Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 28, 2019

2015 میں اے پی جے عبد الکلام کے انتقال پر لکھا گیا مضمون!!


ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے انتقال پر ہندوستانی مسلمانوں سے ایک سوال۔
از۔۔۔۔۔۔۔ *عمران صدیقی ندوی*/صداٸے وقت۔
=========================
  ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے انتقال پر پورا ہندوستان گہرے صدمہ میں ہے۔ بلا تفریق مذہب ہر ایک انکی تعریف کر رہا ہے۔
ہم اس موقع پر تمام ہندوستانی مسلمانوں سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں.
اگر ایسے بڑے شخص کے خلاف کوئی زہر اگلے اور ان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہندوستان کا غدار کہے، تو کیا کوئی بھی ہندوستانی اس بات کو برداشت کرے گا ؟
نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ  ہندوستان کی اکثریت ڈاکٹر عبدالکلام کا دفاع کرے گی اور اس شخص یا تنظیم کے خلاف ہو جائے گی۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ؟

کیا وجہ ہے کہ ایک طرف ایک مسلمان کے خلاف کوئی ہندوستانی سننے کو تیار نہیں ہے اور دوسری طرف پورے مسلمانوں کے خلاف روز کچھ نہ کـچھ زہر اگلا جاتا ہے لیکن کوئی ہندوستانی کچھ کہنے کو تیار نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف کہی گئی غلط باتوں کا یقین بھی کرتا ہے۔
یہ دو مختلف صورت حال کیوں ہے ؟
اس سوال کا جواب وہ لوگ ضرور دیں جو ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی اکثریت اس لئے ہمارے خلاف ہے کیوں کہ ہم مسلمان ہیں۔
تو کیا ڈاکٹر عبدالکلام مسلمان نہیں تھے؟ 
وہ حضرات جو بھی جواب دیں۔
لیکن اگر آپ کسی بھی پڑھے لکھے نوجوان سے (چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو) پوچھیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالکلام سے اتنا متاثر کیوں ہیں؟
تو ان کا ایک ہی جواب ہوگا،کہ ہم  ڈاکٹر عبدالکلام کی  طرز زندگی سے متاثرہیں۔ جو کچھ انہوں نے انسانیت اور ہندوستان کے لئے کیا ہے وہ ہم کبھی بھی نہیں بھلا سکتیں ہیں،  ہندوستان کے صدر ہونے کے بوجود جس سادگی سے زندگی گزاری اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ  ڈاکٹر عبدالکلام  نے لوگوں کو ہمیشہ نفع پہنچایا تھا اسی لئے لوگ ان کی قدر کرتے ہیں۔ اور ان کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ہیں۔
اگر ہم ان تمام باتوں کو قرآن کے ایک لفظ میں بیان کریں تو قرآن اسے بقائے انفع کا قانون کہتا ہے،
*فَأَمَّا ٱلزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءٗۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِي ٱلۡأَرۡضِۚ كَذَٰلِكَ يَضۡرِبُ ٱللَّهُ ٱلۡأَمۡثَالَ*
ترجمہ : جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
یعنی جو جتنا انسانیت کو نفع پہنچائے گا  اسکی اتنی ہی قدر ہوگی۔

اگر آج بھی مسلمانوں کی اکثریت، ڈاکٹر عبدالکلام کی طرح اپنی نافعیت ثابت کر دے، تو کوئی کتنا بھی ان کے خلاف زہر اگلے، ہندوستان کی اکثریت، مسلمانوں کے ساتھ ہی رہے گی۔ اور ان کی قدر کرے گی۔ اور ان شاء اللہ اسلام کی دعوت بھی قبول کرے گی۔
انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام  بھی ہمیشہ  قومی وملکی مسائل میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ بلکہ ان معاملات میں قاعدانہ کردار ادا کیا کرتے تھے۔ جس کا نقشہ قرآن نے کچھ اس طرح کھیچا ہے
*قَالُواْ يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَـذَا* (هود )
ترجمہ : نہوں نے کہا "اے صالحؑ، اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں
*فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورة يونس)*
ترجمہ: آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

یہ اس بات کی دلیل تھی کہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ، نبوت سے پہلے بھی اپنی قوم میں خاص مقام رکھتے تھے۔ اور انکی قوم کو ان سے بڑی امیدیں ہوتی تھی۔
کیا آج بھی ہندوستانی قوم ہم مسلمانوں سے اسی طرح کی امید رکھتی ہے؟
کیا آج بھی ہم ہندوستان کے قومی و ملکی مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں؟
کیا آج بھی ہم ہندوستان میں اپنی افادیت ثابت کر رہے ہیں ؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ڈاکٹر عبدالکلام کے انتقال پر ہندوستانی مسلمانوں سے کئے جانے چاہئے۔ اور ان کا جواب مسلمانوں کو دینا ہوگا۔