Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 21, 2019

ہندوستان اپنی تاریخ کے آٸینے میں.............قسط1.!!!


ازقلم/ محمد انور داؤدی قاسمی ایڈیٹر"روشنی"اعظم گڈھ/ صداٸے وقت۔
=========================
*قارئین کرام !*  ہم جس ملک میں رہتے اور بستے ہیں اسے بھارت کہا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی اسے کئی ناموں سے جانا جاتا ہے جیسے
بھارتا دیشم، ہندوستان،
ہند،
انڈیا اور آریہ ورت وغیرہ۔
*محل وقوع:*
ہمارا ملک جنوبی ایشیا میں واقع ہے جدید ہندوستان کے
دکھن میںبحر ہند
اتر میںہمالیہ ، قراقرم پہاڑ
مغرب میںبحر عرب
اورمشرق میںخلیج بنگالہ   ہے
*سرحدی ممالک :*
  اتر میںبھوٹان، چین اور نیپال ہے
مشرق میں
بنگلہ دیش اور میانمار ہے
مغرب میںپاکستان کی سرحد 
لگتی ہے
نقشہ۔۔آج کا ہندوستان

*ملک کے قدیم باشندے*
   الحمد للہ یہ ملک ہزاروں سال سے آباد ہے زمانۂ قدیم میں یہاں وحشی لوگ آباد تھے جو زندگی گزارنے کے آداب و اصول سے ناواقف تھے، پہاڑوں، غاروں اور درختوں پر رہتے تھے، پھل پھلاری اور جانوروں کے گوشت پر گزر بسر ہوتا تھا، درخت کے پتوں اور جانور کی کھالوں سے بدن ڈھانکتے تھے، اپنی ضرورت اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے درخت کی ٹہنیوں، ہڈیوں اور نوکیلے پتھروں کا اوزار بناتے تھے اسی لئے اس دور کو *پتھر کا زمانہ* کہتے ہیں۔
پھر رفتہ رفتہ آبادی کے ساتھ ساتھ معلومات بھی بڑھی تو گزر بسر میں تبدیلی آئی، کھیتی باڑی شروع ہوئی زیادہ تر لوگ جنگل سے ہٹ کر دریاؤں کے قریب گھر بنانا شروع کردئیے، اور ضرورت و حفاظت کے لئے تانبا کے ہتھیار بناتے اور تانبا کے برتن و زیور پہننے لگے پھر لوہے کا استعمال شروع ہوا ، اسی لئے اس دور کو *تانبا اور لوہے* کا دور کہا جانے لگا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ *ملک کے اصل باشندے*
دراوڑ، کول، بھیل وغیرہ ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دراوڑ بھی مغربی علاقے سے ملک میں داخل ہوئے تھے اور آکر اصل باشندوں سے مقابلے میں آگے نکل گئے۔
جنوبی ہند میں آج بھی دراوڑ لوگ پائے جاتے ہیں جو انھیں کی نسل سے ہیں، یہ پستہ قد اور گندمی رنگ کے تھے پھر مقامی آبادی میں شادی بیاہ کر کے سب آپس میں گھل مل گئے اور بعد کی نسلوں کا رنگ سیاہی مائل ہوگیا۔
ایک عرصے تک دراوڑ خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے پھر ان میں بگاڑ شروع ہوگیا کمزوروں کو ستانے لگے ظلم و زیادتی میں آگے نکل گئے تو اللہ نے ان پر دوسرے ظالم (آرین) کو مسلط کردیا
اسی دور میں یعنی آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار / یا چار ہزار سال قبل وسط ایشیا کی سطح مرتفع سے *آریہ نسل*
جو خانہ بدوش قوم تھی جانوروں کے چارے اور گرم علاقے کی تلاش میں مختلف گروہ میں تقسیم ہوکر مختلف خطے میں آباد ہوئی، چنانچہ ایک گروہ ایران آیا پھر انھیں میں سے کچھ لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان آئے، یہ لوگ سندھ اور پنجاب میں داخل ہوئے جہاں ان کا مقابلہ یہاں کے قدیم باشندے دراوڑوں سے ہوا۔
آرین قوم دراوڑ کے مقابلے میں کم متمدن تھی تعداد میں بھی کم تھے لیکن بڑی مضبوط اور جفاکش قوم تھی یہ لوگ عمدہ ہتھیار بنانا جانتے تھے اس لئے دراوڑ جو غرور وگھمنڈ میں چور تھے مقابلے میں پسپا ہوگئے اس طرح آریوں نے ان کے مکانات ، باغات اور کھیتوں پر قبضہ کرلیا، معلوم ہوا کہ آریہ سماج بھی جو اس وقت اپنے آپ کو برہمن کہتے ہیں ملک کے اصلی باشندے نہیں، دراوڑ کے مقابلے میں ان کا قد لمبا، رنگ گورا اور جسم گٹھیلا تھا۔
بہرحال رفتہ رفتہ دراوڑ اور آریہ بھی آپس میں گھل مل گئے اور آپس میں شادی بیاہ کرنے لگے اور رفتہ رفتہ ملک پر قابض ہوگئے خاص کر گنگا جمنا کے آس پاس کے علاقے اور جنوبی ہند کے علاقے میں پھیلے اور سینکڑوں سال حکومت پر قابض رہے۔
آریوں میں کئی مشہور بادشاہ گزرے ہیں انھیں میں سے *
*ایک بادشاہ گزرا ہے راجہ بھرت اسی کے نام پر اس ملک 
کا نام بھارت پڑا* ۔
غیر منقسم برٹش ہندوستان

اسی راجہ کی چھٹی پشت میں پانڈو نام کا راجہ تھا جس کی اولاد کو پانڈو کہا گیا اور اس کے بھائی بھرت کی اولاد کو کورو کہا گیا بعد میں کورو اور پانڈو میں بڑی زبردست خانہ جنگی ہوئی تھی۔
*آریوں کا زوال*
مہا بھارت کی جنگ کے بعد آریوں کا زوال شروع ہوا، ان لوگوں نے ظلم و ستم عام کر رکھا تھا اپنے کو سب سے اونچا اور اعلیٰ سمجھتے تھے، بیجا رسم و رواج میں لوگوں کو الجھا کر رکھ دیا تھا دوسروں کے حقوق غصب کرلئے تھے قربانی اور بھینٹ سے لوگ پر یشان ہوگئے اس وقت سماج کو  ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو لوگوں کی صحیح رہنمائی کرسکے ۔
چنانچہ راجہ *سدھو دھن کے گھر ۵۶۳ قبل مسیح گوتم بدھ پیدا* ہوئے جو بدھ مت کے بانی ہوئے جن کا اصلی نام سدھارتھ تھا بڑے ہوکر برہمنوں کی مخالفت کی گوتم بدھ کا ہم عصر ایک شہزادہ اور تھا جو ۵۹۹ قبل مسیح ویشالی گاؤں میں راجہ وردھ مان کے گھر پیدا ہوا تھا جس کا نام *مہا بیر تھا جسے جین مذہب کا بانی تصور کیا جاتا ہے*، یہ بھی ایک مصلح کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔
*سکندر کا حملہ اور موریا خاندان*
ذات پات اور متعدد سماجی برائیوں کی وجہ سے اور ملک میں باقاعدہ منظم حکومت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں تھیں، سندھ اور پنجاب کچھ عرصہ قبل ایرانیوں کے زیر نگیں تھے۔
اسی دوران مشہور فلاسفی ارسطو کا شاگرد *سکندر* جو یونان کا رہنے والا تھا ایران فتح کرنے نکلا اسے ملک گیری کی ہوس تھی
چنانچہ ۳۲۷ ق م
ایران اور قابل فتح کرتا ہوا سندھ میں داخل ہوا، اور دریائے جہلم پہنچا جہاں اس کا مقابلہ راجہ یورس سے ہوا اور فتحیاب ہوا۔
اس وقت ہندوستان میں مگدھ سلطنت سب سے زیادہ وسیع اور طاقت ور تھی اسی خاندان سے مہابیر کا تعلق بھی تھا اس کا *راجہ بم بسار* تھا آگے چل کر اسی خاندان کا ایک لڑکا *مہانندن راجہ بنا*
جس کی حکمرانی کیساتھ ہی مگدھ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا، مہانندن کی ایک شادی اس عورت سے ہوئی تھی جس کا تعلق نیچ ذات سے تھا جس سے ایک لڑکا نند نام کا پیدا ہوا تھا جسے تخت سے محروم کردیا گیا تھا ، بالآخر اس نے اپنی چالاکیوں کی بدولت سلطنت کو قبضہ میں لے لیا اور نند خاندان کا بانی بنا، اسی خاندان کے دور حکومت میں سکندر کا حملہ ہوا تھا۔

