرن ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن ہم وزیراعظم کے اس بیان کو جب عمل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ حالانکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے سینٹر ل ہال میں مذکورہ تقریر سے قبل دستور کی کاپی کے روبرو اپنا سر بھی جھکایا تھا اور اسے بوسہ بھی دیا تھا۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پوری طرح دستور پر عمل آوری کے پابند ہیں۔ وزیراعظم کا بیان اس حد تک تو درست ہے کہ سیکولر پارٹیوں نے آزادی کے بعد مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا ہے اور انہیں فرقہ پرستوں کا ڈر دکھاکر ان کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سیکولر پارٹیوں نے ان کی تعلیمی، معاشی ، اقتصادی اور سیاسی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا جس کا سب سے بڑا ثبوت سچرکمیٹی کی چشم کشا رپورٹ ہے۔ ہم یہاں تک تو وزیراعظم کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے مسلمانوں کو جس نفسیاتی خوف میں مبتلا رکھا ہے، وہ بے سبب نہیں تھا۔ اس خوف کی داغ بیل وزیراعظم نریندرمودی کے سنگھ پریوار نے ہی ڈالی تھی۔ سنگھ پریوار نے سیکولر پارٹیوں پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا جھوٹا الزام عائد کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کے خلاف سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہی فسادات کا لامتناہی سلسلہ چلا اور انہیں زبردست جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو اس ظلم وبربریت سے بچانے میں ناکام رہیں۔
آئیے وزیراعظم کے تازہ بیان کو ان کے گزشتہ پانچ سال کے اقتدار کے دوران ہونے والے سلسلۂ واقعات کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی سنگھ پریوار کے لوگوں نے گئو رکشا کے نام پر پورے ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ستمبر 2015 میں دادری میں محمد اخلاق کے وحشیانہ قتل سے لے کر الور میں پہلو خان کے قتل تک ایسے درجنوں واقعات بیان کئے جاسکتے ہیں جس میں مسلمانوں کو گئو کشی کے جھوٹے الزامات کے تحت ہجومی تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ بعض واقعات تو اتنے دل دہلادینے والے تھے کہ یہاں ان کا بیان کرتے ہوئے بھی قلم کانپنے لگتا ہے۔ ہرچند کہ وزیراعظم نے ان واقعات کو روکنے کے لئے بیان بھی جاری کیا اور نام نہاد گئو رکشکوں کا موازنہ غنڈوں اور موالیوں سے کیا۔ سپریم کورٹ نے بھی ایسے واقعات پر روک لگانے کے لئے صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کیں اور نوڈل افسر مقرر کئے گئے لیکن زمینی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں میں خوف وہراس کی لہر پیدا ہوئی۔ لیکن پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں دستور کو بوسہ دے کر کہی گئی باتیں اتنی دلکش تھیں کہ ان پر مسلمان یقین کرنے لگے۔ لیکن یقین کا یہ عرصہ ایک دن سے زیادہ بھی جاری نہیں رہ سکا۔ کیونکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات پیش آئے جس نے ایک بار پھر مسلمانوں کا ’وشواس‘ توڑ کر رکھ دیا۔
سب سے پہلی واردات مدھیہ پردیش کے سیونی ضلع میں گزشتہ جمعہ کو پیش آئی جہاں گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں ایک خاتون سمیت تین مسلم نوجوانوں کو پیڑ سے باندھ کر مارا پیٹا گیا اور اس کی ویڈیو بناکر اپنی بہادری کے ثبوت کے طورپر سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ اس واردات کے سلسلے میں جن پانچ ملزمان کو گرفتار کیاگیا ہے، ان میں کلیدی ملزم شوبھم بگھیل شری رام سینا کا صدر ہے۔ دوسرا واقعہ راجدھانی سے متصل ہریانہ کے گڑگاؤں شہر میں پیش آیا جہاں نماز پڑھ کر واپس آرہے ایک مسلم نوجوان کو پیٹا گیا اور اس سے زبردستی جئے شری رام اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگانے کے لئے کہاگیا۔ متاثرہ نوجوان محمد برکت عالم کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس سے ٹوپی اتارنے کو کہاگیا اور جب اس نے انکار کیا تو حملہ آوروں نے اس کے مذہب کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔ مخالفت کرنے پر اس پر گھونسے برسائے گئے۔ اس کا کرتا پھاڑ دیا گیا اور ٹوپی سڑک پر پھینک دی گئی۔ یہ واقعہ گڑگاؤں کے صدر بازار علاقے میں 25مئی کی رات کو پیش آیا۔ اس واقعہ کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی اور یہ سوشل میڈیا پر بھی بحث ومباحثے کا موضوع بنا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب اس واقعہ کی بنیاد پر بی جے پی کے نومنتخب ممبرپارلیمنٹ اور مشہور کرکٹر گوتم گمبھیر نے احتجاج درج کراتے ہوئے ملک کے سیکولر ہونے کی دہائی دی تو بھکتوں نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں خود بی جے پی لیڈروں کے طعنے سننے پڑے۔ بعد کو گڑگاؤں پولیس نے اس واقعہ کی لیپا پوتی کرکے اسے رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ تیسری اور زیادہ سنگین واردات بہار کے بیگوسرائے میں ہوئی جہاں ایک شخص کو روک کر اس کا نام پوچھا گیا اور جب اس نے اپنا نام محمد قاسم بتایا تو اسے گولی ماردی گئی۔ حملہ آور نے کہاکہ’’ تم مسلمان ہو پھر یہاں تمہارا کیا کام۔ تمہیں تو پاکستان جانا چاہئے۔‘‘ قاسم کی کمر میں گولی لگی اور وہ قسمت سے بچ گیا۔ پولیس اس واقعہ کے ملزم راجیو یادو کو تلاش کررہی ہے۔ یہ وہی بیگوسرائے ہے جہاں سے بی جے پی کے لیڈر گری راج سنگھ نے بھاری ووٹوں سے دوبارہ کامیابی حاصل کی ہے۔ وہی گری راج سنگھ ، جو اکثر مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک اور خبر اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے آئی ہے جہاں سیکورٹی جوانوں نے برقع پوش خواتین کو میٹرو ٹرین میں چڑھنے سے روک دیا۔ حالانکہ یہ خواتین لیڈیز پولیس کو اپنی تلاشی دینے کے لئے تیار تھیں۔ لیکن ایک ہی خاندان کی ان پانچ خواتین کو برقعہ کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک اور خبر ہریانہ سے ہی آئی ہے۔ یہاں صوبے کے سرکاری گئو سیوا آیوگ کے حکم پر پولیس نے عید کے دن بریانی مشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مشن کے تحت مسلم علاقوں میں گھرگھر جاکر ہانڈی چیک کرنے کا منصوبہ بنایاگیا ہے تاکہ یہ معلوم کیاجاسکے کہ کس جانور کا گوشت پکایا جارہا ہے۔ ہریانہ سرکار کی اس کارروائی کے خلاف ایڈووکیٹ شہزاد پونا والا نے مرکزی وزارت داخلہ اور قومی اقلیتی کمیشن سے رجوع کیا ہے اور کہاہے کہ عید کے موقع پر مسلمانوں کو دہشت زدہ نہ کیاجائے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا