Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 18, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔ششم قسط۔


مولانا فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*دیوبند اور بریلی: ایک دوسرے کی ضد*
دیوبند اور بریلی اگرچہ اتر پردیش میں ہیں، مگر دونوں کی ہیئتِ کذائیہ میں فرق بڑا ہے۔ دیوبند ایک قصبہ ہے، جب کہ بانس بریلی ایک شہر۔ لیکن دیوبند نے اپنی تاریخ، عظیم خدمات اور روشن کارناموں سے دنیا کے سودائے قلب میں اپنی ایک شناخت بنائی۔ اس کی حیثیت ڈیڑھ صدی سے احناف کے عالمی مرکز کی ہے۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا ایسا مستند ادارہ روئے زمین پر اب کہیں نہیں پایا جاتا۔ ملک و بیرونِ ملک کے سارے سنی ادارے اس کے دامن سے اپنی وابستگی کو باعثِ فخر گردانتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بریلی ہے۔ ممبئی کی *چائے کم پانی* کی طرح۔ اس کی حیثیت بدعات و خرافات کے ایک مرکز کی ہے۔ اس کی مرکزیت بھی زیادہ مقبول نہ ہو سکی اور ایشیا کے دو تین ممالک کے علاوہ اس کا کہیں بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔ قبولیتِ عامہ و تامہ کے معاملے میں دیوبند کی حیثیت ہمالے کی ہے اور بریلی کی حیثیت رائی کی۔ بریلی اور دیوبند دو ایسے مقامات ہیں، جن کے درمیان عموماً وہی نسبت سمجھی جاتی ہے جو نسبت آگ اور پانی کی ہے۔ علمی اصطلاح میں کہیے تو نسبتِ تباین۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ دیوبند ہمیشہ فراخ دل واقع ہوا ہے۔ بریلی فرقے کا کوئی بھی بندہ دیوبند آ جائے، دیوبند اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت ہوں، یا ادنیٰ حضرت، ان میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے بریلوی طبقے کے رہ نما کسی نہ کسی عنوان سے دیوبند آتے رہتے ہیں۔ چند برس قبل دیوبند سے شاکر نامی نوجوان دہشت گردی کے الزام میں دیوبند سے پکڑا گیا تو اس موقعے پر بانئ بریلویت کے پرپوتے جناب توقیر رضا خان صاحب بھی یہاں آئے تھے۔ دیوبند نے ان کی آمد پر اس طرح خوش آمدید کہا کہ ملک کی دینی فضا عطربیز ہو گئی اور خوش گوار یادوں کے ساتھ انہیں رخصت بھی کیا۔ مگر بریلی کے سینے میں دیوبند جیسا دل نہیں ہے۔ اگر آپ غیر بریلوی ہیں اور اپنے پورے مذہبی و مسلکی تشخص کے ساتھ ہیں تو مجدد صاحب اور ان کی ذریت کی  درگاہوں پر نہیں جا سکتے۔ اگر کسی طرح پہونچ بھی گئے تو لات گھونسوں سے تواضع کے لیے تیار رہیے۔ وہاں جا کر صحیح سلامت واپس آجانا 

خارقِ عادت ہی کہلائے گا۔ دیوبند کے نام سے انہیں اس قدر چڑ ہے کہ جب تک دو چار گالیاں نہ نکال لیں، ان کا جلسہ مکمل نہیں ہوتا۔ توقیر رضا خان صاحب دیوبند سے واپس آئے تو ان پر کفر کا فتویٰ اسی بریلوی توپ خانے سے چلایا گیا ۔ وہ تو بڑے دل کے تھے کہ تکفیری توپ بازوں کے سامنے ڈٹ گئے اور ان کی آتش دان کو ٹھنڈا کر کے چھوڑا۔
*حسام الحرمین کے مصنف کے ساتھ اگر ایسا ہو جائے تو۔۔۔*
آپ کو یاد ہوگا کہ بریلی کے نرالے مجدد دیوبند دشمنی میں اس درجہ آگے بڑھ چکے تھے کہ علمائے دیوبند کی کتابوں سے اپنے مطلب کی عبارات نکال کر انہوں نے جمع کیا اور مفتیانِ حرمین کے سامنے استفتا کی شکل میں انہیں پیش کیا۔ مختلف مقامات کی عبارتوں کو اس خوب صورتی سے یک جا کیا تھا کہ سب کی سب متصلِ واحد اور ایک ہی سیاق کی معلوم ہوتی تھیں۔ ان عبارات کے ظاہر سے کفر و الحاد ہی ٹپکتا تھا۔ جب یہی باتیں حرمین شریفین کے اربابِ افتا کے سامنے گئیں تو انہوں نے بے تکلف علمائے دیوبند پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ مجدد صاحب سفرِ حجاز سے واپس آئے تو اس قدر مسرور تھے کہ کیا کہا جائے! آتے ہی اس فتوے کو *حسام الحرمین* کے نام سے شائع کر دیا اور زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا کہ میں تو پہلے ہی سے کہہ رہا تھا کہ دیوبندی کافر ہیں اور اب تو حرمین شریفین نے بھی ان کے کفر پر مہر ثبت کردی ہے۔