دوسری طرف اسی خاندان کا ایک فرد ناراض ہوکر پنجاب چلا گیا تھا اور سکندر کے ساتھ مل کر نند خاندان کا خاتمہ چاہتا تھا مگر کسی وجہ سے سکندر کی فوج آگے نہ بڑھ سکی اور سکندر واپس چلا گیا۔
*پھر باغی شہزادہ چندر گپت* نے اپنے ساتھ اس وقت کے ایک مشہور برہمن *چانکیا* کو بھی ساتھ ملا لیا تھا جو سازشی ذہن کا مالک تھا اسی کے مشورے پر چندر گپت نے پہلے  یونانی قبضہ کے خلاف بغاوت کی پھر نند خاندان کی سلطنت پر قابض ہوگیا۔
*قارئین کرام !*
  ہندوستان میں تین دور ایسے گذرے ہیں جس میں اس وقت کے بادشاہ قوت و طاقت، حکومت و تسلط کے اعتبار سے پورے ملک پر بلا شرکتِ غیر قابض تھے اور مالک تھے
*1۔۔۔۔موریا سلطنت*
*2۔۔۔۔مغلیہ سلطنت**3۔۔۔برطانیہ سلطنت*
موریا سلطنت کا بانی یہی *چندر گپت موریا* تھا اس کی ماں موریہ ایک شودر کی لڑکی تھی اسی کے نام سے موریا سلطنت سے شہرت ملی۔
چندر گپت موریا جسے تاریخ میں اشوک بھی کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال ق م ہندوستان کا بادشاہ بنا تھا یہیں سے تاریخ ہند کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، *یہی وہ پہلا حکمران تھا* جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کر کے ایک متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی تھی اس نے خلیج بنگال سے بحیرہ عرب تک اپنی سلطنت کو وسیع کردیا تھا اسی کے دور سے ہندو تہذیب و تمدن کی نشو و نما ہوئی اور *برہمنیت ازم* کے اثرو رسوخ کا دروازہ کھلا ۔
۳۲۲ تا ۲۹۸ ق م محض ۲۴ سال کی حکمرانی میں اس نے ہندوستان کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنادیا تھا ۔
اس کے انتقال کے بعد اس کا لڑکا *بندوسارا* جانشین ہوا، پھر اس کا پوتا اشوک ہوا جسے *اشوک اعظم*
کہا جاتا ہے یہ بدھ مت کا دشمن اور برہمن مت کا پیروکار تھا نہایت سفاک قاتل تھا۔
۲۷۲ ق م میں میں گدی پر بیٹھا اسے ملک گیری کا شوق تھا
261 ق م میں کلنگ کی لڑائی جس میں تقریباً ایک لاکھ آدمی مارے گئے تھے نے اسے ہلا کے رکھ دیا تھا اور اس کی کیفیت بدل دی اورپھر بدھ مت کا نہ صرف حامی بلکہ پرجوش مبلغ اور پرچارک بن گیا تھا اور بقیہ زندگی اسی کی تبلیغ میں صرف کی رعایا کی خدمت میں گزارا۔

اس کے مرنے کے بعد سلطنت اختلاف کا شکار ہوگئی اور ۱۸۵ ق م میں اس خاندان کا خاتمہ ہوگیا۔
اسی سلطنت کی سب سے مستحکم حکومت گپتا خاندان کی تقریباً ۲۰۰ سال تک محیط رہی اور پھر مختلف لوگ آتے رہے۔  (جاری ……)
Mdanwardaudi@gmail.com 8853777798
21/07/019