Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 11, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔17ویں قسط۔۔۔

✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*مداری فرقے کا تعارف*
بریلی کے بدعتی فرقوں میں ایک فرقہ *مداری* بھی ہے۔ اس سے وابستگان کی تعداد اگرچہ کم ہے، مگر اتنی بھی کم نہیں۔ مداری سن کر آپ چونک گئے ہوں گے کہ یہ بلا کیا ہے؟ آپ کی طرح ابتداءً میں بھی چونک گیا تھا۔ ہمارے دیار میں عام طور پر بندر نچانے والے کو مداری کہا جاتا ہے، لیکن یہ ایک فرقہ ہے۔ رضاخانیت سے بھی زیادہ قدیم، بلکہ بہت زیادہ ۔ اس کے مذہبی رہنماﺅں کے نام گو کہ رضاخانیوں جیسے ہوتے ہیں، مگر دونوں میں دوری مشرق و مغرب جیسی۔ وضع قطع دونوں کی ایک دم یکساں۔ زبان و بیان بھی چپلوں کے سائز جیسی۔ اصطلاحات بھی وہی۔ بزرگوں کے ساتھ عقیدت بھی ویسی ہی۔ بریلویوں کی طرح یہ بھی خود کو اہل السنۃ کہتے ہیں۔ ستم پر ستم یہ کہ حنفی بھی کہتے ہیں۔ لیکن ان کی حنفیت ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی رضاخانیوں کی۔ کوئی تعلیم شیعیت سے ماخوذ، کوئی مسئلہ غیر مقلدیت سے مستفاد، کوئی بات قادیانیت سے در آمد ۔ زیادہ تر خود ساختہ بدعات ۔ ان سب کے مجموعے کے ساتھ وہ سنی بھی ہیں اور حنفی بھی۔ دینِ کامل کا علَم سنبھالنے کا دعویٰ بھی ان کے نام پر 
چسپاں۔

*مداریوں اور رضاخانیوں میں مناظرے*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فرقہ بریلی کے سات آٹھ گاؤں میں اپنا غلبہ رکھتا ہے، جن میں پرتا پور، گمدا پور، سنیا اور فریدہ پور خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس کا موجودہ خلیفہ ڈاکٹر مرغوب الرحمن ہے، جو پیشے سے ڈاکٹر بھی ہے اور خانقاہ مداریہ کا سجادہ نشیں بھی۔ یہ بندہ خود کو سید بھی لکھتا ہے۔ اس کا نسب نامہ قطب المدار کے خلیفہ سے جا ملتا ہے۔ بریلی میں نسلاً بعد نسلٍ مداری خلافت اسی خاندان میں رہی۔ محمد ظفر مجیب مداری اس سلسلے کا کل ہند سجادہ نشیں ہے۔ جس کا قیام خانقاہ مداریہ مکن پور میں ہے ۔
رضاخانیوں اور مداریوں میں آئے دن نوک جھونک بھی چلتی رہتی ہے۔ رضاخانیوں کا دعویٰ ہے کہ اعلیٰ حضرت افضل ہیں اور مداریوں کا کہنا کہ اعلیٰ حضرت نہیں، قطب المدار افضل ہیں۔ ہم ہی قدیم ترین ہیں اور ہماری خدمات بھی قدیم ترین۔ رضاخانیوں کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ جناب قطب المدار سید نہیں اور مداریوں کے نزدیک سید ہی نہیں، سید السادات۔ بس انہیں باتوں پر دونوں کے درمیان مناظرے کا میدان گرم رہتا ہے۔ 1982 میں قطب المدار کے سید ہونے نہ ہونے پر مناظرہ ہوا ۔ یہ مناظرہ اجمیر میں تھا۔ اختر رضا خاں ازہری بریلویوں کے سرپرست تھے اور مناظر تھے مختار احمد بہیڑی۔ جب کہ مناظرے کے حکم ہاشمی میاں اور جیلانی میاں تھے۔ مداریوں کے بقول: رضویوں کی شکستِ فاش ہوئی۔ دوسرا مناظرہ اپریل 2016 میں بہیڑی میں ہونا تھا، اللہ جانے ہوا یا نہیں ہوا، تاہم اسی مجوزہ مناظرے سے متعلق دونوں کی نوک جھونک کا یہ حصہ پڑھنے کے لائق ہے:
*چوں کہ علمائے مداریہ بے حد محتاط اور خدا ترس ہیں، جب تک تحقیق در تحقیق نہیں فرما لیتے اس وقت تک کسی پر کوئی حکمِ شرعی نافذ نہیں فرماتے۔ لیکن جب تحقیق در تحقیق کے مراحل طے فرما لیتے ہیں تو پھر حکمِ شرعیہ نافذ فرمانے کوئی دریغ نہیں فرماتے ۔یہ تو طے ہے کہ علمائے رضویہ مناظرے میں حضور سید السادات مدار الثقلین نجیب الطرفین سیدنا سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ کو غیر سید ثابت کریں گے، لیکن علمائے مداریہ علمائے رضویہ کو کیا ثابت کر دکھائیں گے ابھی یہ بات پردۂ خفا میں ہے* ۔
*یہ فرقہ مداری کیوں کہلاتا ہے؟*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فرقہ سید بدیع الدین احمد کی طرف منسوب ہے۔ یہ تیسری صدی کے بزرگ تھے۔ مداریوں کے بقول: پانچ سو چھیانوے سال کی انہیں عمر ملی۔ 838 ہجری سالِ وفات ہے۔ ان کا مزار قنوج کے قریب قصبہ مکن پور میں ہے۔ مزار میں نے قریب سے تو نہیں دیکھا، لیکن یوٹیوب پر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ خانۂ کعبہ کی نقل کی کوشش کی گئی ہے۔ تقریباً ویسا ہی چوکور۔ اس پر غلاف بھی چڑھا ہوا۔ رنگ کالا نہیں، بلکہ گلابی۔ زیادہ تر گھی جیسا۔ اوپر گنبد بھی نظر آتا ہے، مگر دور سے۔ پاس سے تو ہرگز نہیں۔
*قطب المدار کون ہیں؟*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فرقہ خود کو جس شخصیت سے وابستہ کرتا ہے وہ سید بدیع الدین احمدؒ ہیں۔ ان کے بارے میں عجیب و غریب باتیں بتائی جاتی ہیں۔ ان کے آداب و القاب بھی حیرت ناک ہیں۔ یہ اپنے نام سے کم اور القاب سے زیادہ معروف ہیں۔ انہیں زندہ شاہ مدار، مدارِ پاک، مدار العالمین اور قطب المدار جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت پر ملا شیخ کامل کابلی نے یہ قطعہ بھی لکھ دیا ہے:
شاہے کہ کمالِ اسمِ اعظم با اوست
نقشِ آدم و نگینۂ خاتم با اوست
در ہند ظہور کرد بر نام مدار
حقا کہ مدارِ کارِ عالم با اوست
یعنی قطب المدار صاحب وہ جس شخصیت ہیں، جن کے بغیر دنیا کا نظام ہی نہیں چل سکتا۔
*عجیب عجیب عقائد*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطب المدار پر لکھنے والوں نے کافی صفحات سیاہ کیے ہیں۔ ان کے بارے میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لکھنے والے نے عالمِ خواب میں لکھا ہے یا پھر بھنگ کھا کر قلم چلایا ہے، ایک نمونہ آپ بھی دیکھیے، مداری سلسلے کا قلم کار لکھتا ہے:
*اس سلسلے کا ایک واقعہ مراۃ الاسرار میں نگاہوں سے گزرا ہے۔ جس میں با قاعدہ یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ حضرت شیخ سعداللہ کیسہ دار قدس سرہ نے حضور مخدوم اشرف کچھوچھوی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں عریضہ لکھ کر بھیجا اور پوچھا کہ شیخ بدیع الدین مدار کے سلسلے کی بابت کچھ وضاحت فرمائیے! تارک السلطنت سرکار سمناں نے اس تعلق سے بہت تفصیل سے جواب لکھا اور فرمایا کہ: شاہ بدیع الدین مدار ان مقربانِ اخص الخواص میں سے ہیں جنہیں بلا واسطہ صاحب الشرعیہ حضور سیدنا امام الانبیا علیہم السلام سے شرفِ ملازمت حاصل ہے اور ان کی پرورش و ترتبیت خاص حجرۂ مصطفوی میں ہوئی ہے* ۔
گویا یہ بزرگ سیدنا خاتم النبیین ﷺ کے خصوصی تربیت یافتہ اور آپ کے با اختصاص شاگرد ہیں۔ وہ صحابی ہی نہیں، بلکہ سارے صحابہؓ سے افضل۔
*ساڑھے پانچ سو برس تک نہ کھایا، نہ پیا*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید بدیع الدین احمد صاحب کے چاہنے والوں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ ان سے منسوب ایک کہانی وہ بھی سنائی جو دنیا میں کسی بھی صاحبِ ہوش کے گلے نہ اتر سکے، یہی مداری مضمون نگار رقم طراز ہے:
*حضرت مدارِ پاک کی رفیع الشانی اور علوِ مرتبت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آپ پانچ سو چھپن سال تک مقامِ صمدیت پر فائز رہے اور بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہے اور ساری عمر آپ کو کوئی بیماری لاحق نہیں ہوئی اور نہ تو ضعیفی کے آثار نظر آئے اور بارگاہِ نبوی سے عطا کیا گیا ایک حلۂ بہشتی پوری عمر کے لیے کافی و وافی ہو گیا، نہ پھٹا، نہ ہی میلا پرانا ہوا، الحمدللہ علیٰ ذالک*
*حضرت خضر علیہ السلام کی درخواست*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مداری فرقے کے مطابق قطب المدار صاحب صرف ہوا پی کے رہتے تھے۔ کھانے پینے کو ہاتھ نہ لگانا تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔ مداریوں نے انہیں مافوق الفطرت ہستی ثابت کرنے کے لیے انہیں مختارِ کل بھی لکھ دیا، حتیٰ کہ زندگی اور موت کا مالک بھی انہیں ٹھہرا دیا۔ وہی مضمون نگار یہ بھی لکھ مارتا ہے:
*شیخ محمد غوثی شطاری قدس سرہ نے گلزارِ ابرار میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام حضور مدار العلمین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محیت و ممیت کا اختیار آپ کو دے دیا ہے، جب کہ یہ خاصہ میرا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ اس میں اپنے آپ کو شریک نہ کریں۔ شیخ محمد غوثی شطاری لکھتے ہیں کہ اسی کے بعد آپ نے اپنی چادرِ زیست کو سمیٹ لیا اور دارِ فانی سے کوچ کر گئے* ۔
یہ اور ان جیسے سیکڑوں عقائد ہیں جنہیں ان شاءالله *بریلی کے بازار میں* میں مطبوعہ شکل میں پڑھیں گے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: ثقلینی اور نیازی فرقے کا تعارف]