علمائے دیوبند نے بریلوی مجدد کی حرکت دیکھی تو اپنی صفائی پیش کی اور حرمین شریفین کو اپنا قائل کر کے چھوڑا۔ پھر وہی مفتیانِ کرام، جنہوں نے دیوبندیت پر کفر کا فتویٰ داغا تھا، اب اس کی حمایت میں کھل کر آ گئے اور صاف صاف کہنے لگے کہ خان صاحب نے فراڈ کر کے ہم سے فتویٰ لیا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی کتاب *الشہاب الثاقب* اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی کتاب *المہند علی المفند* اسی پس منظر میں ہیں۔ انقلابِ زمانہ دیکھیے، ایک طرف بریلوی رہ نماؤں کی درگاہیں ہیں اور دوسری طرف علمائے دیوبند کی قبریں۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بانئ بریلویت اور ان کی ذریت کی درگاہیں دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ اگر حرمین شریفین کے مفتیانِ کرام ایک نظر ان درگاہوں پر ڈال لیں تو بالیقین انہیں مشرکانہ رسوم و اعمال کا مخزن کہہ دیں گے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے جھوٹ کو زیادہ چلنے نہیں دیا۔ علمائے دیوبند کی قبریں سادگی کی مثال بن گئیں اور بریلوی رہنماﺅں کی درگاہیں شرک و بدعات کے اڈے۔
*دیوبند اور بریلی کے کھٹے میٹھے تعلقات*
بریلی کا نام سماعت سے ٹکرائے تو پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ دیوبند کا اس سے کیا لینا دینا!! مگر ایسا ہرگز نہیں۔ بریلی سے دیوبند کے قدیم تعلقات ہیں ۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے والد مولانا ذوالفقار دیوبندیؒ اپنے بال بچوں سمیت برسوں یہاں مقیم رہے اور یہیں حکومت کی طرف سے محکمۂ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر کے عہدے پر فائز۔ *بریلی کالج* میں پروفیسری کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ 1851 میں شیخ الہندؒ کی ولادت بھی اسی سرزمین میں ہوئی۔
محمد اکبر علی مرحوم تھانہ بھون کے تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حقیقی بھائی۔ وہ بریلی نگر نگم کے سکریٹری تھے اور بڑے کار آمد۔ بریلی کے سرائے خام کی کئی عمارتیں آج بھی استعمال میں ہیں۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے یہاں برابر آتے۔

مولانا محمد منیر نانوتویؒ حضرت مولانا محمد احسن نانوتوی اور مولانا مظہر نانوتوی کے چھوٹے بھائی تھے۔ 1857 کے سرگرم کارکن اور مجاہد۔ جنگِ شاملی روپوش ہوئے اور عام معافی ملنے کے بعد باہر آئے تو سیدھے اپنے برادرِ اکبر مولانا احسن نانوتوی کے پاس بریلی پہونچے اور 1861 میں *بریلی کالج* میں ملازم ہو گئے۔ ملازمت کا یہ تعلق ریٹائرمنٹ پر ختم ہوا اور پنشن پائی۔ مولانا احسن نانوتوی نے مطبع صدیقی کے نام سے اپنا پریس قائم کیا تو وہ اس کے مہتمم بھی رہے۔ امام غزالیؒ کی *منہاج العابدین* کا ترجمہ انہوں نے *سراج السالکین* کے نام سے کیا تو اسے بھی اپنے بھائی مولانا احسن نانوتوی کے *مطبع صدیقی بریلی* سے چھاپا۔ یہ 1864 تھا۔
[جاری]